Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کالی دولت

 
 
انتخابی عمل کی نگرانی کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم کا کہنا ہے کہ سیاسی پارٹیوںکے فنڈ کا 75فیصدی حصہ نامعلوم ذرائع سے حاصل ہوتا ہے
 
معصوم مرادآبادی
 
مودی سرکار نے بڑے کرنسی نوٹوں کی منسوخی کے جو اسباب بیان کئے تھے ان میں ایک بڑا سبب انتخابات کے دوران کالے دھن کی ریل پیل کو روکنا بھی تھاکیونکہ پارلیمنٹ اور اسمبلی چناو میں ہی نہیں بلکہ بلدیہ اور پنچایت کے انتخابات میں بھی امیدوار اپنی کامیابی کو یقینی بنانے کے لئے پیسہ پانی کی طرح بہاتے ہیں۔ظاہر ہے اس ملک میں جتنا کالادھن سیاست دانوں اور سیاسی پارٹیوں کے پاس ہے اتنا کسی کے پاس بھی نہیں لیکن یہ سیاست دانوں کی شاطرانہ چالیں ہیں کہ وہ خود کو پاک وصاف بناکر رکھتے ہیں اور عوام کے سرپر ہمیشہ تلوار لٹکی رہتی ہے۔ انتخابات کے دوران جس وسیع پیمانے پر کالے دھن کا استعمال ہوتا ہے، اس کی کوئی تفصیل آج تک مہیا نہیں ہوسکی ۔ ہرچند کہ الیکشن کمیشن نے چناوکے دوران کالی دولت کے استعمال کو روکنے کے لئے بہت سی قانونی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں اور انتخابی ضابطہ اخلاق کے عنوان سے بھاری بھرکم ضابطے بھی بنارکھے ہیں، یہاں تک کہ امیدواروں کا یومیہ خرچ بھی متعین کیاہوا ہے جس کی خلاف ورزی کرنے کی صورت میں الیکشن رد ہونے کا امکان بھی موجود ہے لیکن اس کے باوجود انتخابات میں کالی دولت کی کرشمہ سازیاں اپنی جگہ قائم ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ کالے دھن پر روک لگانے کا دعویٰ کرنے والی پارٹیاں بھی خود اس گورکھ دھندے میں گردن تک ڈوبی ہوئی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک ایسے مرحلے میں جبکہ عوام کو کالادھن ختم کرنے کے نام پر چاروں طرف سے گھیرا جارہا ہے ، سیاسی پارٹیاں اپنے لئے قوانین کو مزید آسان بنارہی ہیں اور اس بات کی کوشش ہورہی ہے کہ سیاسی پارٹیوں پر کوئی آنچ نہ آنے پائے۔ حکومت نے اعلان کیا ہے کہ بڑے نوٹوں کی منسوخی کے بعد سیاسی پارٹیوں کے کھاتوں میں جو رقم جمع ہوگی اس کی کوئی جانچ نہیں کی جائے گی۔ یہ اعلان ایک ایسے مرحلے میں کیاگیا ہے جب عوام الناس کے کھاتوں میں جمع کئے گئے پرانے کرنسی نوٹوں کی جانچ کرنے کی ہدایت دی گئی ہے یعنی عام لوگوں کے کھاتوں میں تو ڈھائی لاکھ روپے جمع ہونے کی جانچ ہورہی ہے جبکہ سیاسی پارٹیوں کو اس سے مستثنیٰ قرار دیتے ہوئے بے حساب رقم جمع کرنے کی چھوٹ دی جارہی ہے۔ اس چھوٹ کا فائدہ اٹھاکر اگر کوئی سیاسی پارٹی اپنے کھاتے میں ڈھائی سوکروڑ بھی جمع کرلے تو اس سے کوئی باز پرس نہیں ہوگی۔
عام آدمی پارٹی کے کنوینر اور دہلی کے وزیراعلیٰ اروندکیجریوال نے سیاسی پارٹیوں کو چھوٹ دیئے جانے سے متعلق قوانین پر سوال کھڑے کئے ہیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ تمام سیاسی پارٹیوں کے گزشتہ 5 برسوں کے کھاتوں اور آمدنی کے ذرائع کی جانچ کے لئے ایک آزادانہ کمیشن قائم کیاجائے۔ انہوں نے کہاکہ پورے ملک کو لائنوں میں لگاکر مودی سرکار اب سیاسی پارٹیوں کے کالے دھن کو سفید کرنے میں مصروف ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہاکہ سیاسی پارٹیوں کا کالادھن اس طرح سے کسی جانچ کے بغیر اگر سفید کیاجائے گا تو پورے ملک کے ساتھ فریب ہوگا۔ ظاہر ہے سیاسی پارٹیوں کے لئے ٹیکس میں رعایت کو جاری رکھ کر مرکزی حکومت نے اپنے دوغلے کردار کا ثبوت ہی فراہم کیا ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ایک طرف تو وہ عوام کے لئے روزبروز سخت سے سخت قوانین بنارہی ہے لیکن اس کے اندر ملک کی سیاسی جماعتوں سے باز پرس کرنے کی ہمت نہیں ۔ ظاہر ہے جب اقتدار میں بیٹھی ہوئی طاقتیں ہی شفافیت نہیں اپنائیں گی تو باقی لوگوں کے خلاف کارروائی کا کوئی مطلب ہی نہیں رہ جائے گا۔ گزشتہ جمعہ کو ہی حکومت نے اعلان کیاہے کہ سیاسی پارٹیوں کے کھاتے میں ہزار اور 5 سو کے پرانے نوٹوں میں جمع رقم پر انکم ٹیکس نہیں لگے گا۔ واضح رہے کہ انکم ٹیکس قانون کے مطابق سیاسی پارٹیوں کو ان کی آمدنی پر ٹیکس سے رعایت حاصل ہے۔ انہیں یہ آمدنی، جائیداد دیگر ذرائع ، سرمایہ کاری سے حاصل شدہ فائدے اور کسی شخص کی طرف سے دیئے گئے چندے سے ہوسکتی ہے۔ یہ نظام دراصل پچھلے کافی وقت سے یوں چلاآرہا ہے اور اس کی آڑ میں بلیک منی کو سفید کیاجاتا ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ تمام سیاسی پارٹیوں کو جو بھی انتخابی آمدنی ہوتی ہے، اس کا سب سے بڑا حصہ وہ 20ہزار روپے سے کم کے چندے کے کھاتے میں دکھاتے ہیں۔ جب الیکشن کمیشن ا ن سے تفصیلی حساب طلب کرتا ہے تو وہ محض خانہ پری کردیتے ہیں۔ کالے دھن کو استعمال میں لانے کا کام دوسرے طریقوں سے بھی عمل میں آرہا ہے۔ کچھ دنوں پہلے الیکشن کمیشن نے توجہ دلائی تھی کہ ملک میں تقریباً1900 سیاسی پارٹیاں رجسٹرڈ ہیں ۔ ان میں سے 400ایسی پارٹیاں ہیں جنہوں نے آج تک کسی بھی الیکشن میں حصہ نہیں لیا۔ الیکشن کمیشن کا خیال ہے کہ ایسی پارٹیوں کا مقصد صرف کالے دھن کو سفید کرنا ہے۔ وہ سیاسی پارٹی کے نام پر انکم ٹیکس میں ملی ہوئی رعایت کا فائدہ اٹھارہی ہیں۔ تشویش ناک بات یہ ہے کہ ایک طرف ہم خود کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت قرار دیتے ہیں لیکن دوسری طرف انتخابی نظام کو صاف ستھرا بنانے سے کتراتے ہیں۔ انتخابی عمل کی نگرانی کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم کا کہنا ہے کہ ہماری سیاسی پارٹیوںکے فنڈ کا 75فیصدی حصہ نامعلوم ذرائع سے حاصل ہوتا ہے۔ مودی حکومت کے تیوروں سے شروع میں یوں محسوس ہوا تھا کہ سیاسی پارٹیوں کے تعلق سے ضابطے تبدیل کئے جائیں گے لیکن یہاں بھی عوام کو مایوسی ہی ہاتھ لگی ہے۔ 
اس دوران الیکشن کمیشن نے انتخابات میں کالے دھن کا استعمال روکنے کے لئے مرکزی حکومت کو3 اہم تجاویز پیش کی ہیں۔ پہلی تجویز سیاسی پارٹیوں کے دوہزار روپے سے زیادہ کا خفیہ چندہ لینے پر پابندی لگانے کی ہے۔ ابھی یہ حد 20ہزار روپے ہے۔ دوسری تجویز انتخابات میں حصہ نہ لینے والی سیاسی پارٹیوں کو انکم ٹیکس سے چھوٹ نہ دینے کی ہے۔ صرف لوک سبھا یا اسمبلی انتخابات میں سیٹیں جیتنے والی سیاسی پارٹیوں کو ہی یہ رعایت ملے تو بہتر ہوگا۔ تیسری تجویز یہ ہے کہ سیاسی پارٹی کو کوپن کے ذریعے چندہ دینے والوں کا بھی پورا پورا حساب رکھنا ہوگا۔ یہ اہم انتخابی اصلاحات نافذ کرنے کے لئے الیکشن کمیشن نے مرکزی حکومت سے قانون میں تبدیلی کی سفارش کی ہے لیکن حکومت کا رویہ دیکھ کر اندازہ ہوتاہے کہ ان سفارشوں پر عمل ہونا فی الحال ناممکن ہے۔ 
******

شیئر: