Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دورافتادہ افغان علاقہ جہاں طالبان کو کوئی نہیں جانتا

انکا درہ خطرناک اور دشوار گزار علاقے میں 4500میٹر بلندی پر ہے ، گلہ بانی ہی روٹی روزی کا ذریعہ ہے ، دنیا بھر کا انہیں کوئی علم نہیں

 

آج کا انسان اپنے مسائل ، گھربار ، رہائش گزر بسر اور بچوں کی پرورش سمیت اپنے گونا گوں مسائل میں گھر چکا ہے کہ اسکے لئے مزید باتوں کو دل یا دماغ میں جگہ دینے کیلئے وقت ہی نہیں ہوتا ۔ یہ ایک عصری اور عمرانی حقیقی صورتحال کا عکس ہے مگر یہ مضمون افغانستان کے دور افتادہ علاقہ میں رہنے والے لوگوں کے حوالے سے ہے جنہیں آج بھی یہ نہیں معلوم کہ طالبان کیا چیز ہیں یا یہ کہ امریکہ نے انکے ملک کا تختہ کردیا ہے ۔

اس حوالے سے درہ واکھان اور وہاں کے لوگ بطور خاص قابل ذکر ہیں ۔ یہ درہ یاراہداری تاجکستان اور پاکستان کے درمیان واقع ہے اور یہاں رہنے والوں کی تعداد 12ہزار کے لگ بھگ ہے جو بہت سیدھی سادی زندگی گزارتے ہیں ۔ یہ لوگ وقت کے ساتھ ساتھ ایسے عجیب و غریب اور بے خبر ہو چکے ہیں کہ اب افغان حکومت نے انکی سادگی اور لاعلمی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس علاقے میں سیاحت کو فروغ دے کر اپنی آمدنی بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے تاہم اسکے لئے یہاں رہنے والوں کو کتنے مسائل سے بھی دوچار ہونا پڑے گا جسکا صحیح اندازہ ابھی نہ تو افغان حکومت کو ہے اور نہ ہی یہاں رہنے والے لوگوں کو ۔ یہ تنگ دامن قسم کا درہ انتہائی خطرناک اور دشوار گزار علاقے میں تقریباً4500میٹر کی بلندی پر ہے جہاں واکھی باشندے اب تک بڑے امن و سکون سے سیدھی سادی زندگی گزارتے رہے ہیں ۔ انہیں زندگی کی بہت کم سہولتیں حاصل ہیں اور بیشتر افراد گلہ بانی کو روزی روٹی کا ذریعہ بنائے ہوئے ہیں ۔ شاید ہی کچھ لوگ ایسے ہونگے جنہوں نے طالبان کا نام سنا ہو یا انکے بارے میں جانتے ہیں یا پھر انہیں یہ بھی خبر ہو کہ انکے ملک پر کبھی طالبان بھی حکمرانی کر چکے ہیں یا کہ امریکی افواج نے اس ملک پر یلغار کر کے کافی دنوں تک اپنے زیر کنٹرول بھی رکھا ۔ موجودہ افغان حکومت نے اس علاقے کو مغربی سیاحوں کیلئے پرکشش اور مغربی ممالک کیلئے پسندیدہ بنانے کا فیصلہ تو کر لیا ہے مگر یہاں آنے کیلئے ضروری ہے کہ لوگ اپنے اندر اتنی ہمت اور جرأت رکھتے ہوں جو افغانستان کے اس بلند علاقے کے انتہائی شدید اور ناگوار قسم کے موسم سے نبرد آزما ہو سکیں ۔ سرحدی چوکیوں سے گزریں ، اپنا سیکیورٹی چیک اپ کرائیں ۔ ٹوٹے پھوٹے اور خستہ حال راستے سے گزریں جو اب نصف صدی سے زیادہ عرصہ پرانا ہو چکا ہے ۔

فرانسیسی فوٹو گرافر ایرک لافورگو نے اسی سال اگست کے مہینے میں یہاں کا دورہ کیا تھا اور یہاں کے لوگوں کی بودوباش ، رہن سہن اور حالات زندگی جاننے اور انکی تصویریں اتارنے کا شوق پورا کیا تھا ۔ ایرک کے بیان کے مطابق سب سے پہلے وہ خندود پہنچا جہاں کی خواتین اپنے انتہائی خوبصورت اور رنگ برنگے ملبوسات کیلئے کافی مشہور ہیں ۔ ایرک کا یہ دورہ آغا خان فائونڈیشن کی مدد اور تعاون سے ہوا تھا ۔

وہ جب یہاں پہنچا تو اس نے یہاں کی بعض خواتین کو دکانیں چلاتے بھی دیکھا جنہوں نے سیاحوں کو راغب کرنے کیلئے مقامی طور پر تیار کر دہ جرابوں ، مفلروں ، زیر جاموں اور کشیدہ کاری وغیرہ کے نمونے اپنی دکانوں میں سجا رکھے تھے ۔ یہاں سیاحوں کی سب سے بڑی دلچسپی چڈ کہلانے والے مکانات تھے ۔ جو پتھروں اور پلاسٹروں کی مدد سے تیار کئے گئے تھے اور ان میں سے ہر گھر مقامی تہذیب و روایات اور پس منظر کو نمایاں کرتے نظر آتے تھے ۔ ایرک لافور ے کا کہنا ہے کہ پہلی نظر یہ مکانات عام دکانوں جیسے نظر آتے تھے مگر جب ان میں رہنے والوں سے بات کی جاتی تھی تو ان مکانوں کا سارا پس منظر معلوم ہو جاتا تھا ۔ بیشتر مکانات کا ہر کمرہ 5چوبی ستونوں پر بنا تھا اور یہ پانچوں اسلام کے پانچ مذہبی ارکان کی علامت کی حیثیت رکھتے تھے جبکہ اسکے اوپر سے آسمانی روشنی بھی دیکھی جا سکتی تھی جسے چورخونا کا نام دیا گیا تھا ۔ ایرک نے خندود کے دورے کے بعد علاقے میں مزید اندر تک جانے اور اسے دیکھنے کا فیصلہ کیا ۔

اسکی رہنمائی کے لئے کچھ مقامی گائیڈز بھی سیاحوں کی رہنمائی اور خدمات کیلئے موجود تھے ۔ یہاں کوئی بھی میسی اور رونالڈو کو نہیں جانتا مگر سیاحوں کو یقینی طور پر یہ خواہش بھی ہوتی ہے کہ کاش کوئی ایسااشارہ مل جائے جس سے باہر کی دنیا سے انکا کوئی تعلق ظاہر ہو سکے ۔ علاقے کے دورے کے بعد واکھی قبیلے کے سردار کی بیوی نے اسے بتایا کہ وہ صرف اتنا جانتی ہے کہ افغانستان کے میدانی علاقوں میںامن ہو گیا ہے اور غیر ملکی سیاح افغانستان آنے لگے ہیں ۔ امید ہے کہ جلد ہی ان سیاحوں کی تعداد بڑھے گی ۔ اس دور افتادہ علاقے میں بھی پہنچیں گے ۔

شیئر: