Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

طلاق کا شرعی قانون ، انسانی ضر ورت

ہندوازم میں تو کسی صورت میں طلاق نہیں ،عورت کی شادی ہوگئی، اب وہ بہر صورت وہیں رہے گی، چاہے اس کی زندگی اجیرن ہوجائے

 

محب اللہ قاسمی۔نئی دہلی

اسلام انسانوںکے لئے رحمت ہے۔ زندگی کے تمام گوشوں کے بارے میں اسلام کے قوانین حکمت سے خالی نہیں ۔ وہ انسان کی ضرورت اور اس کی فطرت کے عین مطابق ہے۔مثلاً قصاص کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ’’ تمہارے لئے قصاص میں زندگی ہے۔‘‘(البقرۃ 179) ۔

بظاہر اس میں ایک انسان کے خون کے بدلے دوسرے انسان کا خون کیا جاتاہے مگر اس میں حکمت یہ ہے کہ دوسرے لوگ کسی کو ناحق قتل کرنے کی جرأت نہ کرسکیں۔ اسی طرح زنا کرنے والے کو، اگر وہ غیر شادی شدہ ہے خواہ مرد ہو یا عورت، سرعام100کوڑے مارنے کا حکم دیاگیا ہے۔ اس کی حکمت یہ ہے کہ کوئی شخص زنا کے قریب بھی نہ جاسکے۔عوتوں کو پردے کا حکم دیا گیا ہے ، تاکہ ان کی عزت و آبرو کی حفاظت ہو۔ نکاح کو آسان بنانے کا حکم دیا گیا ہے ، تاکہ زناعام نہ ہو اور معاشرے کو تباہی اور انسانوں کو مہلک امراض سے بچایا جاسکے۔ یہ انسانوں کا بنایا ہوا قانون نہیں بلکہ ان کے خالق ،کائنات کے مالک اور احکم الحاکمین کا بنایا ہوا قانون ہے اس لئے ا س میں کسی کو ترمیم کی اجازت نہیں۔ اس میں کمی یا زیادتی کرنا اللہ تعالیٰ کے ساتھ بغاوت ہے۔ یہی مسلمان کا عقیدہ ہے۔

اسی طرح میاں بیوی کے درمیان کسی بھی صورت نباہ نہ ہونے کی شکل میں ان کا شرعی طریقہ سے جدا ہونا طلاق اور خلع کہلاتا ہے، جواسی قانونِ الٰہی کا حصہ ہے۔اس فطری قانون میں بھی بڑی حکمتیں پوشیدہ ہیںجسے معمولی عقل و شعور رکھنے والا ہر فرد بآسانی سمجھ سکتا ہے۔ طلاق اور دیگر مذاہب: دیگر مذاہب کا جائزہ لیں توپتہ چلتا ہے کہ اس میں نکاح کے بعد طلاق کا کوئی طریقہ مذکور نہیں۔ اگر کہیں ہے تو وہ افراط اور تفریط کا شکار ہے ،جس سے یا تو شوہر پر ظلم ہوتا ہے یا عورت اس ظلم کا شکار ہوتی ہے۔ مثلاًیہود کے نزیک اگر شوہر طلاق دینا چاہتاہے تووہ صرف طلاق کا نوشتۂ دیوار پر لٹکا دیتا اور دونوں میں جدائی ہو جاتی جبکہ عیسائیت میں زنا کی مرتکب عورت (مزنیہ)کو ہی طلاق دی جاسکتی ہے بجزاس کے طلاق دینا جائزہی نہیں ۔ ہندوازم میں تو کسی صورت میں طلاق ہی نہیں ۔ایک عورت کی شادی ہوگئی۔ اب وہ بہر صورت وہیں رہے گی، چاہے اس کی زندگی اجیرن اور اس کا جینا محال ہوجائے۔ عورتوں کے دل میں یہ تصور بٹھا دیا گیا ہے کہ وہ ڈولی سے سسرال گئی ہیں اَب وہاں سے ان کی ارتھی ( جنازہ) ہی نکلے گی۔دوسری کسی بھی صورت میںوہ وہاں سے نہیں نکل سکتیں خواہ ان کے شوہر ان کی زندگی تباہ کر دیں یا ان کی عزت کا سودا کریں یاانھیں جان سے مار ڈالیں۔اب جا کر انہیں یہ حق ملا ہے کہ وہ طلاق لے سکتی ہیں مگر اس کے باوجود یہ عمل اتنا دشوار ہے کہ ایک عورت کو طلاق لینے یا شوہر کو طلاق دینے میں لمبا عرصہ گزر جاتا ہے، مگر طلاق کی کارروائی پوری نہیں ہوپاتی جس کے نتیجہ میںایسی بے شمار عورتیں اپنی زندگی کو رو رہی ہیں مگر ان کا کوئی پرسان حال نہیں۔اس کی ایک مثال ہند کے موجودہ وزیر اعظم کی بیگم جسودہ بین ہیں۔

وہ ایک لمبے عرصہ سے شوہر کی موجودگی کے باجود بناشوہر کے زندگی گزاررہی ہیں، مگر انھیںانصاف نہیں ملا۔اگر طلاق کا آپشن ہوتا تو وہ اپنے شوہر سے آزادی حاصل کرکے خوشگوار زندگی کا آغاز کرسکتی تھیں۔ اسلام کا تصور طلاق: طلاق کیا ہے؟ طلاق عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنیٰ کھولنے اور چھوڑ دینے کے ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں عورت کو نکاح سے خارج کردیناطلاق کہلاتا ہے۔ اسلام نے انسان کی اس ضرورت کو محسوس کیا اور اسے طلاق کا حق دیا، اورطلاق کی نزاکت کو سامنے رکھتے ہوئے اسلام نے اس عمل کو تمام جائزکاموں میں ناپسندیدہ عمل قرار دیکر اسے آخری علاج قرار دیاتاکہ کوئی شخص بات بات میں طلاق کی دھمکی نہ دے بلکہ سوچ سمجھ کر یہ اقدام کرے۔جس طرح نکاح سوچ سمجھ کر کیا جاتا ہے ،جس کے نتیجہ میں ایک خاتون اس کی زندگی میں آتی ہے ، اسی طرح طلاق کے غلط اور بے جا استعمال سے وہ عورت اس کی زندگی سے رخصت بھی ہوجائے گی۔اسی طرح عورت کو متنبہ کیا گیاہے کہ وہ بات بات پر طلاق کا مطالبہ نہ کرے۔تنبیہ کی گئی کہ ایسی عورتیں جنت کی خوشبوسے بھی محروم رہیں گی۔

طلاق کے بارے میں اسلام کی اتنی حساسیت صرف اسی لئے ہے تاکہ حتی الامکان ازدواجی زندگی کوایک دوسرے کے تعاون سے بہتر انداز میں چلانے کی کوشش کی جائے کیونکہ میاں بیوی کے درمیان اختلاف پیدا کرنا اور اس کی وجہ سے خاندانی نظام درہم برہم کر دینا شیطان کا محبوب مشغلہ ہے۔ نکاح ایک معاہدہ ہے : نکاح ایک معاہدہ ہے، جس کا مقصد زوجین کا پیار و محبت کے ساتھ معاشرتی نظام کو جاری رکھنا ہے۔جب کوئی شخص نکاح کرتا ہے تو وہ اس بات کا عہد کرتا ہے کہ وہ اپنی زندگی میں شامل ہونے والی خاتون کا نان ونفقہ ،رہنے سہنے کا بندوبست کریگا اور اس کے تمام حقوق زوجیت کو ادا کرے گا۔ اسی طرح خاتون کی جانب سے بھی یہ عہد ہوتا ہے کہ وہ اپنے شوہر کو خوش رکھے گی۔لتسکنوالیہا(تاکہ تم اس سے سکون حاصل کرو)کے تحت اسے ذہنی و جسمانی سکون بخشے گی، شوہرکی غیر موجودگی میں اس کے مال و اسباب کے ساتھ ساتھ اپنی عزت و آبروکی حفاظت کرے گی جو شوہر کی امانت ہے۔

طلاق-نقض معاہدہ: اب اس معاہدے میں کسی کی جانب سے کمی یا کوتاہی ہوئی تو سب سے پہلے دیکھا جائے گا کہ یہ غلطی کس درجہ کی ہے، پھر اسے دور کرنے کی حتی الامکان کوشش کی جائے گی اور فریقین کو سمجھانے بجھانے کے لئے دونوں جانب سے لوگ تیار کیے جائیںگے جو انھیں شوہر کی اہمیت اور بیوی کی ضرورت پر گفت و شنید سے مسئلہ کو حل کرنیکی شکل نکالیں گے ، اس کا ہر طرح سے علاج کرکے اسے درست کرنے کی کوشش کریں گے۔ اس کے باوجود اگر کوئی صورت نہ بنے اور دونوں کی زندگی تلخ سے تلخ تر ہوجائے اورگھر جہنم کی تصویر بن جائے اور اس بات کا خوف ہو کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے تو اس آخری مرحلہ میںاسلام نے اس معاہدہ کو توڑنے کی اجازت دی ہے۔ طلاق سنجیدہ عمل: اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

’’طلاق دو بار ہے، پھر یا تو سیدھی طرح عورت کو روک لیا جائے یا بھلے طریقے سے اس کو رخصت کر دیا جائے اور رخصت کرتے ہوئے ایسا کرنا تمہارے لئے جائز نہیں کہ جو کچھ تم انہیں دے چکے ہو ، اس میں سے کچھ واپس لے لو البتہ یہ صورت مستثنیٰ ہے کہ زَوجین کو اللہ کے حدود پر قائم نہ رہ سکنے کا اندیشہ ہو،ایسی صورت میں اگر تمہیں یہ خوف ہو کہ وہ دونوں حدودِ الٰہی پر قائم نہ رہیں گے ، تو ان دونوں کے درمیان یہ معاملہ ہو جانے میں مضائقہ نہیں کہ عورت اپنے شوہر کو کچھ معاوضہ دیکر علیحدگی حاصل کر لے،یہ اللہ کی مقررکر دہ حدود ہیں ، ان سے تجاوز نہ کرو، اور جو لوگ حدودِ الٰہی سے تجاوز کریں ، وہی ظالم ہیں۔‘‘(البقرۃ229)۔ طلاق کا طریقہ بھی مبنی بر حکمت ہے۔شوہر اس طہر کی حالت میں، جس میں اس نے بیوی سے جماع نہ کیا ہو ،طلاق دے۔ اس میں حکمت یہ ہے کہ مردکو غور خوض کرنے یا عورت کو بھی سنبھلنے کا موقع مل جاتا ہے۔اس درمیان وہ رجعت(طلاق سے رجوع کرکے) اسے رکھ سکتا ہے جبکہ ایک ساتھ 3 طلاق دینے کی صورت میں یہ اختیار بھی ختم ہوجاتاہے اسی لئے عہد رسالتؐ میں اسے بہت معیوب اور شریعت کے ساتھ کھیل جیسا عمل قرار دیا جاتا تھاجبکہ عہد فاروقی میں اس عمل پر کوڑے مارے جاتے تھے مگر3 طلاق واقع ہوجایا کرتی تھی۔

شیئر: