Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اذان، سمع خراشی یا رحمت

24 گھنٹے میں ایک لمحہ بھی ایسا نہیں جس میں ہزاروں مؤذن اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور رسول کی رسالت کی گواہی نہ دے رہے ہوں

 

ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی۔ریاض

13 نومبر2016ء کو اسرائیلی پارلیمنٹ میں مسجد اقصیٰ (مسلمانوں کا قبلۂ اوّل) کے ساتھ ساتھ دیگر فلسطینی مساجد میں لاؤڈ اسپیکر کے ذریعہ اذان دینے پر پابندی کا ایک بل پیش کیا گیا، جس میں کہا گیا کہ چونکہ بیت المقدس اور دیگر علاقوں میں یہودی بھی رہتے ہیں، انہیں اذان کی آواز سے پریشانی ہوتی ہے اور ان کی طرف سے اذان پر پابندی کا مطالبہ بھی کیا جارہا ہے اس لئے اذان پر پابندی عائد کی جائے۔

اسرائیلی وزیر اعظم ’’بنیامین نیتن یاہو‘‘ نے اس قرار داد کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ بلا تفریق لوگوں کو پریشانی سے بچانا اسرائیلی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ دوسری طرف مسلمانوں اور فلسطین میں آباد عیسائیوں نے اس قرار داد کو آزادیٔ مذہب کے خلاف قرار دے کر اس کی شدید مذمت کی،نیز عیسائی پادریوں نے کہا کہ اگر آج اذان پر پابندی عائد کی گئی تو کل چرچ میں گھنٹہ بجانے پر بھی پابندی لگائی جائیگی۔ اپنے مذہب کو درپیش خطرے کے باعث یہودیوں کی مذہبی جماعتیں بھی اذان کی حمایت پر مجبور ہوگئیں اور اس طرح اس قرار داد پر عمل درآمد فی الحال روک دیا گیا۔ اس قرار داد کے پیش ہونے کے فوراً بعد اسرائیلی صدر ’’ریولن‘‘ ہندوستان کے سفر پر آئے تھے۔ ہندوستان ہمیشہ مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ کھڑا رہا ہے مگر نریندر مودی کے وزیر اعظم بننے کے بعد سے ہندوستان اور اسرائیل کے رشتوں کی ڈور مضبوط ہوتی جارہی ہے حتیٰ کہ29ستمبر2016ء کو سرجیکل اسٹرائک کے متعلق ہندوستان کے وزیر اعظم نے اسرائیل کی ظالم حکومت کو مثال کے طور پر پیش کرتے ہوئے کہا :

ہم نے وہ کیا جو اسرائیل کرتا ہے۔ اسرائیلی حکومت، جس نے نہتے فلسطینیوں پر ظلم کرنے کی انتہاکردی ہے، کے ساتھ موجودہ ہندوستانی حکومت کے بڑھتے ہوئے تعلق پر گاندھی جی، جواہر لعل نہرو اور مولانا ابوالکلام آزاد کے ملک میں رہنے والے عام لوگوں کو تکلیف پہنچی۔ ہندوستان میں بھی بھگوا دہشت گرد وقتاً فوقتاً ہندوستانی قوانین کے برخلاف اذان پر پابندی عائد کرنے کی مذموم کوشش کرتے رہتے ہیں لہٰذا ضرورت محسوس کی کہ اذان سے متعلق ایک مضمون تحریر کیا جائے تاکہ عام مسلمانوں کو واقفیت ہو کہ قرآن وحدیث کی روشنی میں اسلامی شعار ’’اذان‘‘ کا کیا مقام ہے اور اذان کے کلمات کے معنیٰ کیا ہیں تاکہ غیر مسلموں کو بھی سمجھایا جاسکے کہ اذان میں صرف خالق کائنات کی بڑائی کے ساتھ اس کے ایک ہونے اور محمد کے رسول ہونے کی گواہی دے کر مسلمانوں کو نماز قائم کرنے کی دعوت دی جاتی ہے۔

اذان کی ابتدا؟: بعض تاریخی روایات میں ہے کہ معراج کے سفر میں رسول اللہ نے فرشتوں کو اذان دیتے ہوئے سنا تھا۔ یعنی لیلۃ الاسراء میں آپ کو اذان صرف سنائی گئی تھی، اس کا حکم نہیں دیا گیا تھا۔ اس وجہ سے مکہ مکرمہ میں اذان نہیں تھی، بلکہ مدینہ منورہ ہجرت کرنے کے بعد جب ضرورت محسوس ہوئی کہ مسلمانوں کو نماز کے قیام کی خبر کس طرح دی جائے تو متعدد مشورے سامنے آئے لیکن ابھی تک فیصلہ نہیں ہوا تھا کہ حضرت عبد اللہ بن زید رضی اللہ عنہ نے جب اپنے خواب میں سنے اذان کے کلمات حضور اکرم کو سنائے، تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے بھی اذان کے لئے ان کلمات سے متعلق اپنے خواب دیکھنے کا تذکرہ کیا۔ بعد میں حضور اکرم کے حکم پر حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے پہلی اذان پہلی ہجری میں دی۔ اس کے بعد سے آج تک ہر مسجد میں ہر نماز کے لئے اذان دی جاتی ہے تاکہ مسلمان اپنی دیگر مصروفیات چھوڑکر مسجد پہنچ جائیں۔ اسلام کا صرف یہی ایک حکم ہے جس کے لئے ہر روز5 مرتبہ اذان دی جاتی ہے۔ پوری دنیا میں اذان: نماز ِفجر کی اذان سب سے پہلے دنیا کے مشرقی ممالک (مثلاً انڈونیشیا) میں شروع ہوتی ہے۔ اس کے بعد ملائیشیا، چین، بنگلادیش، ہندوستان، پاکستان، افغانستان، ایران، ترکمانستان، تاجکستان، ازبکستان، عمان، قطر،بحرین، سعودی عرب، یمن، کویت، عرب امارات، عراق، سوریا، فلسطین، اردن، ترکی، مصر، لیبیا، الجزائر اور یورپ وامریکہ میں مسلسل فجر کی اذان ہوتی رہتی ہے۔ ابھی اذانِ فجر کا یہ سلسلہ ختم بھی نہیں ہوپاتا کہ انڈونیشیا میں ظہر کی اذان مسجدوں کے مناروں سے بلند ہونے لگتی ہے۔بالکل اسی طرح پانچوں نمازوں کے وقت اللہ کے منادیوں کی آوازیں ہر وقت فضاء میں گونجتی رہتی ہیں۔ غرضیکہ24 گھنٹے میں ایک لمحہ بھی ایسا نہیں گزرتا کہ جس وقت ہزاروں مؤذن اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور رسول کی رسالت کی گواہی نہ دے رہے ہوں۔یہ اسلام کے حق ہونے کی ایک دلیل ہے۔ مسجدیں تربیت گاہیں: زمین کے تمام حصوں میں اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبوب مساجد ہیں۔ یہ آسمان والوں کے لئے ایسے ہی چمکتی ہیں جیسا کہ زمین والوں کے لئے آسمان کے ستارے چمکتے ہیں۔ ان مساجد کو نماز، ذکر وتلاوت، تعلیم وتربیت، دعوت وتبلیغ اور دیگر عبادتوں سے آباد رکھنے کا مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے۔

آج مسلمانوں میں جو دن بدن بگاڑ آتا جارہا ہے، اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارا تعلق مساجد سے کمزور ہوگیا ہے لہٰذا ہمیں چاہئے کہ ہم اللہ کے گھر یعنی مساجد سے اپنا تعلق مضبوط کریں کیونکہ مساجد مسلمانوں کی نہ صرف تربیت گاہیں ہیں بلکہ مساجد مسلم معاشرہ کی عکاسی بھی کرتی ہیں۔ دنیا میں سب سے پہلا گھر بیت اللہ ہے جو مسجد حرام کے وسط میں واقع ہے جس کی طرف رخ کرکے ہم ایمان کے بعد سب سے اہم رکن یعنی نماز کی ادائیگی کرتے ہیں۔ حضور اکرمنے مدینہ منورہ پہنچنے سے تھوڑا قبل قُبا بستی میں ’’مسجد قبا‘‘ اور مدینہ منورہ پہنچنے کے بعد سب سے پہلے جس مسجد کی بنیا رکھی وہی بعد میں مسجد نبویؐ کے نام سے موسوم ہوئی جو اسلام کے دنیا کے کونے کونے تک پہنچنے کا ذریعہ بنی۔مساجد سے جہاں مسلمانوں کی روحانی تربیت ہوتی ہے، یعنی ہم کس طرح منکرات سے بچ کر اللہ تعالیٰ کے احکام کے مطابق نبی اکرم کے طریقہ پر زندگی گزاریں، وہیں سماجی زندگی میں بھی رہنمائی ملتی ہے کیونکہ جب مسلمان آپس میں دن میں 5 وقت ملتا ہے تو ایک دوسرے کے مسائل سے واقفیت ہوتی ہے۔ ایک دوسرے کو سلام کرتا ہے، جمعہ وعیدین کے موقع پر بڑی تعداد میں لوگوں سے ملاقات ہوتی ہے، اس کی وجہ سے بیمار کی عیادت کرتا ہے، جنازہ میں شرکت کرتا ہے، ایک دوسرے کے کام آتا ہے، محتاج لوگوں کی مدد کرتا ہے اور بندوں کے حقوق کو ادا کرنے کا احساس پیدا ہوتا ہے، یہ سارے امور مسجدوں کا اصلاح معاشرہ میں اہم کردار کی حیثیت رکھتے ہیں۔

 

مکمل مضمون روشنی 16دسمبر2016کے شمارے میں ملاحظہ فرمائیں

شیئر: