Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایمان نہیں تو کچھ بھی نہیں

ا سے پہاڑکے اوپر لے جاؤ اور دین سے پھرنے کی ایک بار پھر دعوت دو، اگر پلٹ جائے تو ٹھیک،ورنہ اسے دھکا دے کر نیچے گرا دینا

 

گزشتہ سے پیوستہ

عبدالمالک مجاہد-- ریاض

کیا آپ نے کبھی سوچا کہ یہ ایمانی قوت نہ تھی تو او رکیا تھا کہ سیدنا بلال بن رباح ؓکے سینے پر گرم پتھر ہے ،نیچے گرم ریت ہے۔ ان کو پتھریلی زمین پر گھسیٹا جا رہا ہے مگر اس کے باوجود وہ احد احد پکار رہے ہیں۔ ایمان کی بات آئی ہے تو چلئے میرے ساتھ ایک بڑے اجتماع کو دیکھتے ہیں۔ ایسا اجتماع انسانی آنکھ نے کم ہی دیکھا ہوگا۔ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ انسانی آنکھ نے بہت سارے ایسے مناظر دیکھے ہیں جنہیں تاریخ کبھی بھلا نہیں سکی۔ سعودی عرب کا مشہور شہر نجران مملکت کے جنوب میں واقع ہے۔ صدیوں پرانے اس شہر میں ہزاروں لوگ جمع ہیں اور وہ اونچی آواز سے کہہ رہے ہیں :

آمَنَّا بِرَبِّ الْغُلَامِ۔ ’’ ہم اس لڑکے کے رب پر ایمان لاتے ہیں۔‘‘

قارئین کرام! ہم بھی ایمان کا دعویٰ کرتے ہیں مگر ذرا اُس اجتماع کا جائزہ لیجئے۔ عیسیٰؑ کی وفات کے 500سال بعد کی بات ہے کہ اس وقت کا بادشاہ’’ ذو نواس‘‘ بڑا ہی جابر اور متکبر تھا۔ وہ کسی کو کچھ سمجھنا تو درکنار کسی کو خاطر میں بھی نہ لاتا تھا۔ اقتدار کا نشہ بڑا عجیب ہوتا ہے، اس نے اعلان کر رکھا تھا کہ میں لوگوں کا صرف بادشاہ نہیں بلکہ ان کا معبود اور رب بھی ہوں چنانچہ اس کی قوم کے لوگ خوف اور لالچ کی وجہ سے اسی کو رب مانتے تھے۔ بادشاہ کے پاس ایک بوڑھا جادوگر تھا۔ یہ جادوگر بڑا ہی خبیث تھا ۔ یاد رکھیں جادوگر سارے ہی بُرے اور خبیث ہوتے ہیں۔

یہ لوگ اندر سے اللہ تعالیٰ کے منکر ہی ہوتے ہیں۔ تبھی تو یہ جادوگری کرتے ہیں۔ اللہ کے رسولنے ان جادوگروں کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے کہ جو شخص کسی جادوگر کے پاس جائے، اس کی باتوں کی تصدیق کرے تو گویا اس نے محمدکی نبوت کا انکار کر دیا۔ جادو کرنا کفرہے ‘اسے سیکھنا اور جادوگری کرنا کفر ہے۔ جس جادوگر کا میں ذکر کر رہا ہوں باشادہ کا بڑا ہی معتمد اور خاص آدمی تھا ۔بادشاہ اس کی بڑی عزت اور احترام کرتا اور اس کی باتوں کو اہمیت دیتا تھا۔ ایک دن جادو گر بادشاہ سے ملنے کے لئے آیا۔ بادشاہ نے حسب سابق اس کی بے حد تکریم کی۔ اسے اپنے پاس بٹھایا اور پھر دونوں گفتگو کرنے لگے۔ جادوگر کہنے لگا: بادشاہ سلامت! میں اب بہت بوڑھا ہو گیا ہوں۔ کسی وقت بھی میں اس دنیا سے رخصت ہو سکتا ہوں۔ ایسا کریں کہ اپنی سلطنت میں کوئی نہایت ذہین و فطین بچہ تلاش کریںاور اسے میرا شاگرد بٹھا دیںتاکہ میں اسے جادو سکھا دوں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ میرے مرنے کے بعد اس ملک میں کوئی جادو گرہی باقی نہ رہے۔ بادشاہ نے جادوگر کی بات سے اتفاق کیا۔

اس نے اسی وقت اپنے حاجب کو بلوایا۔اسے اشارہ کیا کہ جاؤ اور فوراً شہر میں سب سے ذہین و فطین بچے کو تلاش کر کے اسے میرے حضور پیش کرو۔ ایک نو عمر لڑکا جو پورے شہر میں اپنی ذہانت و فطانت ‘ حاضر جوابی اورقوی حافظہ میں معروف تھا‘ آناً فاناً اسے بادشاہ کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے۔ بادشاہ نے دیکھا تو اسے بھی پسند آیا۔ لڑکے کو بادشاہ کی خواہش سے آگاہ کیاگیا کہ وہ فلاں جادو گر سے کالا علم سیکھے گا۔ بھلا اسے کیا اعتراض ہو سکتا تھا۔ لڑکے کو جادوگر کے حوالے کر دیا گیا اور وہ جادو سیکھنے لگا۔ لڑکے کا گھر قدرے دور تھا۔ وہ ہر روز صبح سویرے اپنے گھر سے جادو گر کے گھر کی طرف جاتا۔ راستے میں ایک راہب کی کٹیا تھی۔ یہ راہب اکیلے رب کی عبادت کرتا رہتا تھا۔ ایک دن لڑکا راہب کی کٹیا کے پاس سے گزرا تو اس کے قدم راہب کی کٹیا کی طرف مڑ گئے۔ کٹیا میں داخل ہوا تو راہب نے اس سے کچھ باتیں کیں۔ اسے راہب کی باتیں بڑی اچھی لگیں۔ اگلے دن وہ پھر راہب کے پاس چلا گیا۔ اس سے باتیں کرنے لگا۔ راہب کی باتوں میں اخلاص تھا۔ تقویٰ تھا‘ اللہ سے محبت کی باتیں تھیں۔ سچی اور حقیقت پر مبنی باتیں لڑکے کے دل میں اترتی چلی گئیں۔ اب تو اس نے باقاعدہ راہب کی شاگردی اختیار کر لی۔ وہ آتے جاتے راستے میں راہب کے پاس رکتا‘ اس کی باتیں سنتا اور انہیں اپنے دل و دماغ میں محفوظ کر لیتا۔ راہب اسے عقیدۂ توحید سکھا تا۔ دونوںکے درمیان اللہ پر ایمانِ کامل اور یقین کامل کی باتیں ہوتیں۔ جادوگر اسے کالا علم پڑھاتا اور سکھاتا اور راہب اسے سچے اور حقیقی رب کی معرفت کا سبق پڑھاتا۔ دونوں علم اس کے ذہن میں راسخ ہوتے چلے گئے۔ سبحان اللہ! ایک خیر کا علم ،دوسرا شر کا علم تھا۔ لڑکا علم حاصل کرتا رہا،اسے عقیدۂ توحید کی باتیں زیادہ اچھی لگتیں۔ اب تو ایسا ہوا کہ اس کی خواہش یہی ہوتی کہ وہ زیادہ وقت راہب ہی کے پاس گزارے۔ جادو گر نے ایک دن لڑکے کو اس وجہ سے مارا کہ تم تاخیر سے کیوں آئے ہو۔ اس نے سختی سے کہا : تم صبح سویرے میرے پاس پہنچ جایا کرو۔ لڑکے نے راہب کو بتایا کہ جادوگر میرے دیر سے پہنچنے پر ناراض ہوتا ہے۔

راہب نے اس کا حل یہ بتایا کہ جب تم جادوگر کے پاس جاؤ تو اسے بتادیا کرو کہ گھر والوں نے روک لیا تھا،اس لئے تاخیر ہو گئی اور اگر گھر والے پوچھیں تو ان کو بتا دیا کرو کہ جادو گر نے روک لیا تھا۔ اس طرح وہ لڑکا مزید علم حاصل کرتا چلا گیا۔ پھر ایک دن بہت بڑا واقعہ رو نما ہو گیا۔ لڑکا راستے سے گزر رہا تھا کہ اسے لوگوں کا ہجوم نظر آیا۔ آگے بڑھ کر دیکھا کہ ایک بہت بڑا خوفناک جنگلی جانور راستے میں کھڑا ہوا ہے جس کی وجہ سے راستہ بند ہے اور لوگ پریشانی کے عالم میں ہیں۔ یہ لوگ جانور سے خائف بھی تھے۔ لڑکے نے سوچنا شروع کیا۔ پھر اپنے آپ سے کہنے لگا :

آج مجھے معلوم ہو جائے گا کہ راہب کی بات بہتر ہے یا جادوگر کی باتیں درست ہیں۔ اس نے ایک پتھر اٹھایا اور اللہ تعالیٰ سے دعا کی: میرے رب! اگر راہب کی باتیںاور اس کا طریقہ جادو گر سے افضل اور بہتر ہے اور تجھے راضی کرنے والا ہے تو پھر اس جانور کو ہلاک کر دے تاکہ لوگ راستے سے گزر سکیں۔ اس نے یہ دعا مانگی اور اس کے ساتھ ہی اس پتھر کو جانور کی طرف پھینک دیا۔ چھوٹا سا پتھر ‘مگر اللہ رب العزت نے اس میں قوت اور طاقت پیدا فرما دی۔ پتھر لگتے ہی دیوہیکل جانور ہلاک ہو جاتا ہے۔ جانور کے مرنے کے ساتھ لوگوں کے لئے راستہ صاف ہو جاتا ہے۔ انہوں نے اسے ہٹایا اور آنے جانے لگے۔ لڑکا وہاں سے سیدھا راہب کے پاس پہنچا اور سارا واقعہ کہہ سنایا۔ راہب نے واقعہ سنا تو بڑی خوشی کا اظہار کیا۔ کہنے لگا :بیٹا! اب تم مجھ سے بھی آگے بڑھ گئے ہو‘ مگر سنو! اگر تم اللہ کی راہ پر چلو گے تو پھر تمہاری آزمائش لازماً ہو گی۔ سنو اگر حکمران تمہیں تنگ اور پریشان کریں تو انہیں میرے بارے میں کچھ نہ بتانا۔ وقت گزرتا چلا گیا۔ وہ لڑکا اب لڑکا نہ رہا بلکہ سمجھدار نوجوان بن چکا تھا۔ وہ لوگوں میں معروف ہوتا چلا گیا۔ اس کے پاس نابینا لوگ آتے،وہ ان کی آنکھوں پر ہاتھ پھیرتا،ان کے لئے دعائیں کرتا تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے انہیں شفاء عطا فرما دیتا۔ اس کے پاس کتنے ہی پھلبہری کے مریض آئے، اس نے ان کے جسم پر ہاتھ پھیرا، ان کے لئے دعائیں کیں تو وہ اللہ کے حکم سے صحت یاب ہو گئے۔ اس طرح وہ لوگوں میں معروف ہوتا چلا گیا۔ اس کی شہرت پورے ملک میں پھیل گئی۔ بادشاہ کا ایک خاص درباری تھا۔ ایک روز اس کی آنکھوں میں تکلیف شروع ہوئی۔

اس نے بڑا علاج کروایا مگر مرض بڑھتا چلا گیا۔ بادشاہ نے بھی خصوصی توجہ کی مگر ایک روز اس کی آنکھوں نے دیکھنا بند کر دیا۔ وہ نابینا ہو چکا تھا۔اس درباری کو کسی نے اس لڑکے کے بارے میں بتایا کہ وہ مریضوں کا علاج کرتا ہے۔ درباری نے کافی تحفے لئے اور لڑکے کے پاس پہنچ گیا۔ اس سے کہنے لگا کہ میں نابینا ہو گیا ہوں مجھے شفاء دو۔ لڑکا کہنے لگا کہ میں شفا نہیں دیتا۔ درباری نے تعجب سے پوچھا کہ پھر کون شفاء دیتا ہے؟ لڑکے نے کہا وہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہے جو آسمانوں میں ہے ،وہ تیرا بھی اور میرا بھی رب ہے۔ اگر تم اللہ تعالیٰ پر ایمان لے آئو تو میں اللہ سے دعا کروں گا وہ تمہیں شفاء بخش دے گا۔ درباری نے ایمان قبول کر لیا۔ لڑکے نے اللہ تعالیٰ سے شفاء کی دعا کی جو اللہ تعالیٰ نے قبول کر لی اور درباری کی بینائی واپس آگئی۔

(مکمل مضمون روشنی 16دسمبر2016 کے شمارے میں ملاحظہ کریں)

شیئر: