Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایک دبئی والے کی کہانی

 
 
 
پورے دبئی میں بس ایک سپاہی تھا، سرخ حنائی داڑھی اور بالوں والا گل سعید پاکستانی ،رات بھر وہ لاٹھی زمین پر مار کے اپنی موجودگی کا احساس دلاتا رہتا
 
وسعت اللہ خان
 
میں نے تو کبھی دبئی کا نام بھی نہ سنا تھا۔بس ایک دن اخبار میں آئی ٹی ایل کا اشتہار دیکھا کہ آفس اسسٹنٹ کی ضرورت ہے ، تنخواہ سوا سو روپے ملے گی۔مجھے کیا معلوم تھا کہ باقی زندگی کے لئے دبئی ہی میرا وطن بن جائے گا۔ابھی کل ہی کی تو بات ہے جب ایک18 سالہ لڑکا19 فروری1959ء کو بمبئی سے دارا نامی بحری جہاز سے5 دن کا سفر کرکے دبئی پہنچا۔جہاز4 کلومیٹر پرے ہی لنگر انداز ہوگیا کیونکہ ساحل ریت کے سبب اتھلا ہونے کی وجہ سے صرف کشتیاں ہی گودی تک پہنچ پاتی تھیں۔ ایک امیگریشن افسر کشتی کے ذریعے ہمارے جہاز تک پہنچا تاکہ مہر لگانے کے لئے پاسپورٹ جمع کرسکے۔پھر ایک اور کشتی جہاز سے آن لگی اور مسافر سمندری ہوا سے جھولتی چوبی سیڑھی سے اترتے ہوئے ڈولتی کشتی میں کودنے لگے۔ملاحوں کے سر پر رومال تھے اور تن پر بس لنگی۔ ساحل پر بیسیوں چھوٹی بڑی رنگین کشتیاں لنگر انداز تھیں مگر ایک بھی کشتی ایسی نہ تھی جو موٹر سے چلتی ہو۔
کسٹم ہاوس کی چھوٹی سی عمارت تھی جس سے مسافر اور تجارتی سامان دونوں کلیئر ہوتے تھے۔اسی جگہ شیخ راشد بن السعید المکتوم اجلاس بھی منعقد کرتے تھے۔سامان کی مقدار کی کوئی قید نہیں تھی۔ اگر زیادہ ہوتا تو بلوچ حمال ( قلی ) اسے پیٹھ پر لاد کر منزل تک پہنچا دیتے۔یہی حمال بازار میں تجارتی بوجھ بھی ڈھوتے تھے۔
پورے دبئی میں بس ایک سپاہی تھا۔ سرخ حنائی داڑھی اور بالوں والا گل سعید پاکستانی ۔رات بھر وہ لاٹھی زمین پر مار کے اپنی موجودگی کا احساس دلاتا رہتا۔بر دبئی کے علاقے میں ایک ہی بازار تھا جس میں زیادہ تر عرب ، ایرانی ، ہندی اور پاکستانی چہرے نظر آتے۔
پکی سڑک نہیں تھی تو موٹر کار بھی نہیں تھی۔سامان پیٹھ پر یا ایک پہئے کے ٹھیلے پر لاد کے ادھر سے اُدھر پہنچایا جاتا۔کسی کو کوئی جلدی نہیں تھی۔مجھے ایسا لگا جیسے الف لیلوی دور کے کسی بازار میں گھوم رہا ہوں۔زیادہ تر رہائشی کمرے کچی پکی دکانوں کے اوپر ہی بنے ہوئے تھے۔دکاندار عموماً آلتی پالتی مارے بیٹھتے اور ان کے اردگرد اشیا ءکے انبار ہوتے۔جن پیٹیوں میں مال آتا انہی پیٹیوں کو بطور کرسی اور میز استعمال کرلیا جاتا۔ایک بڑی سی پیٹی ایک طرف سے کھول کے بطور الماری کھڑی کر لی جاتی جو بہی کھاتے اور رسیدیں وغیرہ رکھنے کے کام آتی۔دکانوں کی اشیاء اور مٹی کے تیل کے لیمپوں کی بو پورے بازار میں پھیلی رہتی۔
بدو پینے کا پانی کنستروں میں جمیہرہ کے کنووں سے گدھوں یا گدھا گاڑیوں پر لاد کے پہنچاتے تھے۔جب جمیہرہ کے کنووں میں پانی کم ہوجاتا تو قریبی جزیروں سے کشتیوں کے ذریعے پانی لا کر فروخت کیا جاتا۔ دبئی کی لگ بھگ30 ہزار آبادی کو روزانہ کم ازکم12 ہزار گیلن پانی درکار تھا۔عموماً ہر شخص کا روزانہ ایک کنستر میں گزارا ہوجاتا۔
بارشوں کے موسم میں شہر سے باہر بسنے والے بدو چادریں بانس کے چاروں کھونٹوں پر باندھ دیتے۔ چادر میں جب پانی جمع ہوجاتا تو درمیان میں سوراخ کرکے اسے کسی برتن میں بھر لیا جاتا۔ جن دنوں شبنم زیادہ گرتی تو جھاڑیوں پر کپڑے پھیلا دئیے جاتا اور صبح ان سے پانی نچوڑ لیا جاتا۔
عام لین دین کے لئے ہندوستانی کرنسی استعمال ہوتی تھی۔بس اس کا رنگ ہندوستان میں استعمال ہونے والی کرنسی سے مختلف تھا۔100 ہندوستانی روپے کے108 دبئی روپے مل جاتے تھے۔ایک روپے میں 16آنے تھے۔ بدو عام استعمال کا پانی4 آنے فی کنستر اور پینے کے قابل پانی 8 آنے فی کنستر بیچتے۔پینے کے پانی کا ذائقہ کھارا تھا اور اس میں کیڑے مکوڑے بھی پڑے رہتے تھے لہذا استعمال سے پہلے اُبالنا لازمی تھا۔
بجلی نہیں تھی۔زیادہ تر مٹی کے تیل کے لیمپوں اور موم بتی پر گزارہ تھا۔مٹی کے تیل سے چلنے والے اکا دکا فریج بھی دستیاب تھے البتہ دبئی میں قائم واحد برٹش بینک آف مڈل ایسٹ اور کچھ کمپنیوں کے اپنے ڈیزل جنریٹرز تھے۔پھر ہم جیسے چند چھوٹے تاجروں نے مل کر ایک سیکنڈ ہینڈ برطانوی جنریٹر خرید لیا جس سے تقریباً100 دکانوں کو بجلی ملنے لگی مگر یہ بجلی بھی12گھنٹے ہی دستیاب تھی کیونکہ ڈیزل ایران سے آتا تھا۔ جنریٹر پرانا ہونے کے سبب اکثر خراب ہوتا رہتا اور اس کے فاضل پرزے لندن سے منگوانے میں کئی دن لگ جاتے کیونکہ براہ راست فضائی سروس نہیں تھی۔
1958میں دبئی میں پہلا ڈاکخانہ کھلا۔ اس سے پہلے ہفتے میں 3 دن ڈاک کے تھیلے شہر کے وسط میں ایک مقررہ وقت پر لائے جاتے۔لوگ جمع ہوجاتے۔ڈاکیہ نام پکارتا جاتا جو غیر حاضر ہوتا اس کا لفافہ اگلے ڈاک پھیرے میں ملتا۔19 مئی1959ءکو دبئی میں بننے والی پہلی فضائی پٹی سے پہلا جہاز اڑا۔کچے رن وے کی لمبائی 6 ہزار فٹ تھی۔ دبئی انٹرنیشنل ائیرپورٹ تو ابھی کل کی بات ہے جب 30 ستمبر1980ءکو اس کا افتتاح ہوا۔ آج اس کا شمار دنیا کے 3مصروف ترین ائیرپورٹوں میں ہے۔( باقی2ہیتھرو اور شکاگو ہیں )۔
دبئی سے کہیں آس پاس جانا بھی مہم جوئی سے کم نہ تھا۔ قریب ترین ائیرپورٹ شارجہ تھا اور شارجہ تک بس صحرائی ٹریک تھے جن پر فور وہیلر ٹیکسیاں ہی چل سکتی تھیں۔قریب ترین اسپتال بھی شارجہ میں تھا جو برطانوی فوج نے قائم کیا تھا۔کئی مریض وہاں تک پہنچنے سے پہلے ہی دم توڑ دیتے مگر کشتی سے کھاڑی کے راستے شارجہ تک جانا زیادہ آرام دہ اور سستا پڑتا تھا۔
مگر 60ء کی دہائی میں جب تیل نکلا تو قسمت بدلنی شروع ہوئی۔ سب سے پہلے1960ء میں ابو ظبی سے ، 66 ء میں دبئی سے اور1972 ء میں شارجہ سے تیل برآمد ہونا شروع ہوا۔ اب وہاں کس آسائش کی کمی ہے ؟ ( دبئی کے ایک معروف سندھی تاجر رام بخشانی کی یادداشت " ٹیکنگ دی ہائی روڈ" کے اقتباسات )۔
******
 

شیئر: