Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’’مشینی پرندہ‘‘ہمارے بچپنی تجسس کا محور

ہم اباجان سے پوچھتے کہ یہ پرندہ کہاں جا رہا تھا ؟وہ کہتے یہ پرندہ شرندہ نہیں، ہوائی جہاز ہے- - - - - -  - -- - -

شہزاد اعظم۔جدہ

 

انسان کوبچپن میں بہت کچھ سیکھنے اور دیکھنے کی آرزو ہوتی ہے ۔ ہم جب چھوٹے تھے توگرمیوں میں کھلے آسمان تلے صحن میں سویا کرتے تھے۔ رات کو جب ہم بستر پر دراز ہوتے توہمیںسیاہ آسمان پر اُڑتا، اپنے سرپر سے گزرتا ’’مشینی پرندہ‘‘دکھائی دیتا اور اس کے ساتھ ’’بھاںںں‘‘ کی آواز بھی ہمارے کانوں میں آتی۔ یہ ہمارے بچپنی تجسس کا محور تھا۔ہم اباجان سے پوچھتے کہ یہ شور مچاتا پرندہ کہاں جا رہا تھا ؟ اباجان ہمیں جواب دیتے کہ بیٹا جی یہ پرندہ شرندہ نہیں بلکہ ہوائی جہاز ہے ۔ یہ زمین پر بنائے گئے خاص مقام پر کھڑا ہوتا ہے جسے ہوائی اڈہ کہاجاتا ہے۔

لوگ وہاں جا کر اس جہاز میں سوار ہوتے ہیں پھر یہ انتہائی تیز رفتاری سے اُڑتا ہے اورلوگوں کو ایک ملک سے دوسرے ملک لے جاتا ہے۔ ہم سوال کرتے کہ اباجان!کیا اس کی رفتار ہمارے سائیکل سے زیادہ ہوتی ہے؟ اباجان اپنا سر پیٹنے کے انداز میں کہتے کہ ہاں ، بہت زیادہ۔ پھر ہم پوچھتے کہ کیا رکشے سے بھی تیز؟ اباجان کہتے ہاں ہاں رکشے سے بھی تیز۔یہ سن کر ہماری فطرت میں پایاجانے والا’’بحرِ تجسس‘‘ ٹھاٹھیں مارنے لگتا اورہم دونوں آنکھیں پھاڑ کر اور ہونٹوں کو گول دائرے کی شکل میں لا کر پوچھتے کہ اباجان کیا شدو ماما کی موٹر سائیکل سے بھی زیادہ تیز؟جواب ملتا ہاں ہاں ہاں ، اس سے بھی زیادہ تیز۔یہ سن کر ہم تجسس کے مارے اٹھ کر بیٹھ جاتے اور چلانے کے انداز میں سوال کرتے کہ اباجان! کیا سامنے والوں کی کار سے بھی زیادہ تیز؟جواب ملتا کہ ہاں ہاں ہاں ہاں،اس سے بھی زیادہ تیز، اور اگر اب تم نے ایک لفظ بھی منہ سے نکالاتو میرے سے برا کوئی نہیں ہوگا، دماغ کھا لیا ہے میرا، اب اس سے بھی زیادہ تیزی کے ساتھ آنکھیں بند کرو اور خاموشی سے لیٹ کر سوجاؤ، صبح اسکول جانا ہے۔

اباجان کی اس سخت دھمکی کے باعث ہم ہوائی جہا ز کی’’ رفتار ا ور اس کے کردار‘‘ کے حوالے سے ان گنت ’’لاجواب‘‘ سوالات اپنے ذہن میں لئے نیند کی وادی میں زبردستی داخل ہوجاتے اور صبح اٹھتے ہی امی جان سے سوال کرتے کہ ’’امی! یہ بتائیے کہ اباجان نے ہمیں آج تک جہاز کی سیر کیوں نہیں کرائی؟کیا ا نہیں ہم سے محبت نہیں؟ اسکول میں ہمارا ایک دوست ہے ۔ سب ہی اسے ’’پیا، پیا‘‘ کہہ کر پکارتے ہیں کیونکہ اس کے پپا ’’ایئر لائن‘‘ میں ہیں۔ وہ ہر مہینے اپنی خالہ سے ملنے کے لئے جہاز میں بیٹھ کر کراچی جاتا ہے۔‘‘ امی جان ہمیں بتاتیں کہ تم نے سوال میں ہی جواب دے دیا ہے کہ’’ پیا ‘‘کے پپا ایئر لائن میں ہیں،ایسے میں ہوائی جہاز ان کے گھر کی باندی نہیں تو اور کیا ہوگا۔ وہ تو شاید اصول پسند اور دیانتدار قسم کے پپا ہوں گے اس لئے’’پیا‘‘ مہینے میں صرف ایک چکر لگاتا ہے ۔ اگر پیا کے پپا کو بے ایمانی اوربدعنوانی کی وبا لاحق ہوتی تو وہ ہر دوسرے روز اپنی بیوی اور بچوں کو لے کر کراچی آیاجایا کرتے ۔

جہاں تک تمہارے ابا کا سوال ہے ، وہ ایک دیانتدار سرکاری نوکر ہیں، نہ تو ان کی آف شور کمپپنیاں ہیں اور نہ ہی آٹے یا شکر کی ملیں۔ وہ صرف محنت سے ہی کماتے ہیں ، انہیں نہ تو اوپر کی کمائی پسند ہے اور نہ وہ اس جانب دیکھتے ہیں۔ ایسے میں اگر وہ ہمیں سال میں ایک مرتبہ رکشے میں بٹھا کر تمہاری نجو خالہ کے ہاں لے جائیں تو سمجھنا کہ انہوں نے سخاوت کی انتہاء کر دی اور بڑے بڑے تونگروں کو شرمندہ کر دیا ہے ۔ایسے میں تمہارے ابا جی تمہیں جہاز کی سیر تو کیا، ہوائی اڈہ دکھانے بھی نہیں لے جا سکتے ۔ میں نے یہ تفصیل اس لئے گوش گزار کر دی ہے کہ آئندہ مجھ سے ایسے احمقانہ سوالات کبھی نہ کرنا ورنہ چھری سے تمہاری زبان کاٹ دوں گی۔ امی جان کا یہ جواب سن کر ہم اباجان اور امی جان کا موازنہ کرناشروع کر دیتے اور سوچتے کہ امی جان تو ظالم ہیں کیونکہ انہوں نے ہمیں چُپ کرانے کے لئے زبان کاٹ دینے کی زبانی دھمکی دی ہے جبکہ اباجان نے تو محض اتنا کہا تھا کہ خاموشی سے آنکھیں بند کرو اور لیٹ کر سوجاؤ، صبح اسکول جانا ہے۔یوںہم اپنے اباجان کی رحم دلی کے قائل ہوجاتے اور اس مشینی سواری کے بارے میں ہمارا تجسس کم از کم 20گھنٹے کے لئے اپنے انجام کو پہنچتاپھر جیسے ہی اگلی رات صحن میں ہم کھلے آسمان تلے لیٹتے اور ہمارے سر پر سے’’ مشینی پرندہ ‘‘یعنی ’’طائر میکانی‘‘گزرتا تو ہم اپنے اباجان سے پھر سوال کرنا شروع کر دیتے کہ اس جہاز کو اُڑانے والا کون ہوتا ہے؟ اس میں لوگوں کو اگر بھوک یا پیاس لگے تو انہیں کھانا اور پانی کون دیتا ہے؟ہمارے اباجان کسی حد تک تو ہمارے سوالوں کے جوابات دیتے مگر جب ان کی جھنجلاہٹ انتہاء کو پہنچ جاتی تو وہ کہتے کہ خاموشی سے لیٹ جاؤ، زیادہ دماغ نہ کھاؤ۔ہم یہ سن کر پھر تشنہ اور لاجواب سوالات لئے ، خود کو اُس جہاز میں سوار محسوس کرتے آنکھیں موند لیتے اور گاہے ایسے خواب بھی دیکھ لیتے جن میں جہاز سے متعلق ہمیں اپنے سوالوں کے جواب مل جاتے ۔پھر ایک دن یوں ہوا کہ ہمارے اباجان ہمارے ’’طیرانی استفسارات‘‘ سے تنگ آگئے اور انہوں نے کھلے آسمان تلے سونے کے لئے آنکھوں پر پٹی باندھناہمارے لئے ضروری کر دیا۔ وقت یونہی گزرتا رہا، ’’جہازیات ‘‘سے متعلق سوالات ہمارے بحرِ تجسس میں ڈُبکیاں لگاتے رہے ۔

ایک دن ایسا آیا جب ہم بڑے ہوئے اور پردیس چلے آئے۔ پردیس میں مقیم ہونے کے ناتے ہم ’’تارکِ وطن‘‘ قرار پائے ، ہمیں ہر سال فضائی سفر کا موقع میسر آنے لگا۔یوں ہمیں جہازیات سے متعلق معلومات حاصل کرنے اور اپنی متجسس طبیعت کو سیراب کرنے کا بھرپور موقع ملا۔آج صورتحال یہ ہے کہ ہم دنیاکی متعدد ایئر لائنز میں عازم سفر ہو چکے ہیں۔ کچھ ممالک دیکھ چکے ہیں ، کئی ممالک دیکھنے کی تمنا ہے۔ ہم جہازوں کے اندرونی ماحول، ان کی ساخت، ان میں انجان ہستیوں سے ہونے والی ملاقات ، پوچھے جانے والے سوالات، پیش کئے جانے والے جوابات، غیر ملکی شخصیات کی عادات اور ان کے خیالات سے کافی حد تک آگاہ ہو چکے ہیں۔ ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ ہم وطن گئے تو صحن میں کھلے آسمان تلے بستر پر لیٹے تھے۔ ہمارے صاحبزادے نے توتلی زبان میں سوال کیا کہ ’’پاپا! یہ مچھینی پلندہ‘‘ کہاں جاتا ہے؟ہمیں اس وقت بہت سی باتیں یاد آئیں مثلاً: ٭٭ہمیں ہمارے تخیل نے باور کرایا کہ ہمارے بزرگواران بے بنیاد ، غلط یا جھوٹی باتیں نہیں کہتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے۔‘‘ دیکھ لیجئے، آج اباجان کی جگہ آپ ہیں اور آپ کی جگہ آپ کا فرزند سوا ل کر رہا ہے۔‘‘

٭٭بچوں کو کسی بھی سوال کا مکمل جواب دینا چاہئے تاکہ ان کی شوقِ آگہی تشنہ نہ رہے۔

٭٭دورِ حاضر کے بچے ایسے نہیں کہ ان کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر انہیں سونے کے لئے کہہ دیاجائے۔ اگر ایسا کیاجائے تو وہ فوراً ناک چڑھا کر کہتا ہے کہ ’’پاپا! یہ تومیری آزادی پر قدغن ہے۔‘‘ ہم نے بیٹے کے سوال کا مکمل جواب دیایہاں تک کہ اس نے ہمیں دھمکی آمیز انداز میں کہا کہ ’’بس کریں پاپا! میں نے تو آپ سے مشینی پرندے کے بارے میں سوال کیا تھا، آپ نے تو اس کی عادات و اطواراورپورا خاندان ہی گنوا دیا۔پلیز! اب سو جائیں مجھے صبح اسکول بھی جانا ہے۔‘‘

شیئر: