Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کبھی شام ہوا کرتا تھا…!

حزب اختلاف کے نام سے سیکڑوں تنظیمیں ہیں، ہر ایک کا دعویٰ ہے کہ وہ عوام کی نمائندہ ہے،شام کے مسئلے پربات کریں تو کس سے کریں
 
عبد الستارخان
 
دنیا کے ہوش مندکہہ کے تھک گئے اور آج ان کا کہا ایک مرتبہ پھر سچ ثابت ہوا ہے۔
 
 لوگو! شام میں محض عوامی بغاوت یا حکومت مخالف تحریک نہیں بلکہ عقیدے کی جنگ ہے۔ شام کی سرزمین پر سنی مسلمانوں کے خلاف بشار انتظامیہ، روس، ایران ، داعش، شیعہ ملیشیا اور دیگر زرخرید جنگجو منظم نسل کشی کر رہے ہیں۔ حلب میں صرف اور صرف سنی مسلمان مارے جارہے ہیںبلکہ پورے شام میں صرف سنی مسلمانوں کوہی نشانہ بنایا جار ہا ہے۔ کوئی ایک دُرزی، کوئی ایک شیعہ، کوئی ایک نصیری یا گمراہ کن فرقوں کا کوئی ایک آدمی دکھایا جائے جسے شام چھوڑنے پر مجبور کیا گیا ہو یاوہ کیمپوں میں زندگی گزاررہا ہو۔کوئی ایک بھی نہیں ملے گا، ہوگا تبھی تو ملے گا۔ حلب میں بشار انتظامیہ کے زرخرید جنگجو، ایران نواز حزب اللہ، شیعہ ملیشیا اور ایران کے پاسداران انقلاب کے خونخواروں نے پورے شہر کو خون میں نہلادیا۔ دنیا نے دیکھا اور ہم سب کے واٹس ایپ پر بھی ویڈیوز پہنچیں ۔ گزشتہ کئی دن سے حلب کے تمام انسان بغیر کسی استثنیٰ کے، مسلح بھیڑیوں کے لئے حلال ہیں۔ حلب کے مسئلے کے حل کے لئے عرب لیگ، او آئی سی، اقوام متحدہ، سلامتی کونسل اور دیگر انسانیت نواز ادارے اب مل بیٹھیں گے تاکہ ’’جائزہ‘‘ لیں کہ اس انسانیت کشی کو کیسے روکا جاسکتا ہے۔
 
حلب میں جو کچھ ہوا اور جو کچھ آئندہ دنوں میں ہوگا یہ تاریخِ انسانی کا سیاہ ترین باب ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اس کا ذمہ دار کون ہے؟ حلب کے سنی مسلمانوں کا خون کیوں بہایا گیا؟ اس بے بسی اور بے کسی کے اسباب کیا ہیں؟ 
 
کیا آپ واقعی اصل ذمہ دار جاننا چاہتے ہیں؟ 
 
میں آپ کو بتاؤں کون ذمہ دار ہے؟
 
چلو میں بتادیتا ہوں کہ حلب اور شام کے بحران کا اصل ذمہ دار کون ہے۔ کیوں شامی مسئلہ ابھی تک حل نہیں ہورہا، کیوں لاکھوں شامی دردر کی ٹھوکریں کھارہے ہیں، کیوں ہزاروں شامی سمندر برد ہوئے۔ ہر مرنے والے شامی بچے کا خون ان سیکڑوں جماعتوں کے سر جاتا ہے جو خود کو حزب اختلاف کہلواتی ہیں۔ آج شام کا بحران ناقابل حل ہے تو اس کی وجہ بھی یہی ٹکڑیوں میں بٹی حزب اختلاف ہی ہے۔
 
آج شام میں سیکڑوں شیعہ ملیشیائیں سنی مسلمانوں کے خلاف کام کر رہی ہیں ۔ہر شیعہ ملیشیا میں متعدد کمانڈر ہیں جن کی بات سنی اور مانی جاتی ہے مگر تعدد کے باوجود ان ملیشیاؤں میں اختلاف اور ا نتشار نہیں۔ ہر ایک ملیشیا میں متعدد کمانڈر ہیں مگر کوئی ایک بھی ایسا نہیں جسے تنہا پرواز کا شوق ہو۔ وہ سب کے سب نہ صرف متحد ہیں بلکہ ایک جھنڈے کے تحت کام کر رہے ہیں۔ ان کے ایجنڈے مختلف ہوسکتے ہیں مگر مقصد سب کا ایک ہی ہے۔اس کے بالمقابل شامی حزب اختلاف کے نام سے سیکڑوں سنی تنظیمیں کام کر رہی ہیں اور ہر ایک کا دعویٰ ہے کہ وہی شامی عوام کی نمائندہ ہے۔ اقوام متحدہ ، سلامتی کونسل یا مغربی ممالک اگر شام کے مسئلے پر کسی سے بات کرنا چاہے تو کس سے کرے۔ مغربی ممالک کی تو دور کی بات ہے خود عرب ممالک کو معلوم نہیں کہ بشار انتظامیہ کے مد مقابل کون سی طاقت موجود ہے جس سے بات کی جائے۔ مفلوک الحال شامیوں کے کیمپوں میں اگر راشن کی ایک بوری پہچانی ہو تو سیکڑوںسنی تنظیموں کے ناکوں سے گزرنا ہوگا۔ مسئلہ یہ نہیں کہ سیکڑوں تنظیمیں حزب مخالف کے نام سے موجود ہیں اور یہ بھی مسئلہ نہیں کہ ان میں سے ہر ایک کا دعویٰ ہے کہ وہی شامی عوام کی نمائندہ ہے بلکہ المیہ یہ ہے کہ ہر تنظیم کے مسلح عناصر دوسری سنی تنظیم کے نہ صرف مخالف ہیں بلکہ ایک دوسرے پر زور آزمائی بھی کرتی ہیں۔ حزب اختلاف کے نام سے تنظیموں کی اس بہار سے مسئلہ یہ پیدا ہوا کہ شامی عوام کی نمائندگی ختم ہوگئی۔ 
 
سعودی عرب کی دور رس نگاہ بہت پہلے بھانپ گئی تھی کہ حزب اختلاف کی متعدد تنظیموں کا یہ حال رہا تو کوئی بعید نہیں کہ جلد یا بدیر بہت بڑا سانحہ ہوجائے گا۔وہ سانحہ آج حلب میں مسلمانوں کے قتل عام کی صورت میں نمودار ہوگیا۔ سعودی عرب کی اول دن سے کوشش رہی کہ حزب اختلاف نام سے قائم تمام جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا جائے ، انہیں منظم کیا جائے، ان میں اتحاد واتفاق پیدا کیا جائے اور ان کی ایک باڈی تشکیل دی جائے تو دنیا سے شامی عوام کے نام سے بات کرے مگر اس کی تمام تر کوششیں رائیگاں گئیں۔ سعودی حکومت نے تمام سنی تنظیموں کے 20سے زیادہ قائدین کو ریاض میں جمع کیاتھا۔ وہاں 3دن تک انہیں مذاکرات کی دعوت دی۔ مذاکرات بھی ہوئے مگر نتیجہ صفر رہا۔ سعودی عرب کی خواہش تھی کہ بشار مخالف تنظیموں کو منظم کرکے دنیا کے سامنے پیش کیا جائے تاکہ وہ لوگ عالمی برادری سے اپنے حقوق کیلئے مخاطب ہوں مگر مسئلہ وہی ازلی رہا کہ ہر ایک چاہتا ہے تاج اس کے سر پر ہو۔
 
حلب میں شیعہ ملیشیادن دہاڑے قتل عام کرتی رہی اور اسے پورا اطمینان تھا کہ اس کا مقابلہ کرنے کیلئے کسی میں دم خم نہیں۔ وجہ یہ ہے کہ حلب پر چڑھائی کرنے سے پہلے تمام سنی مسلح تنظیموں نے اپنی توانائیاں یا تو داعش سے مقابلہ کرنے میں صرف کردی تھیں یا پھر باہم دست گریباں رہیں۔ شام میں امن کی خواہشمند طاقتیں شامی مسئلے پر بات کریں تو کس سے کریں۔ شامی عوام کے مسئلے حل کیا ہونا چاہئے یہ کسی کو معلوم نہیں۔ دور دور تک امید کے کوئی آثار دکھائی نہیں دیتے۔ شاید اگلے 10سال تک یہ بحران اسی طرح بلکہ اس سے زیادہ گمبھیر ہوجائے گا۔ وجہ صرف یہ ہے کہ مخالف تنظیمیں کثرت کے باوجود متحد ہیں مگر شامی عوام کی نمائندگی کرنے والا کوئی نہیں۔ شام میں ’’الجیش الحر‘‘ آزاد فوج کے نام سے ایک طاقت تھی جو بشار انتظامیہ کے خلاف کام کر رہی تھی اور جسے عربوں کی حمایت حاصل تھی۔ اس فوج کو عربوں نے ساز وسامان کے علاوہ کئی ملین ڈالر امداد دی مگر آج وہ لاکھوں کا امدادی سامان اور کئی بلین ڈالر کی امداد کہاں ہے۔ کسی کے پاس جواب نہیں۔ شامی مسئلے کا واحد حل اس کے سوا کچھ نہیں کہ حزب اختلاف کے نام سے تمام طاقتیں متحد ہوں اور خود کو شامی عوام کی نمائندگی کا اہل ثابت کریں۔ جب تک ایسا نہیں کریں گی ، ہرمرنے والے شامی بچے کا خون ان کے سر جاتار رہے گا۔شام میں ایرانی منصوبہ کامیابیوں کے جھنڈے گاڑتا رہے گا اور اس کے بالمقابل عرب اور سنی مسلمان ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔شاید 10یا 20سال کے بعد جب بشار الاسد غارت ہوگاتب شام میں شاید کھنڈرات باقی رہ جائیں گے جنہیں دیکھ کر آنے والی نسلیں کہا کریں گی کہ کسی زمانے میں یہاں شام ہوا کرتاتھا۔
 

شیئر: