Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جنرل باجوہ کا کامیاب دورہ سعودی عرب

 
جنرل باجوہ نے یہ پیغام بھی دیا کہ وہ سچے مسلمان ہیں جن کا دل اسلامی دنیا کے سالار سعودی عرب کیلئے بھی دھڑکتا ہے، پاکستان کیلئے سعودی مملکت کی حفاظت سب سے مقدم ہے
 
محمد اسلم محمود بٹ
 
آرمی چیف جنرل قمر جاویدباجوہ اپنے منصب کا چارج سنبھالنے کے بعد اپنے پہلے غیر ملکی دورے پر سعودی عرب پہنچے جہاں انہوں نے سعودی فرمانروا سے ملاقات کی اور سعودی سیاسی اور عسکری قیادت کی مکمل امداد کرنے کے عزائم کا اظہار کیا۔ انہوں نے سعودی عرب میں موجودگی کے دوران حرمین شریفین کی حفاظت اور سعودی مملکت کے تحفظ کے عزم کا بھی اظہار کیا۔ ان کے اس غیر معمولی دورے سے پاک فوج کو بھی یہ پیغام موصول ہوا کہ عسکری قیادت جذبہ ایمان سے سرشار ہے اور پاکستان کی سپاہ کو بھی مقامات مقدسہ کی حفاظت کیلئے ہر دم تیار رہنا چاہئے۔
جنرل کے اس دورے سے ملکی قیادت کی اس تاریخی روایت کو آگے بڑھایا گیا ہے کہ پاکستان کیلئے سعودی مملکت کی حفاظت سب سے مقدم ہے جہاں کا دورہ کرنا ان کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ اس اسلامی مملکت کا سب سے پہلے دورہ ان کے ایمانی جذبات کی بھی عکاسی ہے جس کے حوالے سے ملک کے سوشل میڈیا پر ان کے خلاف دل آزار پروپیگنڈہ کیاگیا تھا کہ آرمی چیف نے اپنے پہلے دورہ سعودی عرب کے ذریعے قوم کو یہ پیغام دیا ہے کہ وہ پکے اور سچے مسلمان ہیں جن کا دل اسلامی دنیا کے سالار ملک سعودی عرب کیلئے بھی دھڑکتا ہے۔
آرمی چیف ماضی قریب میں پاک فوج کی سب سے بڑی کور کے کمانڈر کے طور پر اپنی خدمات انجام دے چکے ہیں جس کے ماتحت راولپنڈی اسلام آباد کے علاوہ کشمیر میں متنازعہ سرحد سے جاملتا ہے۔ انہوں نے سعودی عرب کے دور ے سے پہلے اس متنازعہ علاقے لائن آف کنٹرول کابھی دورہ کیا تھا اور اگلے مورچوں پر تعینات فوجیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہیں اس امر کی تنبیہ کی تھی کہ ہند کی جانب سے لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزیوں کا بھرپور جواب دیا جائے۔
باور کیا جاتا ہے کہ ہند کے پاکستان پر جنگ مسلط کرنے کے جذبات آرمی چیف کے اس دلیرانہ موقف کے اظہار سے پسپا ہوئے ہیں اور اس نے اچانک ورلڈ بینک کے تعاون سے طے پانے والے کشمیر کی سمت سے پاکستان کی سمت بہنے والے دریاوں کے تنازع پر مذاکرات پر آمادگی کا اظہار کردیا۔ عالمی بینک کے صدر نے دونوں ممالک کو دیئے گئے پیغام میں واضح کیا تھا کہ وہ جنوری سے پہلے اس تنازع کے خاتمے کیلئے مذاکرات کریں مگر آرمی چیف کا لب و لہجہ بھی ہند کو ان مذاکرات پر آمادہ کرنے کیلئے کافی تھا۔
ان حالات میں ملک میں یہ اطلاعات گرم ہیں کہ سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے سربراہ آصف زرداری 23 دسمبر کو طویل خود ساختہ جلا وطنی کے بعد وطن لوٹ رہے ہیں۔ بلاول بھٹو نے جب یہ اعلان کیا تو اپنی پارٹی کو یہ تلقین بھی کرا دی کہ سابق صدر کی وطن واپسی پر ان کا والہانہ استقبال کیا جائے جس کے بعد کراچی میں زورشور سے سابق صدر کے استقبال کی تیاریاں شروع کردی گئیں۔ زرداری گزشتہ برس جون میں اس وقت بقول عمران خان ملک سے فرار ہوگئے تھے جب انہوں نے پاک فوج کے خلاف شدید تنقید کی تھی۔ ان کے مخالفین کے حلقوں میں باور کیا جاتا ہے کہ انہیں یہ خدشہ لاحق ہوچلا تھا کہ فوج کے خلاف تنقید کرنے کی پاداش میں انہیں گرفتار کرلیا جائے گا جس کی وجہ سے انہوں نے متحدہ عر ب امارات سے برطانیہ اور امریکہ کا سفر تو اختیار کیا تھا مگر ان میں وطن لوٹنے کی جرا¿ت نہیں ہوسکی تھی۔
ان کی وطن واپسی کا وقت ظاہر کرتا ہے کہ وہ سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ کا انتظار کررہے تھے جو نہایت کم گو شخصیت کے مالک تھے اور انہوں نے اپنے پیشرو جنرل ریٹائرڈ اشفاق پرویز کیانی کی طرح پاک فوج کو سیاست سے دور رکھنے کے عزائم کا اظہار کیا تھا جو آصف زرداری کیلئے اس پیغا م کا مظہر تھا کہ وہ ان سے فوج کے وقار کے معاملے پر کسی قسم کی سودے بازی نہیں کریں گے اور کراچی میں جاری رینجرز کے ٹارگٹڈ آپریشن کے د وران انہیں سابق صدر ہونے کے باوجود کسی رعایت کا مستحق خیال نہیں کیا جائے گا۔
اطلاعات کے مطابق زرداری نے بلاواسطہ فوجی قیادت سے رسم و راہ قائم کرنے کی کوشش کی تھی مگر ان کو حوصلہ افزاءجواب موصول نہیں ہوسکا تھا۔ انہیں 2018 ءکے عام انتخابات کی تیاریوں کیلئے وقت بھی درکار تھا اور اس امر کی بھی فکر لاحق تھی کہ ملک میں ان کی عدم موجودگی کے باعث پارٹی کارکنوں میں طرح طرح کی افواہیں پھیل گئی تھیں جن کا انہیں ازالہ کرنا تھا۔ انہیں یہ احساس بھی ہوچلا تھا کہ ان کے صاحبزادے بلاول سیاست کے کارزار میں تنہا رہ گئے ہیں جن کے ساتھ شامل ہونا وقت کا بھی تقاضا تھا۔ ان کیلئے یہ بات بھی مقدم ہوگی کہ انہیں اپنی اہلیہ اور سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کی 9 ویں برسی کے موقع پر ان کے آبائی گاوں گڑھی خدابخش پہنچنا ہے۔ انہیں اس امر کا بھی احساس ہوچلا تھا کہ وزیراعظم نواز شریف کے گرد فوجی اسٹیبلشمنٹ گھیرا تنگ کرتی چلی جارہی ہے جنہیں ان کے سیاسی مشوروں کی شدید ضرورت ہے۔
وزیراعظم نواز شریف اپنے خلاف پروپیگنڈے اور عدالت عظمیٰ میںاپنے خلاف پانامہ لیکس کی تحقیقات سے قطع نظر بڑے پیمانے پر ترقی کے امور پر توجہ دے رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں انہوں نے گوادر بندرگاہ سے کوئٹہ تک موٹر وے شارع کا سنگ بنیاد رکھا اس کے بعد انہوں نے لاہور میں علامہ اقبال کے عنوان سے گرینڈ پارک کابھی افتتاح کیا جہاں اپنی تقریر کے دوران انہوں نے ازراہ تفنن کہا کہ اس پارک کے اندر دیوار پر یہ کلمات لکھ دیئے جائیں کہ یہاں دھرنا دینا منع ہے کیونکہ دھرنا دینے کے عنوان سے مشہور افراد ایسے ہی مقامات کے متلاشی رہتے ہیں۔ انہوں نے وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے دن رات محنت کرنے کے جذبے کی تعریف بھی کی۔ اس افتتاحی تقریب میں وزیراعلیٰ کی ان الفاظ میں بھی تعریف کی گئی کہ ان کی ترقی کے امور میں رفتار مثالی حیثیت اختیار کرچکی ہے۔
وزیراعظم نے تقریب سے خطاب کے دوران یہ بھی کہا کہ ملک سے لوڈ شیڈنگ اپنے اختتام کی سمت گامزن ہے اور آئندہ برس بجلی کی پیداوار کے بیشتر کارخانے اپنے پایہ تکمیل کو پہنچ رہے ہیں اور یہ کہ 2018 ءتک ملک سے بجلی کی لوڈشیڈنگ مکمل طور پر ختم ہوجائے گی۔ انہوں نے حاضرین پر زور دیا کہ وہ ان کے مخالفین سے گزشتہ دور حکومت کی کارگزاری کے حوالے سے یہ ضرور دریافت کریں کہ وہ ملک کے مستقبل کی بجلی کے حوالے سے ضروریات کا تعین کرنے سے کیونکر قاصر رہے۔
بجلی کی ضروریات کی پیش بندی نہ کرسکنے کی سابق فوجی صدر پرویز مشرف کی خدمات کا انہوں نے تذکرہ ہی نہیں کیا جبکہ ان کی پارٹی کے دیگر قائدین نے دونوں جماعتوں کے درمیان فاصلے بڑھا دیئے جس کے جواب میں پیپلز پارٹی نے ان کے دیرینہ ساتھی اور وزیر داخلہ چوہدری نثار کے مستعفی ہوجانے یا ان کے برطرف کئے جانے کا مطالبہ کررہے ہیں کیونکہ جسٹس فائز عیسیٰ نے عدالت عظمیٰ کے احکامات پر سانحہ کوئٹہ کی تحقیقاتی رپورٹ کو ا فشاءکردیا جس میں وزارت داخلہ کو مذکورہ سانحے کا ذمہ دار قرا ردیا گیاتھا اور اس رپورٹ کی میڈیا میں زور شور سے تشہیر کی گئی تھی۔
وزیر داخلہ نے ایک پریس کانفرنس میں اپنے خلاف کمیشن کی رپورٹ میں اپنا دفاع کیا اور دعویٰ کیا کہ کمیشن نے ان سے تحریراً یہ سوال کیا تھا کہ آیا ان کی ملاقات فرقہ واریت میں ملوث ایک کالعدم تنظیم کے سربراہ سے ہوئی تھی یا نہیں۔ چوہدری نثار نے دعویٰ کیا کہ مولوی محمد احمد لدھانوی بھی اس وفد میں شامل ہوگئے تھے جس نے دفاع پاکستان کونسل کے سربراہ سمیع الحق کی قیادت میں ان سے ملاقات کی تھی اور یہ ملاقات طے نہیں تھی اور ان سے ملاقات کے لئے آنے والوں کے انہیں نام بھی معلوم نہیں تھے۔
ایسی ملاقات کے نتیجے میں چیف جسٹس بلوچستان نے ہائی کورٹ کے جسٹس فائز عیسیٰ کی جانب سے یہ اخذ کرلینا کہ وہ دہشت گردوں کی حمایت کے مرتکب ہوئے ہیں بالکل غلط ہے جسے وہ عدالت عظمیٰ اور قومی اسمبلی میں چیلنج کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ جسٹس فائز عیسیٰ کی رپورٹ عدالت عظمیٰ کے مذکورہ دہشت گردی کے سانحے جس میں 74 افراد لقمہ اجل بنے تھے جن کی اکثریت بیشتر وکلاء اور ان کے قائدین پر مشتمل تھی سے پہلے کیونکر ذرائع ابلاغ تک پہنچ گئی۔ انہوں نے خود بتایا کہ مذکورہ رپورٹ عدالت عظمیٰ کی ویب سائٹ پر ڈاون لوڈ کی جاچکی تھی۔ 
چیف جسٹس آف پاکستان انور ظہیر جمالی اپنے عہدے کی میعاد کے خاتمے پر ریٹائر ہوچکے ہیں جن کی جگہ تعینات ہونے کیلئے جسٹس ثاقب نثار تیار ہوچکے ہیں جو عدالت عظمیٰ کی موسم سرما کی تعطیلات کے بعد اپنی ذمہ داریاں سنبھالیں گے جن کے متعلق قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے قومی اسمبلی میں وزیراعظم کیخلاف مجوزہ تحریک استحقاق پیش کرتے ہوئے اپنے پوائٹ آف آرڈر میں اسپیکر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کا چیف جسٹس بھی عدالت عظمیٰ کا سربراہ بننے کو ہے۔ اسپیکر نے جواباً کہا کہ عدالت عظمیٰ کے متعلق ایسے ریمارکس سے باز رہاجائے۔ جسٹس ثاقب نثار حکومت کے نہیں پورے پاکستان کے چیف جسٹس ہیں۔
اس دوران حزب اختلاف نے وزیراعظم نواز شریف پر کڑی تنقید کی اور یہ سوال اٹھایا کہ وہ کس قدر پارلیمنٹ ہاوس میں پانامہ لیکس کے معاملے میں دروغ گوئی کے مرتکب ہوسکتے ہیں جس کا اظہار ان کے وکیل سلمان اسلم بٹ نے عدالت عظمیٰ کے سامنے کیا۔ سربراہ حکومت کا یہ طرز عمل ان کے لئے قابل قبول نہیں تھا کہ وزیراعظم کا وکیل عدالت عظمیٰ میں یہ کہے کہ وزیراعظم کی پارلیمنٹ ہاوس میں تقریر سیاسی تھی۔ اسپیکر نے کہا کہ فی الحال پانامہ لیکس کا معاملہ عدالت میں ہے اس معاملے پر بحث کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ عدالت عظمیٰ کو پانامہ لیکس کی سماعت کا بھی دوبارہ آغاز ہونا ہے اور ملک میںجاری پانامہ لیکس کے بحران پر ابھی فیصلہ ہونا ہے اور تمام قوم کی نگاہیں اس سلسلے میں عدالت عظمیٰ پر مرکوز ہوچکی ہیں۔ 
******

شیئر: