Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا زرداری، بلاول کا مقابلہ کرسکیں گے؟

 
بہتر ہے کہ زرداری پس منظر میں چلے جائیں، اپنا سیاسی کردار محدود کریں اور نئی نسل کو آزادی کےساتھ فیصلے کرنے دیں، پی پی پی پاکستان کی قومی جماعت ہے
 
ارشادمحمود
 
پیپلزپارٹی کے جیالوں نے آصف علی زرداری کا خوب استقبال کیا۔استقبالیہ تقریبات کی نگرانی کے فرائض بلاول بھٹو زرداری اور سندھ کے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے خود انجام دیئے۔استقبالی ہجوم یا پھر کوئی بڑا جلسہ کسی بھی پارٹی کی کامیابی کی ضمانت فراہم کرتا ہے اور نہ ہی اس کی مقبولیت کا پیمانہ تسلیم کیا جاتاہے۔جماعت اسلامی اور طاہر القادری کے اجتماعات دیکھ کر ایسا گمان ہوتاہے کہ الیکشن میں یہ پارٹیاں جھاڑو پھیر دیں گی لیکن انتخابی نتائج ہمیشہ مایوس کن نکلتے ہیں۔
  ملک بھر سے جمع ہونے والے پی پی پی کے کارکن اور رہنما زرداری کے استقبال کو پُررونق بنانے میں کامیاب ہو گئے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا زرداری پی پی پی کے حامیوں میں وہ روح پھونک سکیں گے جو ایک زندہ اور جاوید سیاسی جماعتوں کو مقابلے، مسابقت اور کشمکش میں اتارتی ہے؟بظاہر ایسا ممکن نظر نہیں آتا۔
آصف زرداری کی واپسی ایک ایسے وقت میں ہوئی جب وزیراعظم نوازشریف کےخلاف تحریک انصاف بھرپور مہم چلارہی ہے۔ پی پی پی بھی اس کی ہم نوالہ اور ہم پیالہ بن چکی ہے۔کم ازکم پنجاب کی حد تک وہ پی ٹی آئی کی پرچھائی نظرآتی ہے۔حالیہ چند ماہ میں بلاول بھٹو نے پارٹی کو نہ صرف متحرک کیا بلکہ اسے ایک نظریاتی سمت بھی دی۔ پارٹی کارکنوں، مایوس اورناراض رہنماوں اور کارکنوں کی ازسر نو صف بندی کی۔ 
بلاول کی شخصیت متاثر کن ہے۔وہ اپنے نانا اور والدہ کی طرح رفتہ رفتہ عوامی رنگ میں رنگتے جارہے ہیں۔بلوچستان میں بم دھماکے پر اظہار تعزیت کرتے ہوئے جس طرح انہوں نے آنسو بہائے،اس نے لوگوں کو متاثر کیا اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی یاد تازہ کرادی۔اسکے برعکس زرداری ڈرائنگ روم سیاست کے گرو ہیں۔ وہ سیاست کو عوام میں جاکر کرنے کے بجائے شطرنج کے کھیل کی طرح کھیلتے ہیں۔5 برس صدر رہے لیکن عوام سے دور اور بےزار بھی رہے۔ بے نظیر بھٹو کی موت کے بعد وہ کافی خوفزدہ بھی تھے۔ 
اب ان کی کراچی آمد سے پی پی پی کی حکومت مخالف تحریک سے ہوا بھی نکل سکتی ہے کیونکہ شہری انہیں اور خورشید شاہ کو (ن) لیگ کا حلیف تصور کرتے ہیں۔عمران خان بلاول بھٹو سے رفتہ رفتہ قریب ہورہے تھے لیکن وہ زرداری کے قریب جانا پسند نہیں کریںگے یا افورڈ نہیں کرتے،نہ لوگ انہیں ایسا کرنے دیں گے۔ زرداری کا امیج ایک کائیاں سیاستدان کا ہے جو تمام تر خوبیوں اور کمزوریوں کے باوجود قومی سیاسی افق پر موجود رہتاہے لیکن عوامی سطح پر وہ مقبول شخصیت بننے میں کامیاب نہ ہوسکے۔ پارٹی کے اندر بھی بالخصوص کارکنوں اور بھٹو خاندان کے حامیوں میں ان کےلئے کوئی قابل ذکر کشش نہیں پائی جاتی اور نہ نرم گوشہ۔
پی پی پی کا نظریاتی گروپ بلاول بھٹو زرداری کے پیچھے جمع ہورہاہے۔انہیں بلاول بھٹو میں امید کی ایک کرن نظر آتی ہے کہ وہ پارٹی کودرست کرسکتے ہیں لیکن بلاول کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ زرداری سے جان چھڑا نہیں پاتے۔ کئی وجوہ میں سے ایک وجہ یہ ہے کہ بے نظیر بھٹو کے تمام اثاثوں پر زرداری کا کنٹرول ہے۔ اگر بلاول بھٹو الگ سے یا آزادی سے سیاست کرتے ہیں تو ان کے پاس مالی وسائل نہیں۔ علاوہ ازیں پارٹی کے اندر کی بیورکریسی پر بھی زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور کی زبردست گرفت ہے۔بےنظیر بھٹو کے ساتھی کب کے گوشہ نشین ہوچکے۔
پارٹی بھی داخلی تقسیم کا شکار ہے۔ لاہور میں یوم تاسیس کے موقع پر ہونے والے جلسوں اور پارٹی اجلاسوں میں یہ تقسیم مزید کھل کر سامنے آئی۔ ہر صوبے اور شہرمیں پارٹی کے کئی ایک دھڑے ہیں جو ایک دوسرے سے نبردآزما ہیں۔ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی خاطر بسا اوقات وہ اپنی پارٹی کی شکست کا سبب بن جاتے ہیں۔ بلاول بھٹو نے آزادکشمیر اور گلگت بلتستان میں پارٹی کی شکست کے ذمہ دار پی پی پی کے رہنماوں کو قراردیا۔ کہا کہ ہمارے رہنماوں نے ایک دوسرے کا ساتھ نہیں دیا بلکہ بعض مقامات پر ایک دوسرے کو ناکام کرنے کی خاطر مخالفین کی مدد کی،چنانچہ پارٹی ناکام ہوگئی۔
پی پی پی پاکستان کی قومی جماعت ہے، اس کا مضبوط اور مستحکم ہونا ملک کے مفاد میں ہے کیونکہ یہ ایک سیاسی اور اعتدال پسند جماعت ہے لیکن اسے ازسر نو منظم ہونے کےلئے کئی ایک دوٹوک فیصلے کرنے ہوں گے اور پارٹی کلچر بدلنے کے بارے میں بھی سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا۔
پارٹی کے اندر زبردست اصلاحات درکار ہیں کیونکہ بلاول بھٹو زرداری جس نسل کے لیڈر بن کر ابھرنا چاہتے ہیں وہ ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کے عہد سے نہ صرف مختلف ہے بلکہ بہت زیادہ باخبر اور جدید عہد کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہے۔آج متبادل جماعتیں اورآپشن بھی دستیاب ہیں۔جب بھٹو نے پارٹی بنائی تھی اس وقت وہ واحد متبادل سیاسی قوت تھی لیکن اب(ن) لیگ اور تحریک انصاف نہ صرف موجود ہیں بلکہ ان کا ایجنڈا بھی ترقی اور خوشحالی کا ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ ساری جماعتیں ایک ہی جیسے نعرے اور دعوے کرتی ہیں۔اب فرق صرف یہ ہے کون سی پارٹی عوامی خدمت میں زیادہ مستعد ہے اور عام لوگوں کےلئے روزگار کے زیادہ موقع پیداکرتی ہے۔
آج کا نوجوان جو آبادی کا غالب حصہ ہے جمہوریت کی روح کو سمجھتا ہے اور لیڈروں سے توقع کرتا ہے کہ وہ جماعتوں کو جمہوری بنائیں گے جہاں عام کارکنوں کیلئے بھی ترقی کرنے اور پارٹی لیڈرشپ تک پہنچنے کے موقع ہوں۔پارٹی کے اندر بدعنوانی اور اقرباپروری کی روک تھوک کی واضح پالیسی ہو۔ اس نسل کی امنگیں مختلف ہیں وہ کسی بھی ایسی پارٹی کے دست وبازونہیں بن سکتے جو عوامی فلاح وبہبود کےلئے نمایاں خدمات سرانجام نہ دیتی ہو۔پی پی کا المیہ یہ ہے کہ وہ اچھی حکومت کی فراہمی میں ناکام رہی ہے۔سندھ کے موجودہ وزیر مراد علی شاہ نے کچھ امید پید اکی ہے لیکن سننے میں آرہاہے کہ انہیں بھی کام نہیں کرنے دیاجارہا۔ پی پی پی کے لیڈروں کو ناجائزکام کرانے کی لت پڑچکی ہے۔
زرداری پارٹی میں اصلاحات کے حق میں نظر نہیں آتے۔ بلاول بھٹو کو پارٹی کے اندر ایک جنگ لڑنا ہوگی اور باہر بھی۔ یہ ایک تکلیف دہ عمل ضرور ہے لیکن اس کے سوا کوئی چارہ نہیں۔بصورت دیگر ذوالفقار علی بھٹو اور بےنظیر بھٹوکی جماعت تاریخ کے کوڑادان کا حصہ بن جائے گی۔
بہتر ہے کہ زرداری پس منظرمیں چلے جائیں اور اپنا سیاسی کردار محدود کریں۔ نئی نسل کو موقع دیں کہ وہ پارٹی چلائے اور آزادی کے ساتھ سیاسی فیصلے کرے۔ سیاسی معرکہ آرائی کے ذریعے اپنی قوت اور صلاحیت کا مظاہرہ کرے۔
٭٭٭٭٭٭ 

شیئر: