Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ٹکڑے

 
آزادی کے بعد سے ہی ہندوستان کی دوسروں پر بزور قبضہ کرنے کی خو آج رنگ لا رہی ہے، اس وقت وہاں 67 علیحدگی پسند تحریکیں سرگرم ہیں
 
جاوید اقبال
 
آپ کیدھر کا ہے؟ اس نے سوال کردیا
کمپنی کی مہیا کی گئی میلی زرد وردی میں اس کا مختصر بدن مشین پر جھکا بڑے انہماک سے میرے دیئے گئے کاغذات کی فوٹو کاپی بنا رہا تھا۔ صبح کے 8 بجے تھے اور میرے طلبہ اپنے کمرہ جماعت میں خاموش بیٹھے اس امتحان کے انتظار میں تھے جس کی نقلیں تیار ہورہی تھیں۔ درحقیقت فوٹو کاپی مشین پر کام کیلئے ایک نوجوان سعودی مامور تھا لیکن وہ ابھی آیا نہ تھا اسلئے دفتر کی صفائی کرنے والے اس نوجوان لڑکے سے مدد کرنے کو کہا تھا۔ پھر اس نے مشین پر سے چہرہ میری طرف موڑا اور سوال دوبارہ کردیا۔ پاکستان سے ہوں۔ میرا جواب مختصر تھا لیکن پھر میں تجسس میں ایک اور سوال کر بیٹھا، اور تم بنگلہ دیش سے ہو؟ اس کا لہجہ ایسی ہی مخبری کررہا تھا۔ نہیں صاحب، انڈیا سے ہوں۔ کلکتہ کا۔ پھر مجھ سے رہا نہ گیا ، ایک اور سوال کیا کہ کیا حال ہے کلکتہ کا؟ اس کے سوکھے سانولے چہرے پر ملال اترا۔ ٹھیک نا ئیں صاحب۔ بہت لوگ ہے، سونے کی جگہ نائیں۔ پیسہ نائیں۔ لوگ رات سڑکوں کے دونوں طرف سوتے ہیں۔ پوتا، باپ، دادا، بہو، ماں، سب ایک جگہ ہی ہوتے ہیں۔ پھر ایک لحظے کے سکوت کے بعد وہ بولا لیکن ممبئی میں تو اور بھی برا ہے۔ وہاں بعض فیملی تو برسوں سے ایک فٹ پاتھ کی چھوٹی جگہ پر سور ہی ہے۔ اس نے کام ختم کیا اور فوٹو کاپی کیا گیا کام میرے ہاتھ میں تھماتے ہوئے ملتجی لہجے میں بولا، صاب آپ گاڑی میں آتے ہو۔ میں اسے صاف کردیا کروں ہر روز؟ بس مہینے کا 20 ریال ہوگا۔ آپ کم بھی دے دو۔ تمہارا نام کیا ہے؟ میں نے سوال کیا ۔ دھن داس صا ب، وہ بولا۔ اور پھر اس کی آواز میں امید لرزی ۔ تو صاب میں آج سے کام شروع کردوں۔ نہیں دھن داس، جہاں میری رہائش ہے وہاں کا بنگلہ دیشی حارس میری گاڑی کا خیال رکھتا ہے ۔ ہاں تمہاری مدد کی ضرورت ہوئی تو بتاوں گا۔ نحیف سانولے چہرے پر ناامیدی کی لہر اتری اور میرے مزید کچھ کہنے سے پہلے ہی وہ کمرے سے نکل گیا۔
ہمارے دفاتر میں جھاڑ پونچھ کرنےو الا کلکتہ کا دھن داس مجھے اس وقت یاد آیاجب میں نے ہندوستان کے وفاقی وزیر برائے امور داخلہ راجناتھ سنگھ کا گزشتہ دنوں بیان پڑھا۔ انہوں نے دھمکی آمیز انداز میں اعلان کیا کہ اس سے قبل تو پاکستان کے دو ٹکڑے ہوئے تھے، اب دس ٹکڑوں میں اسے توڑ کر نابود کیا جائے گا۔ راجناتھ سنگھ شیشے کے ایک ایسے محل میں بیٹھ کر جس کی دیواریں چٹخ رہی ہیں دوسروں پر سنگ زنی کررہے ہیں۔ ذرا اپنے گھر کی ہر لحظہ بڑھتی شکستگی کا احوال سمجھ لیں۔ آزادی کے بعد سے ہی ہندوستان کی دوسروں پر بزور قبضہ کرنے کی خو آج رنگ لا رہی ہے۔ اس وقت وہاں 67 علیحدگی پسند تحریکیں سرگرم ہیں۔ ان میں 17 بڑی جبکہ 50 چھوٹی ہیں۔ صرف آسام میں 34 تنظیمیں کام کررہی ہیں جو کہ وہاں کے 62 اضلاع میں بڑا موثر وجود رکھتی ہیں۔ شمال مشرقی ہند میں سیون سسٹرز کہلائی جانے والی تنظیم آسام ، تریپورہ، اروناچل پردیش ، میزورام، منی پور، ناگالینڈ، میگھالیہ میں سرگرم ہے۔ ان کے علاوہ بہار،جھاڑ کھنڈ، چھتیس گڑھ، اڑیسہ، مدھیہ پردیش، مہاراشٹر اور آندھرا پردیش میں بھی علیحدگی پسند گروہ مرکزی حکومت کا امن و سکون حرام کررہے ہیں۔ اس بات سے کوئی ہندوستانی رہنما انکار نہیں کرے گا کہ ناگالینڈ کے ناگا باڑی اور نکسل باڑی ایسی تحریک چلا رہے ہیں جس نے ہندوستانی وجو د کو حقیقی خطرے میں ڈال رکھا ہے۔ گزشتہ 4 برسوں کے دوران صرف ماو باغیوں کے ہاتھوں ہندوستانی فوج کے 900 اہلکار مارے جاچکے ہیں۔ اس خطرے کا اعتراف ہند کی مرکزی حکومت بھی کرتی رہی ہے۔ آسام میں سرگرم عمل 34 علیحدگی پسند تنظیموں میں یونائیٹڈ لبریشن فرنٹ، نیشنل ڈیموکریٹک فرنٹ، کے ماتا پور لبریش آرگنائزیشن، برچھا کمانڈو فورس، یونائٹیڈ لبریشن ملیشیا، مسلم ٹائیگر فورس، آدم سینا، حرکة المجاہدین ، حرکتہ الجہاد، گورکھا ٹائیگرفورس اور پیپلز یونائٹیڈ لبریشن فرنٹ شامل ہیں جبکہ وادی کشمیر پر قابض ہندوستانی فوج کے مظالم سے عاجز آکر متعدد علیحدگی پسند تحریکیں اٹھ کھڑی ہوئی ہیں جو وادی کو ہندوستانی چنگل سے آزاد کرانے کی جدوجہد کررہی ہیں۔ پنجاب کے سکھ بھی ہندوستانی حکومت کے لگائے زخم بھلا نہیں پا رہے وہ مندمل ہی نہیں ہورہے۔ وہاں ببر خالصہ انٹرنیشنل، خالصتان زندہ باد فورس، بھنڈرانوالہ ٹائیگر فورس، خالصتان لبریشن فرنٹ اور خالصتان نیشنل آرمی آزاد خالصتان کے قیام کیلئے جدوجہد کررہی ہیں۔ ریاست منی پور میں پیپلز لبریشن آرمی، منی پور لبریشن ٹائیگر فورس، نیشنل ایسٹ مائنا رٹنی فرنٹ، کوکی نیشنل آرمی اور کوکی ڈیفنس فورس اپنی ریاست کی آزادی کیلئے جدوجہد میں مصروف ہیں۔ ناگالینڈ میں نیشنل سوشلسٹ کونسل، تریپورہ میں آل تریپورہ ٹائیگرفورس، تریپورہ آرمڈ ٹرائبل والنٹیر فورس، تریپورہ مکتی کمانڈوز اور بنگالی رجمنٹ مرکزی حکومت کے خلاف بغاوت کئے بیٹھی ہیں۔ 20 برس پیشتر سے دارجلنگ کی نیپالی آبادی نے ہند کی مرکزی حکومت کیخلاف اعلان جنگ کررکھا ہے۔ ا ن کا مطالبہ ہے کہ انہیں ان کا آزاد گورکھا لینڈ دیا جائے جس کا اپنا جھنڈا اور قومی ترانہ ہو اور جس کی فوج کسی بھی طرح مرکزی حکومت کے تابع نہ ہو۔ آزادی اور علیحدگی پسندی کی 67 تحریکیں۔
فارسی کی ایک بے مثال ضرب المثل ہے۔ چاہ کن راچاہ درپیش۔ دوسروں کیلئے گڑھا کھودنے والا خود ہی اس میں گرتا ہے۔ ایک متحدہ ہندوستان کی تاریخ تو انتہائی مختصر ہے۔ 1857ء کے بعد انگریز نے بھی ریاستی نظام میں مداخلت نہ کی۔ ریاستوں کے حاکم عندالطلب باج ملک معظم برطانیہ کی خدمت میں بھجوادیا کرتے تھے اور پھر اپنی رعایا پر اپنے ہی صدیوں پرانے قوانین لاگو کرتے رہتے تھے۔ کہرام تو 1947ء کے بعد ہندوستان میں مچا۔ 571 ریاستوں اور راجواڑوں کو بزور شمشیر دہلی کے ماتحت کردیا گیا۔ صدیوں سے قائم ان وحدتوں کے حاکم رسوا ہوئے اور اکثر وطن چھوڑ گئے ۔ حیدرآباد اور کشمیر پر قابض ہونے کی کوئی تُک نہ تھی، قبضہ کیاگیا۔ آج وہ سب گڑھے سامنے ہیں۔ 67 علیحدگی پسند تحریکیں اور لاکھوں نادار دھن داس فٹ پاتھوں پر شب بسری کرتے ہوئے۔
ہندوستانی وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ اپنی سیاسی زندگی کے آغاز سے پہلے طبیعات کے استاد رہے ۔ برطانوی سائنسدان نیوٹن کا تیسرا قانون حرکت تو خوب سمجھتے ہوں گے۔ ہر عمل کے مساوی اور مخالف ایک ردعمل ہوتا ہے۔ نیوٹن بے چارے کے علم میں نہیں تھا کہ جوہری توانائی کا وجود اس کے قانون حرکت کو بعض حالتوں میں بے اثر کردے گا۔ راجناتھ سنگھ احتیاط کریں۔ پاکستان کے دس ٹکڑے کرنے کے عمل کی نیت کریں تو کہیں تباہ کن ردعمل ان کے 67 ٹکڑے نہ کردے۔ شکست و ریخت کا شکار شیشے کی دیواریں ایک ہلکے دھکے کی منتظر ہیں۔ 
******

شیئر: