نکاح انسانی معاشرہ کے وجود و بقا کا ایک اہم ستون ہے، مرد و زن درمیان محبت و مودت پیداہوتی ہے۔
مولانا محمد عابد ندوی ۔ جدہ
طلاق کے معنیٰ چھوڑنے اور آزاد کرنے کے ہیں۔ شرعی اصطلاح میں بیوی کو قید نکاح سے آزاد کرنے اور نکاح کی پابندیوں کو ختم کردینے کا نام طلاق ہے۔ یہ جائز و مباح ہونے کے باوجود ، حد درجہ ناپسندیدہ ہے ، اس لئے کہ نکاح کا مقصد صرف طبعی اور فطری خواہشات کی تکمیل ہی نہیں کہ جب چاہا نکاح کیا اور جب چاہا اس بندھن کو توڑ دیا۔ اگر یہی چیز مقصود ہوتو نکاح کا مخصوص طریقہ اختیار کرنے اور اس کی پابندیوں کو قبول کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی ۔ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر رسول اﷲ تک کوئی شریعت ایسی نہیں گزری جو نکاح کی مشروعیت سے خالی رہی ہو۔ آسمانی شریعت سے ہٹ کر دیگر اقوام و مذاہب عالم میں بھی ہر مہذب قوم میں نکاح کا تصور اور اس کا کوئی نہ کوئی طریقہ پایا جاتا ہے۔ نکاح انسانی معاشرہ کے وجود و بقا کا ایک اہم ستون ہے ۔ اس سے نہ صرف مرد و عورت کے درمیان محبت و مودت پیدا ہوتی ہے بلکہ اس سے دو خاندان ایک دوسرے سے قریب ہوتے ہیں ، ان کے افراد کے درمیان باہم ربط و تعلق پیدا ہوتا ہے ، اس سے اپنا گھر بستا اور گھریلو زندگی میں سکون و اطمینان کی دولت نصیب ہوتی ہے ۔
نکاح ہی نیک و صالح اولاد کے حصول کا ذریعہ ہے جو کسی بھی شخص کی زندگی کا قیمتی سرمایہ ہوتا ہے۔ صحیح تعلیم و تربیت اور اچھا ماحول انھیں میسر آئے تو یہ والدین کے لئے مرنے کے بعد بھی نیک نامی کا ذریعہ اور شرعی نقطۂ نظر سے حصول ثواب اور رفع درجات کا ذریعہ ہوتے ہیں۔ صحیح احادیث میں نیک اولاد کو صدقہ جاریہ کہا گیا ہے۔ نکاح کی قید اور اس کا تصور اگر ختم ہوجائے تو انسانی معاشرہ ، رحمت و مودت اور شفقت و اُلفت ، صلہ رحمی و غمگساری وغیرہ اخلاقی اقدار سے محروم ہوجائے ۔اسلام نے معاشرہ کی بنیاد خاندان اور اس کے خوشگوار تعلقات پر رکھی ہے اور خاندان کا دار و مدار رشتۂ نکاح پر ہے۔ یہ رشتہ جس قدر مضبوط ہوگا ، اتنا ہی پاکیزہ خاندان اور صالح معاشرہ وجود میں آئے گا ۔ نکاح کے بلند ترین مقاصد کا حصول اسی وقت ممکن ہے جب کہ یہ رشتہ دائمی ، مضبوط اور پائیدار بھی ہو چنانچہ اسلامی تعلیمات میں شوہر وبیوی کے حقوق اور باہم خوشگوار زندگی گزارنے کے رہنما اُصول بیان کئے گئے تاکہ نکاح کا رشتہ میاں بیوی کے درمیان استوار رہے اور اس کے ٹوٹنے کی نوبت کم سے کم آئے ۔
طلاق کے ایک بول سے جب یہ رشتہ ٹوٹتا ہے تو اس سے صرف خاندان کے دوفرد میاں بیوی ہی جدا نہیں ہوتے بلکہ خاندان کے کتنے ہی افراد کے تعلقات اس سے ٹوٹتے اورمتاثر ہوتے ہیں ۔ آپس میں دشمنی و عداوت کی ایسی بنیاد پڑ جاتی ہے جس کے اثرات بسا اوقات نسلوں تک کو بھگتنے پڑتے ہیں ۔ میاں بیوی صاحب اولاد ہوں تو طلاق و تفریق اورجدائی کے نتیجہ میں اولاد کی زندگی تباہ و برباد ہوکر رہ جاتی ہے۔ وہ صحیح تعلیم و تربیت سے محروم ہوجاتے ہیں ، انھیں ماں کی ممتا و شفقت اور باپ کی نگرانی اور تربیت نہیں ملتی ، ان کی مظلوم زندگی پر معاشرہ میں کوئی ترس کھانے والا نہیں ہوتا ، الغرض نکاح کے بعد جدائی معاشرہ کا انتہائی نازک اور اہم معاملہ ہے ، اس سے کئی پیچیدہ مسائل جنم لیتے ہیں اور کئی زندگیاں تلخ ہوجاتی ہیں اس لئے شریعت اسلامی میں نکاح کی جتنی ترغیب دی گئی اتنا ہی زیادہ طلاق کی مذمت و برائی بیان کی گئی اور اسے ناپسندیدہ قرار دیا گیا۔ مبغوض و ناپسندیدہ ہونے کے باوجود جائز اس لئے رکھا گیا کہ کبھی میاں بیوی کے درمیان نا اتفاقی اس قدر بڑھ جاتی ہے کہ حسن معاشرت کے ساتھ خوشگوار نباہ اور تعلقات ممکن نہیں رہتے بلکہ دشوار ترین ہوجاتے ہیں ، علیحدگی ناگزیر ضرورت بن جاتی ہے۔ ایسے ہی ناگزیر حالات میں علیحدگی کے لئے شریعت نے طلاق کو مشروع کیا اور اسے جائز رکھا۔
طلاق کے ناپسندیدہ ہونے کے باعث ہی شریعت نے طلاق کا اختیار عورت کو نہیں دیا کیوںکہ یہ حقیقت کون نہیں جانتا کہ عورت عام طورپر جذباتی ہوتی ہے ، معمولی باتوں سے جلد متاثر اور مشتعل ہونے کا مزاج رکھتی ہے۔ ایک حدیث میں یہ حقیقت یوں بیان ہوئی کہ تم عورت کے ساتھ عمر بھر ( ایک زمانہ تک ) احسان اور اچھا برتاؤ کرتے رہو ، پھر تم سے وہ کوئی چیز دیکھے یعنی اتفاقاً کوئی معمولی بات یا اس کی مرضی کے خلاف کوئی چیز تمہاری طرف سے پیش آجائے تو فوراً کہے گی :میں نے کبھی تم سے کوئی بھلائی دیکھی ہی نہیں ( صحیح بخاری ) ۔
اگر عورت کو طلاق کا اختیار دیا جاتا تو اس بات کا قوی اندیشہ اور امکان ہوتا کہ وہ معمولی اختلاف و نا اتفاقی کی صورت میں جذباتیت سے مغلوب ہوکر ، انجام کی پرواہ کئے بغیر فوری طلاق کا قدم اُٹھائے اور اس حق کو اختیار کرکے رشتۂ نکاح کو توڑ دے۔ اس طرح علیحدگی اورطلاق کے واقعات بکثرت رونما ہوتے ۔عورت کے مقابلے میں مرد نسبتاً عقلمند و دانا ، کم جذباتی اور انجام پر نظر رکھنے والا ہوتا ہے۔ اس لئے اس سے یہ توقع کی جاسکتی تھی کہ طلاق دینے سے پہلے ہزار بار اس کے انجام پر اور طلاق و جدائی سے پیدا ہونے والی پیچیدگیوں پر غور کرلے ۔ اس طرح طلاق کے واقعات کم سے کم تر ہوں لیکن افسوس کہ آج معاشرہ میں جہالت و نادانی اور دین سے دوری کے سبب بہت سے مرد اس معاملے میں جلد بازی کا مظاہرہ کرتے ہیں اوربغیر سوچے سمجھے زبان سے طلاق کے الفاظ نکال کر نکاح جیسے مقدس رشتہ کو توڑ دیتے ہیں اوربعض ناداں بلکہ ظالم شوہر اس حق کو بیوی کے لئے تلوار کے طورپر استعمال کرتے ہیں کہ ’’ تم نے اگر فلاں کام نہیں کیا تو تمہیں طلاق ‘‘ یا ’’ اگر میرے ساتھ رہنا ہو تو تمہیں اس طرح رہنا ہوگا ، ورنہ طلاق دے دوں گا ‘‘ وغیرہ ، اﷲ تعالیٰ نے بیویوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے او ربھلے طریقہ پر زندگی گزارنے کا حکم دیا ہے ( النساء19 ) کیا اسے حسن سلوک اور بھلا طریقہ کہا جاسکتا ہے ؟
شریعت میں طلاق کس درجہ ناپسندیدہ ہے اس کا اندازہ ان چند روایات سے لگائیے : مستدرک حاکم کی ایک روایت کا مفہوم یہ ہے کہ اﷲ کے نزدیک بدترین گناہ یہ ہے کہ کوئی مرد کسی عورت سے نکاح کرے اور جب اس سے اپنی ضرورت پوری کرلے تو اس کو طلاق دیدے اور اس کا مہر بھی ہڑپ کرجائے۔ ایک موقع پر رسول اﷲ نے حضرت معاذ بن جبل ؓسے فرمایا: ’’ اے معاذ! روئے زمین پر اﷲ تعالیٰ نے کوئی ایسی چیز پیدا نہیں فرمائی جو غلام آزاد کرنے سے زیادہ پسندیدہ ہو اور روئے زمین پر کوئی ایسی چیز پیدا نہیں فرمائی جو اس کے نزدیک طلاق سے زیادہ ناپسندیدہ ہو۔ ‘‘( دار قطنی بحوالہ مشکوٰۃ المصابیح ) ۔
یعنی حلال و مباح اُمور میں اﷲ کی رضا و خوشنودی حاصل کرنے کے لئے غلام آزاد کرنا بہت بڑی نیکی ہے جبکہ جائز و مباح اُمور میں اﷲ کے نزدیک سب سے زیادہ ناپسندیدہ چیز طلاق دینا ہے ۔ وہ مرد یا عورتیں جو تجدید لذت کے لئے نکاح کرتے اور پھر نکاح کا بندھن توڑتے چلے جاتے ہیں ، ایسے مرد و عورتوں پر بعض احادیث میں لعنت ِالٰہی کی وعید بھی آئی ہے۔ ان عورتوں کو جو شوہر سے بلا وجہ خلع کا مطالبہ کریں ایک حدیث میں منافق عورتیں کہا گیا (ترمذی )۔ ایک حدیث میں نبویؐ ارشاد ہے: ’’ جو عورت بلا وجہ شوہر سے خلع لے وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں پاسکے گی۔‘‘ ( ترمذی )۔
جبکہ ایک روایت حضرت ثوبانؓ اس طرح نقل کرتے ہیں کہ رسول اﷲ نے ارشاد فرمایا: ’’جو عورت بھی بلا وجہ اپنے شوہر سے طلاق کا مطالبہ کرے اس پر جنت کی خوشبو حرام ہے۔ ‘‘( ترمذی )۔
احادیث میں اُن لوگوں کے لئے بھی سخت و عید ( اور بعض روایات میں لعنت ) آئی ہے جو کسی میاں بیوی کو ورغلاکر یا ایک دوسرے کے خلاف باتیں کرکے ان کی خوشگوار زندگی میں تلخیاں پیدا کردیتے اور جدائی ڈلوادیتے ہیں ۔عورتیں بالعموم اس طرح کی باتوں سے جلد متاثر ہوجاتی ہیں ، اس لئے ایک حدیث میں رسول اﷲ کا ارشاد گرامی اس طرح منقول ہے: ’’ اس شخص کا ہم سے کوئی تعلق نہیں جو عورت کو اس کے شوہر کے خلاف یا غلام کو اس کے آقا کے خلاف ورغلائے ۔ ‘‘( ابوداؤد )۔ میاں بیوی کے درمیان تفریق شیطانی کام ہے ۔سورہ البقرہ میں جادو کے بارے میں یہ بات بیان ہوئی کہ شیاطین لوگوں کو اس کی تعلیم و تلقین کرتے اور اس کے ذریعہ میاں بیوی کے درمیان جدائی کروادیتے ہیں۔ اسی طرح صحیح مسلم کی حدیث میں رسول اﷲ کا ارشاد گرامی ہے: ’’ ابلیس اپنا تخت پانی پر بچھاتا ہے پھر اپنے لشکر لوگوں کے درمیان (انھیں گمراہ کرنے کے لئے ) بھیجتا ہے ، شیطان کے نزدیک سب سے زیادہ مرتبہ اور قرب پانے والا وہ ہوتا ہے جس نے سب سے زیادہ فتنہ برپا کیا ہو ، ان میں سے ایک آکر کہتا ہے کہ میں نے یہ کام کیا ، شیطان اس کی روداد سن کر کہتا ہے تم نے کچھ نہیں کیا ، ( یعنی کوئی خاص کارنامہ انجام نہیں دیا ) پھر ان میں سے ایک آکر کہتا ہے کہ میں فلاں کے پیچھے لگا رہا یہاں تک کہ اس کے اور اس کی بیوی کے درمیان جدائی ڈال دی ، ابلیس یہ سن کر اس کو اپنے قریب کرلیتا اور سینہ سے چمٹا لیتا ہے اور کہتا ہے ’’ تم نے کیا ہی اچھا کام کیا۔ ‘‘
معلوم ہوا کہ میاں بیوی کے درمیان تفریق کی کوششیں شیطانی کام ہیں اور شیطان اس سے خوش ہوتا ہے جبکہ ایک دوسری حدیث میں ارشاد گرامی ہے: ’’ بے شک اﷲ کے نزدیک حلال چیزوں میں سب سے زیادہ مبغوض ترین چیز طلاق ہے۔ ‘‘( ابوداؤد ) افسوس ! لوگ معمولی باتوں پر اپنے عمل سے اﷲ کو ناراض کرتے اور شیطان کو خوش کرتے ہیں ، زبان سے اﷲ کی بندگی کا دعویٰ اور کردار سے شیطان کی پرستش ۔