Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انگلینڈ اور پاکستان کی کے کرکٹ تاریخ

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جب بھی پاکستانی ٹیم انگلینڈ کا دورہ کرتی ہے تو تنازعات اس کا پیچھا کرتے ہیں۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ برطانوی میڈیا نے اس بات کو اپنی عادت بنا لی ہے تاکہ وہ دورے پر آنے والے ٹیموں خصوصاً پاکستان، ہندوستان، سری لنکا اور ویسٹ انڈیز کی توجہ بٹا سکیں2006 اور 2010 کے دورہ انگلینڈ میں پیش آنے والے افسوسناک واقعات کے بعد اس بار پاکستانی کرکٹ شائقین کل سے انگلینڈ کے خلاف شروع ہونے والی چار ٹیسٹ میچوں کی سیریز کے تنازعات سے پاک رہنے کیلئے دعاگو ہیں۔ لارڈز ایک مرتبہ پھر سب کی توجہ کا مرکز ہو گا کیونکہ یہ وہی مقام ہے جب 29 اگست 2010 کو بدنام زمانہ اسپاٹ فکسنگ کے واقعے نے دنیائے کرکٹ کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ راتوں رات سب کی توجہ اسٹورٹ براڈ اور جوناتھن ٹراٹ کے عالمی ریکارڈ سے ہٹ گئی تھی۔ جنہوں نے 102 رنز پر سات وکٹیں گنوانے والی انگلش ٹیم کی میچ میں واپسی یقینی بنائی اور 332 رنز کی شراکت قائم کر کے عالمی ریکارڈ بنایا۔ اس وقت بھونچال آ گیا جب مقامی جریدے اخبار نیوز آف دی ورلڈ نے اسپاٹ فکسنگ کی دستاں چھاپی جس میں اس وقت کے پاکستان کے کپتان سلمان بٹ، فاسٹ بولرز محمد آصف اور محمد عامر ملوث تھے جنہوں نے برطانیہ میں مقیم پاکستانی ایجنٹ مظہر مجید سے بھاری رقم لے کر جان بوجھ کر نوبال کی تھیں۔
اس تنازع پر حیران اور پریشان پاکستانی ٹیم کو انگلینڈ کے خلاف ایک اننگ اور 225 رنز سے شکست کا سامنا کرنا پڑا لیکن میزبان ٹیم اس پر کھل کر خوش بھی نہ ہو سکی کیونکہ اب تمام تر لوگوں کی توجہ اس اسکینڈل کی جانب مبذول ہو چکی تھی جس نے جنٹل مین گیم کے تشخص کو بری طرح نقصان پہنچایا تھا۔ نیوز آف دی ورلڈ کے رپورٹرز نے خفیہ طور پر مظہر مجید کی ویڈیو ریکارڈ کر لی جنہوں نے پیسے لے کر صحافیوں کو بتایا کہ آصف اور عامر ایک اوور کے مخصوص مواقع پر جان بوجھ کر نوبال کریں گے۔مظہر مجید اور ان کے بھائی متعدد پاکستانی کھلاڑیوں کیلئے جانی پہچانی شخصیت تھے جنہوں نے ان کی مختلف معاہدوں میں مدد کی تھی۔
عجب اتفاق یہ کہ پاکستانی ٹیم کسی نہ کسی طرح خود کو غیرضروری طور پر مشکلات کا حصہ بنانے میں کامیاب رہتی ہے لیکن کبھی کبھار اس کے پیچھے معقول وجہ بھی ہوتی ہے۔ 1987 کی ٹیسٹ سیریز میں قومی ٹیم کی جانب سے متنازع امپائر ڈیوڈ کانسٹنٹ کی تقرری پر اعتراض کو انگلش حکام نے مسترد کردیا تھا۔ ٹیم کے منیجر کو خصوصی طور پر مقامی میڈیا کو سبق سکھانے کا کام سونپا گیا۔ حتیٰ کہ کپتان عمران خان بھی اس تمام معاملے کو احسن طریقے سے سنبھالنے پر حسیب احسن کی صلاحیتوں کے معترف ہو گئے ۔اس کے ساتھ ہی حسیب کو انگلش ٹیم اور میڈیا سے پرانے حساب چکانے کا بھی موقع ملا

شیئر: