Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سلمان اور آصف کامستقبل غیر یقینی

 
جو غلطی کی تھی اس کی سزا بھگت لی ،جب 3 میں سے ایک سزا یافتہ کرکٹر دوبارہ قومی ٹیم میں شامل ہوکر انٹرنیشنل کرکٹ کھیل سکتا ہے تو بقیہ2 کا کیا قصور ، ” سب سے یکساں سلوک“ کا نعرہ کہاں گیا؟دونوں کا سوال
 
 جمیل سراج ۔ کراچی 
 
فاسٹ بولر محمد عامر اسپاٹ فکسنگ میں ملوث ہونے کی سزا کاٹ کر ڈیڑھ سال سے پاکستان ٹیم میں دوبارہ انٹرنیشنل میچوں میں حصہ لے رہے ہیں جبکہ اسی کرکٹ کرپشن کیس کے دیگر دو سزا یافتہ کھلاڑیوں سلمان بٹ اور محمد آصف سزائیں بھگتنے کے باوجود تا حال اپنے مستقبل کے بارے میں غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہیں،یہ دونوں قومی کرکٹرز ماضی کی غلطیوں پر نادم اور ملک کی بدنامی کا سبب بننے پر شرمندہ ہیں، آنکھوں میں قومی ٹیم کی پھر سے نمائندگی کرنے کے خواب سجائے یہ دونوں کرکٹرز اپنے اپنے شعبوں میں عملی طور پر محنت کررہے ہیں، ان دنوں پی سی بی کی ہدایات پر عمل درآمد کرتے ہوئے ڈومیسٹک سیزن کھیلنے میں مصروف ہیں،قائد اعظم ٹرافی کے فائنل میں محمد آصف اور سلمان بٹ واپڈا ٹیم کی نمائندگی کر رہے ہیں جو حبیب بینک کی ٹیم کے خلاف نیشنل اسٹیڈیم کراچی میں برسر پیکار ہے، ان دونوں کرکٹرزکی نمائندہ اردو نیوز سے اسی موضوع پر سیر حاصل گفتگو ہوئی،انہوں نے جن خیالات کا اظہار کیا وہ نذر قارئین ہے۔
سابق کپتان اور افتتاحی ٹیسٹ بیٹسمین سلمان بٹ کا کہنا ہے6 سال قبل جو غلطی کی تھی اس کی سزا ہم نے کاٹ لی اس سزا کے نتیجے میں ہمارا بحیثیت کھلاڑی جو نقصان ہوا وہ تو قابل تلافی ہے لیکن ہماری عدم موجودگی کی وجہ سے پاکستان ٹیم کی مجموعی کارکردگی پر جو منفی اثرات مرتب ہوئے اس کا جواب دہ کون ہوگا، پاکستان کی ون ڈے رینکنگ میں تسلسل کے ساتھ تنزلی کا ذمہ دار کون ہوگا، قومی ٹیم میں ہماری پانچ برسوں کی عدم موجودگی کے باعث مختصر فارمیٹ کی ٹیمیں 2010ءسے اب تک روبہ زوال ہیں، جس کی وجہ یہ ہے کہ ٹیم میری بطور اوپنراور محمد آصف کی بطور بہترین فاسٹ بولرخدمات سے محروم رہی ہمیںسزا بھگتنے کے بعد ڈومیسٹک کرکٹ کھیلنے تک پابند کیا گیا جو ہم کھیل رہے ہیں ، ہم صرف اس امید اور یقین کے ساتھ ڈومیسٹک سیزن کھیل رہے ہیں کہ ہمیں آئندہ سیریز میں پاکستان کی دوبارہ نمائندگی کا موقع ملے گا ، جہاں تک میری گزشتہ کارکردگی کا سوال ہے تو میرا ٹیسٹ ریکارڈ یہی بتاتا ہے کہ میں قومی ٹیسٹ اوپنر کی حیثیت ابھی تک 33 میچوں میںکوئی تیس کی اوسط سے لگ بھگ دو ہزار 1889 رنز بناسکا ہوں،اس میں تین سنچریاں، دس نصف سنچریاں بھی شامل ہیں اس ریکارڈ کو دیکھ کر اگر یہ کہا جائے کہ میں نے رنز اسکورکرنے کی پیاس بجھالی ہے تو یہ سراسر غلط بیانی ہوگی جبکہ میری اب تک کی کوشش بہت اچھی نہیں تو بہت خراب بھی نہیں کہی جائے گی،اس کارکردگی کی روشنی میںمجھے مزید انٹرنیشنل کرکٹ کھیلنی ہے یا نہیں اس کا بہتر فیصلہ میں شائقین کرکٹ پرچھوڑتا ہوں جو بہتر منصف ہیں۔
جہاں تک میری اپنی ذاتی خواہش کا سوال ہے تو اس مرحلے پر یہی کہوں گامجھ میں ابھی کرکٹ کھیلنے کی بھوک باقی اور رنز اسکور کرنے کی پیاس ابھی ہے اس لئے میری ارباب اختیار یعنی پاکستان کرکٹ بورڈ حکام اور قومی سلیکٹرز سے یہی درخواست ہے کہ میری کوتاہیوں کو پس پشت ڈال کر میری حالیہ ڈومیسٹک سیزن کی کارکردگی کو سامنے رکھ کر پی سی بی آئین اور آئی سی سی قوانین کے مطابق میرے مستقبل کے بارے میں جو فیصلہ کریں مجھے وہ قبول ہوگا۔
دوسری طرف فاسٹ بولر محمد آصف، جن کو ان کی عمدہ، تیز اور سوئنگ بولنگ کے اعتراف میں مشہور آسٹریلین پیسر گلین میگرا کا نعم البدل کہا گیا ،نے کہا کہ اسپاٹ فکسنگ کی پاداش میں 5 سال سزا کاٹ چکاہوں، میری ابھی بہت کرکٹ باقی ہے مجھے بس پی سی بی اور آئی سی سی حکام سے ان کا دوٹوک موقف جاننے کیلئے ان سے رابطہ کرنا ہے، یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ جب تین میں سے ایک سزا یافتہ کرکٹر دوبارہ قومی ٹیم میں شامل ہوکر انٹرنیشنل کرکٹ کھیل سکتا ہے تو بقیہ دو کرکٹرز کو نظر انداز کیوں کیاجا رہا ہے، پی سی بی کا و ” سب کیلئے یکساں سلوک“ کا نعرہ کہاںگیا؟ میں یہی سب کچھ جاننے کی ہر ممکن کوشش کروں گا ۔جہاں تک پی سی بی کی سلیکشن کمیٹی کا سوال ہے تو اس سے مجھے یقینا انصاف کی امید ہے لیکن اس کیلئے یہ بہت ضروری ہوگا کہ پی سی بی کے سربراہ کی جانب سے قومی سلیکٹرز کو منصفانہ طریقہ انتخاب اپنانے کا اختیار حاصل ہو ، جب تک ہمارے کرکٹ نظام میں شفافیت عام نہیں ہوگی کھلاڑیوں کے انتخاب کا معاملہ یونہی حل طلب رہے گا ۔ 
******

شیئر: