Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مسائل کے حل کی اصل جگہ پارلیمنٹ

 
لوگوں کو کرپشن کے عنوان پر متحرک کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے، پی ٹی آئی نے پارلیمنٹ کا درست استعمال کیا ہوتا تو حکومت آج زیادہ جوابدہ ہوتی
 
ارشادمحمود
 
پارلیمنٹ کے اجلاس کا بائیکات ختم کرنے کے اعلان نے تحریک انصاف کی خوب جگ ہنسائی کا ساماں کیا۔سوشل میڈیا جو آج کل رائے عامہ ہموار کرنے اور نئے رجحانات متعارف کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ بن چکاہے،عمران خان کی خوب بھد اڑائی اور انہیں مسلسل ”مسٹر یوٹرن“ کے نام سے پکارا جاتاہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ تحریک انصاف نے پارلیمنٹ کا رخ کرکے ایک صائب فیصلہ کیا ہے۔ پارلیمنٹ کا مسلسل بائیکاٹ ایک غیر دانشمندانہ فیصلہ تھا جس کی رائے عامہ اور معاشرے کے فعال طبقات نے کبھی بھی تائید نہیں کی۔اب دیر آید درست۔عمران خان اور تحریک انصاف کے پارلیمنٹ میں واپسی کے فیصلے کا خیر مقدم کیا جاناچاہیے۔یہ حقیقت ایک بار پھر آشکار ہوئی کہ سیاست کا میدان پارلیمنٹ ہے،ڈی چوک نہیں۔
گزشتہ ساڑھے3 برسوں میں عمران خان کی تحریک انصاف کا زیادہ وقت سڑکوں پر گزرا۔چنانچہ پی ٹی آئی ایک احتجاجی پارٹی بن چکی ہے۔ اسے مسائل کے حل کےلئے ایک ہی راہ سوجتی ہے اور وہ ہے سڑکوں، بازاروں اور گلی کوچوں میں دھرنا اور مخالفین کے لتے لینا۔پارلیمنٹ میں عمران خان کادل نہیں لگتا۔یہاں خواجہ آصف جیسے "بگڑے بچے" پہلے سے پائے جاتے ہیں جو اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کےلئے ہر وقت کمر بستہ رہتے ہیں۔ایک زمانے میں پیپلزپارٹی بھی ضیاءالحق کی طویل آمریت کی مخالفت کرتے کرتے ایک احتجاجی پارٹی بن گئی تھی چنانچہ پاکستان میں اسے جہاں بھی حکومت ملی وہ کوئی کارنامہ سرانجام نہ دے سکی۔لڑتے جھگڑتے اس کا وقت گزرگیا۔آصف علی زرداری نے اسے کچھ استحکام دیا اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اس کے مسلسل ٹکراوکو بھی کم کیا۔
  تحریک انصاف کی لیڈرشپ کا خیال ہے کہ ان کی پارٹی جھگڑے سے نمو پاتی ہے،عوامی توجہ کا مرکز بن جاتی ہے اور میڈیا پر چھاجاتی ہے۔حکومت کو مسلسل دفاعی پوزیشن میں رکھتی ہے اور رفتہ رفتہ اس کے اعصاب شل کردےگی بالخصوص شریف برداران کی ہوا اکھاڑ دےگی۔تصادم اور مسلسل تصادم سے اس کے کارکن اور لیڈر بھی اب خوش رہنے لگے ہیں اور انہیں اس میں لطف آتاہے۔ علاوہ ازیں تحریک انصاف کے لوگ اب حب الوطنی پر بھی اپنی اجارہ داری کا دعویٰ کرتے ہیں۔
تحریک انصاف والوں کی نیت پر شک و شبہ کی ضرورت نہیں لیکن جیساکہ پہلے بھی ان کالموں میں عرض کیا ہے کہ ہمارے معاشر ے میں کرپشن اور بری حکومت کےخلاف کوئی تحریک اٹھانا مشقِ لاحاصل ہے۔ ایک ایسا معاشرہ جس کا بڑا حصہ زراعت سے منسلک ہو، جہا ں شہری سہولتوں کا فقدان ہو،جہاں 6کروڑ لوگ خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کررہے ہوں اور ایک کروڑ 12 لاکھ بچوں نے اسکول کا منہ تک نہ دیکھا ہو،جہاں 11بچوں میں سے ایک اپنی پانچویں سالگرہ منانے سے قبل اس جہانِ فانی سے کوچ کرجاتاہو اور جہاں12 ہزار خواتین بچے کی پیدائش کے دوران مرجاتی ہوں وہاں لوگوں کو کرپشن کے عنوان پر متحرک کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔
سپریم کورٹ اب پانامہ کیس چھٹیوں کے بعد سنے گی اور بنچ بھی نیا تشکیل پائےگا۔ پارلیمنٹ میں اس پر بحث ہو نہیں سکتی کہ مقدمہ عدا لت عظمیٰ میں زیر بحث ہے۔اگر عوامی دباو نام کی کوئی شہ ہوتی تو پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ پانامہ کیس کو ضرور اہمیت دیتے۔یہ سوال بار بار پوچھنے اور اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ہمارے سماج میں بدعنوانیوں اور بری حکومتوں کےخلاف اٹھنے کی صلا حیت اور سکت کیوں سلب ہوچکی ہے؟اس پر جنتا بھی تبادلہ خیال کیا جائے ایک بات سمجھ میں آتی ہے کہ ذہنی غلامی کی صدیوں پر محیط تاریخ کے اثرات ابھی ہمارے دل اور دماغ پر نہ صرف موجود ہیں بلکہ انکے نقوش گہرے اور انمٹ ہیں۔ آزادی کے مفہوم سے ہمارا سماج پوری طرح آگاہ ہی نہیں۔تاجِ برطانیہ کے زمانے میں لوگ ریاستی اداروں اور مملکت کی اونرشپ نہیں لیتے تھے کیونکہ وہ ان اداروں کو اغیار کی جیب کی گھڑی اور ہاتھ کی چھڑی تصورکرتے تھے۔وہی ذہنیت ابھی تک کارفرما ہے۔شہری اکثر ریاستی معاملات ہی سے نہیں بلکہ خود ریاست سے بھی لاتعلق ہیں۔
بدقسمتی سے طبقہ اشرافیہ نے ملک سے محبت ، اس کےلئے قربانی اور اپنے شہریوں کی عزت ووقار کا خیال رکھنے کی کوئی قابل ذکرمثالیں قائم نہیں کیں جس کے سبب ہر طرف لاتعلقی کا ساماحول ہے۔عام تاثر یہ ہے کہ طبقہ¿ اشرافیہ میں سب ایک دوسرے کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں۔ان کا طرززندگی ایک ہے۔ ان سب کے کاروبار ہی نہیں رشتہ داریاں بھی سانجھی ہیں۔یہ اے کلاس ہے جو ملک کے تمام وسائل پر قابض ہے لہذا عام شہری کسی بھی مسئلہ کی اونر شپ نہیں لیتا۔ وہ ریلوے اسٹیشن پر پانی کے کولر کے ساتھ لگے ہوئے گلاس دیکھتا ہے تو انہیں اٹھا کر گھر لے جاتاہے۔وہ گٹر پر لگا ڈھکن دیکھتاہے تو انہیںکباڑ میںبیچ کر پیٹ کی آگ بجھاتاہے۔ جس کو جہاں موقع ملتاہے وہ کمزوروں، لاچاروں اور یتیموں پر سینہ زور ی کرتاہے۔پیسہ اور تعلقات ہی کامیابی کی معراج اور شاہ کلید سمجھے جاتے ہیں۔اگر دھن دولت ہی سب کا مطمع نظر ہے تو پھر ملکی ترقی اور شفاف نظام ِحکومت کی فکر محض دکھاوا اور ڈرامے کے سوا کیا ہے؟
تحریک انصاف نے بہت زور مارا لیکن رائے عامہ کے ایک قلیل کے حصہ کے سوا لوگوں کی بھاری اکثریت اس مہم سے لاتعلق رہی۔اب پیپلزپارٹی بھی الیکشن کے دن قریب آتے دیکھ کر حزب اختلاف کا پرچم اٹھائے میدان میں اتر چکی ہے۔ گلگت بلتستان، آزادکشمیر اور سندھ میں انہوں نے شفافیت اور اچھی حکومت کی فراہمی کے جو جھنڈے گاڑے ہیں ایک عالم اس کا گواہ ہے۔پارلیمنٹ کے حالیہ اجلاس میں خوب ہنگامہ برپا ہوا کہ کون پہلے بولے گا۔پارلیمنٹ کا ہنگامہ کوئی نئی بات نہیں۔ضروری ہے کہ معاملات پارلیمنٹ میں حل ہوں گلی اور کوچوں میں نہیں۔پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف نے اگر پارلیمنٹ کا درست استعمال کیا ہوتا تو حکومت آج زیادہ جوابدہ ہوتی اور اس کا زیادہ سرعت سے احتساب کیا جانا ممکن ہوتا لیکن انہوں نے زیادہ وقت پارلیمنٹ سے باہر ہنگامہ آرائی میں گزار دیا۔ 
******

شیئر: