Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نئے آرمی چیف ..... دیکھیں کیا ہوتا ہے

 
 
 یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ عمران کے یوٹرن سے ملکی سیاست پر کوئی اثر پڑیگا، پانامہ لیکس پر ہر شخص امیدوبیم کی کیفیت میں ہے
 
صلاح الدین حیدر
 
پاکستان میں دو نئی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ نئے آرمی چیف نے فوج کی کمان سنبھال لی اور چند دنوں بعد ہی تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان نے ایک اور یوٹرن لیا، پارلیمنٹ کا بائیکاٹ ختم کرنے کا اعلان کردیا۔ بظاہر تو دونوں باتیں خوش آئند نظر آتی ہیں، لیکن ان کا اثر ملکی سیاست پر کیا پڑے گا، یہ کہنا قبل ازوقت ہے۔ پس منظر میں دیکھا جائے تو جنرل قمر جاوید باجوہ، راحیل شریف سے مختلف نہیں ہوسکتے۔ وہ سابق آرمی چیف کی ٹیم کا حصّہ تھے، آرمی ہیڈکوارٹرز میں فوج کی تربیت اور نظام تربیت کو آگے بڑھانے میں کلیدی کردار رکھتے تھے۔ راحیل شریف نے (جو 3 سال کی مدت پوری کرنے کے بعد) 29 نومبر کو اپنے عہدے سے سبکدوش ہوکر ایک نئی تاریخ رقم کی ہے، اُن سے پہلے 3 جنرل ایوب خان، ضیاءالحق اور مشرف 10 سے 11 سال تک برسراقتدار رہے اور بڑی مجبوری سے اُن سے قوم کی جان چُھوٹی۔ ضیاءالحق تو خیر ریٹائرمنٹ کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے تھے لیکن مثل مشہور ہے کہ سامان 100 برس کا ، پل کی خبر نہیں.... باری تعالیٰ نے اُنہیں خود ہی بلالیا۔ مشرف نے ایوب خان کی طرح عوامی دباوکے تحت اقتدار چھوڑا۔
آج جبکہ نئے آرمی چیف آگئے ہیں تو چہ میگوئیاں شروع ہوگئی ہیں۔ کسی اور ملک میں فوجی سربراہ کی تبدیلی کوئی انوکھی بات نہیں سمجھی جاتی لیکن پاکستان میں لیاقت علی خاں کی شہادت کے بعد، فوج بلاواسطہ یا بالواسطہ اقتدار میں رہی۔ جنرل وحید کاکڑ نے بھی نواز شریف اور اُس وقت کے صدر غلام اسحاق خان کو گھر جانے پر مجبور کردیا تھا۔ سابق آرمی چیف راحیل شریف بھی کسی نہ کسی انداز میں حکومت پر حاوی تھے۔ ضرب عضب اُنہوں نے وزیراعظم کی اجازت کے بغیر شروع کیا اور قوم کو دہشت گردوں سے بڑی حد تک نجات دلا دی۔ خوشی کی بات ہے کہ جنرل قمر باجوہ نے بھی آتے ہی وزیرستان کا دورہ کیا، آئی ایس آئی کے ہیڈکوارٹر کا دورہ کیا۔ قبائلی علاقہ جات کے بارے میں معلومات حاصل کیں۔ ظاہر ہے کہ اُن کے کاندھوں پہ بھاری ذمہ داری آن پڑی تھی۔ پھر جنرل (ر) راحیل شریف نے جس راستے کا انتخاب کیا تھا اور جو مثال چھوڑی تھی، اُسے آسانی سے رد کیا جاسکتا ہے نہ اس سے ہٹا جاسکتا ہے۔ وزیرستان کے دورے پر باجوہ صاحب نے یہ صاف طور پر کہہ دیا کہ دہشت گردی کے خلاف مہم بلاکسی خوف و خطر جاری رہے گی۔ قوم کو اُن سے یہی اُمید تھی۔
اگر یہ کہا جائے کہ جنرل قمر باجوہ نے آتے ہی 6 نئے جنرل بنادیے اور فوج کی قیادت میں بنیادی ردوبدل کیا تو تعجب نہیں ہونا چاہئے۔ ہر لیڈر، تنظیم کا ہو، سیاسی پارٹی یا حکومتی محکمے کا، وہ کمان سنبھالتے ہی، اپنی ٹیم بناتا ہے اور ہونا بھی یہی چاہئے۔ مجھے یاد ہے، ایئرفورس کے سابق سربراہ ایئرمارشل نور خان نے پی آئی اے کا چیئرمین بنتے ہی سارے ڈائریکٹروں سے استعفے طلب کرلئے تھے۔ میرے پوچھنے پر جواب دیا کہ صلاح الدین یاد رکھو، کامیابی کے لیے اپنے اعتماد کے لوگوں کی ٹیم بنانی پڑتی ہے، ایسا نہیں کروگے تو ناکامی کا منہ بھی دیکھ سکتے ہو۔ اُس وقت تو مجھے عجیب سا لگا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ہی میں اُن کے قول کو ماننے پر مجبور ہوگیا۔ نور خان بہت دُوراندیش انسان تھے، جس کام میں ہاتھ ڈالا، کامیابیوں نے اُن کے قدم چومے۔ پی آئی اے کو بلندی پر پہنچادیا، اُس وقت کے فوجی صدر جنرل ضیاءالحق نے اُن سے کہا کہ پی آئی اے میں بہت زیادہ گڑبڑ ہے، ٹریڈ یونین کے لوگوں نے قیامت مچا رکھی ہے، سب کی چھٹی کردیں اور جو بے تحاشا لوگ بھر رکھے ہیں، اُن کو بھی گھر بھیج دیں تاکہ قومی ایئرلائن کا نظام صحےح چل سکے۔ نورخان نے بلاجھجک جواب دیا کہ جنرل صاحب (وہ ضیاءالحق کو جنرل صاحب ہی کہتے تھے، کبھی اُنہیں صدر مملکت نہیں کہا) کیوں اتنے خاندانوں کی بددعائیں لیتے ہیں، لوگوںکو بے روزگار کرنے سے کیا ملے گا، آپ سب کچھ مجھ پر چھوڑ دیں، میں پی آئی اے کو آگے بڑھانا چاہتا ہوں، ایئرلائن سے کوئی بھی تجارتی ادارہ اگر پسپائی اختیار کرتا ہے تو پھر اُس کی تنزلی کی انتہا نہیں رہے گی۔ وہ زمیں بوس ہوتا چلا جائے گا۔ پی آئی اے کو نئی راہیں تلاش کرنی پڑےں گی تاکہ اس کی آمدنی میں اضافہ ہوسکے۔ ضیاءالحق چپ ہوگئے، اُن کے پاس جواب نہیں تھا۔
آرمی چیف جنرل قمر باجوہ نے بھی آتے ہی 6 میجر جنرلز کو لیفٹیننٹ جنرل بنایا اور پھر فوراً ہی، اُن میں سے کئی ایک کو بھاری ذمے داریاں دے دیں، کراچی کے کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار کو رضوان اختر کی جگہ آئی ایس آئی کا چیف بنادیا۔ رضوان اختر نیشنل یونیورسٹی ڈیفنس کے صدر بنادئیے گئے۔ سندھ رینجرز کے سربراہ بلال اکبر کو ترقی دے کر اپنے ہی اسٹاف میں چیف آف جنرل اسٹاف بنایا۔ یہ بہت ہی اہم عہدہ ہے۔ ظاہر ہے اب فوج کے تمام یونٹس اور ادارے کی دیکھ بھال اور تنظیم لیفٹیننٹ جنرل بلال اکبر کریں گے۔ پھر نوید مختار اور بلال اکبر دونوں ہی کراچی آپریشن کی دیکھ بھال کررہے تھے، ظاہر ہے کہ اب وہ دونوں کراچی کے حالات پر خاص نظر رکھیں گے لیکن اس سے بڑی اور اہم بات یہ ہے کہ آخر فوج اور سویلین حکومت کے درمیان اب کس قسم کا رابطہ رہے گا۔ کیا فوج پہلے کی طرح خارجہ اور داخلی پالیسی پر براجمان رہے گی یا پھر نواز شریف اور اُن کے ساتھیوں کو اپنے طور پر کام کرنے دیا جائے گا، ایک اور اہم تبدیلی آئی ایس پی آر میں ہوئی، جہاں لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ کی جگہ ایک میجر جنرل کو لگادیا گیا ہے۔ مطلب یہی ہوا کہ آئی ایس پی آر کا کردار اب ملکی معاملات میں پہلے سے کم ہوجائے گا۔ ایک تو نئے آئی ایس پی آر چیف ایک رینک نیچے ہوگئے اور دوسرے شاید اب فوج ملکی معاملات میں کم سے کم مداخلت کرے۔ لگتا تو ایسا ہی ہے لیکن اگر کوئی اور صورت حال پیدا ہوتی ہے تو پھر اُس کا انتظار کرنا پڑے گا۔
آئی ایس آئی کے کردار کے بارے میں ابھی حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ پھر بھی افغانستان اور سیزفائر لائن پر کشمیر میں فائرنگ کے واقعات کے تناظر میں سراغ رساں ایجنسی کا کردار بہت اہم ہوگا، ہونا بھی چاہئے۔ ہند کے ارادے نیک نہیں نظر آتے۔ آئے دن دھمکیاں دی جاتی ہیں، کبھی نریندر مودی پاکستان کا پانی بند کرکے اسے صحرا میں تبدیل کرنے کی بات کرتے ہیں تو کبھی ہندوستانی وزیر داخلہ راج ناتھ پاکستان کو10 حصّوں میں تقسیم کرنے کے خواب دیکھتے ہیں۔ جو بات سوچنے کی ہے وہ یہ کہ پہلے کی طرح فوج نے اس کا جواب نہیں دیا بلکہ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار کو یہ ذمے داری نبھانی پڑی۔ مطلب یہ ہوا کہ فوج اب سویلین حکومت کو اولیت دینے پر راضی نظر آتی ہے۔
عمران خان کا پارلیمنٹ کا بائیکاٹ ختم کرنے کا فیصلہ بھی اسی تناظر میں دیکھنا پڑے گا۔ ظاہر ہے، عمران اپنی تمام تحاریک میں کامیابی حاصل کرنے سے قاصر رہے۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے اُن کی پانامہ لیکس کی درخواست پر فیصلہ دینے سے اجتناب کیا۔ ریٹائرمنٹ کو ترجیح دی جس پر اُنہیں تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا لیکن اب یہ کیس ازسرنو سنا جائے گا۔ دیکھیں سپریم کورٹ کیا راستہ اختیار کرتی ہے، فوراً ہی فیصلہ دیتی ہے، کیس سننے کے بعد یا اب یہ معاملہ طول پکڑ جائے گا۔ ہر شخص اُمید و بیم کی کیفیت میں مبتلا ہے۔ پاکستان کی سیاست ایک بار پھر نئے موڑ پر کھڑی ہے.... آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا....
******

شیئر: