Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مفاہمت

عالمی سامراج اس ہنر میں طاق ہیں کہ وہ اپنے اعلانیہ یا غیر اعلانیہ دشمن کے سپوتوںکی اہلیت،جرأت و بہادری،عزم و ولولے کے متعلق واقف ہوتے ہیں

 

محمد مبشر انوار

افغانستان میں روسی شکست اور سرد جنگ کے خاتمے کے بعد ،عالمی معاملات کلیتاً ایک بڑی طاقت کے ہاتھ میں چلے گئے ،طاقت کا توازن بگڑ گیا اوراستعماری سامراج دنیا کے تمام معاملات میں بزعم خود دخل در نا معقولات کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہو گیا۔ نیو ورلڈ آرڈر کا مقصد مسلمانوں اور اسلام کی بیخ کنی ٹھہرا، روس کے خلاف کل کے مجاہدین ،نئی تعریف کے مطابق دہشت گرد قرار پائے، منصوبہ سازوں نے ایسے منصوبے ترتیب دئیے جن کا مقصد امن پسند مسلمانوں کے مذہبی عقائد کے ساتھ ساتھ ان کے جذبات کو بر انگیختہ کرتے ہوئے پرتشدد واقعات پر ابھارنا رہا، جس کے جواب میں غیر مسلم طاقتیں اپنی پوری طاقت اور پروپیگنڈے کے ساتھ مسلمانوں کو دہشت گرد ثابت کرنے پر تل گئیں۔ روس کے خلاف جنگ میں ’’مجاہدین اسلام‘‘ کہلانے والے،مطلب براری کے بعد اولاً انتہا پسند ٹھہرے اور بالآخر انہیں ’’دہشت گرد‘‘ قرار دیا گیاجبکہ ان کی عسکری تربیت اور فنڈنگ کے حوالے سے یہی ممالک دامے درمے سخنے ان کی مدد کرتے رہے تھے لیکن مفادات کی بر آوری کے بعددنیا میں ایسے مہرے بالعموم ردی کی ٹوکری بنا دئیے جاتے ہیں۔ دوسری طرف ہماری اشرافیہ ،ہمارے حکمران بلا تفریق سول و ملٹری،جنہیں صرف ذاتی مفادات عزیز تر رہے، نہ ان کا وژن نہ تربیت، نہ نیت اور نہ ہی خلوص جو انہیں ان پیچ در پیچ معاملات کا فہم و ادراک عطا کرتا اور وہ ملک و قوم کے بہتر مستقبل کا فیصلہ کر پاتے۔

عالمی سامراج اور اس کے گماشتے کم ازکم اس ہنر میں طاق ہیں کہ وہ اپنے اعلانیہ یا غیر اعلانیہ دشمن کے قابل سپوتوں،ان کی اہلیت،جرأت و بہادری،عزم و ولولے کے متعلق پوری معلومات بہم رکھتے ہیں اور جیسے ہی انہیں یہ احساس بھی ہو جائے کہ فلاں ان کے منصوبے میں رکاوٹ بن سکتا یا سکتی ہے،اسے منظر سے ہٹانے میں انہیں کوئی دقت نہیں ہوتی اور اس مقصد کی خاطر اب یہ بھی ضروری نہیں رہا کہ وہ بذات خود اس میں ملوث ہوں، انہیں اس مقصد کی خاطر بھاڑے کے ٹٹو اسی قوم سے میسر ہوتے ہیں۔ موجودہ صورتحال کے متعلق ذوالفقار علی بھٹو نے بہت پہلے کہاتھاکہ جس الائنس کو عالمی طاقتیںپروان چڑھا رہی ہیں،وہ آنے والے کل میں ہمارے لئے اثاثے کی بجائے مصیبت بن جائے گی۔ دین سے بے بہرہ یہ گروہ،ہلاکت خیزی اور ناسوربن کر ہمارے معاشرے کو چاٹ لے گا،ہماری آنے والی نسلوں کی تباہی و بربادی کا سامان بنے گا، ہمارے بچوں ،عورتوں ،بوڑھوں کو قتل کرے گا۔ آج بعینہ وہی صورتحال وطن عزیز کو در پیش ہے۔ ذوالفقار علی بھٹوکی دور رس نگاہوںنے آنیوالے منظر کو بھانپ لیا تھا ،اسی لئے انہوں نے مسلم ممالک کو اکٹھا کرنے کی کوششیں تیز تر کردی ،ان کی سحر انگیز شخصیت کا اثر تھا کہ تمام قابل ذکر اسلامی مملکتیں ،ان کے نظرئیے سے متفق ہوتے ہوئے ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا ہوئیں۔ اس دوران مغربی سامراجی طاقتیں مسلسل انہیں متنبہ کرتی نظر آئیں کہ وہ اپنے اس مشن سے دستبردار ہو جائیں وگرنہ ان کو نشان عبرت بنا دیا جائے گا مگر ان تمام تر دھمکیوں کے باوجود ذوالفقار علی بھٹو اپنے مشن سے دستبردار نہ ہوئے۔ ان کی شبانہ روز محنت اپنا اثر دکھانے لگی تو دشمنوں کے آلہ کارضمیر فروش متحرک ہو گئے اور یکے بعد دیگرے اہم بااثر مسلم رہنماؤں کو منظر سے ہٹایا جانے لگا۔ افغانستان میں بنیاد پرستوں کو اکٹھا کرنے کے لئے جس طرح وسائل مہیا کئے گئے ، اس کے منطقی انجام سے بھی بھٹو نے فوری آگاہ کر دیا اور کہا کہ جو صف بندی اس وقت ہو رہی ہے اس کے پیش نظر انتہا پسندی کو تقویت ملے گی جس کے نتیجے میں ایک وقت آئے گا جب یہ گروہ امت مسلمہ کے لئے ناسور بن جائیں گے اور ان کے شر سے کوئی نہیں بچے گا۔

آج بعینہ وہی صورتحال در پیش ہے اور ان گروہوں کی حرکات بجائے مسلمانوں کو تقویت پہنچانے کے انہیں پستی کی دلدل میں دھکیل رہی ہیں۔ اس پس منظر میں جب تہذیبوں کے تصادم کی آگ سلگ چکی توذوالفقار علی بھٹو کی بیٹی نے کتاب’’مفاہمت‘‘ تحریر کی اور اس صورتحال سے بچنے کے لئے بین المذاہب،بین المسالک اور بین التہذیب مکالمے کی ضرورت و اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ امن کی خاطر ضروری ہے کہ عالمی برادری کے اہم ستون مل بیٹھ کر ایسی راہ نکالیں جس سے امن یقینی ہو سکے۔ ایسی سوچ کا مظاہرہ ہر سیاست دان کے بس کی بات نہیں بالخصوص مفاد پرست،ابن الوقتوں اور تاریخ سے نابلد تو ایسی کسی سوچ کے قریب بھی نہیں پھٹک سکتے، محترمہ بے نظیر بھٹو نہ صرف ایک قد آور سیاست دان تھیں بلکہ تاریخ پر ان کی گرفت بھی مضبوط تھی،علاوہ ازیں انہیں یہ خداداد صلاحیت بھی حاصل تھی کہ حالات کے مطابق بہترین حل بھی تجویز کر سکتی تھیں،’’مفاہمت‘‘ اس کا ناقابل تردیدثبوت ہے۔ اس مقصد کے لئے ماضی کی تلخیوں کو بھول کر ،نئے سرے سے امن کے پھول کاشت کرنے ہوں گے،تمام ا سٹیک ہولڈرز کو ’’جیو اور جینے دو‘‘ کی پالیسی اپنانی ہو گی۔ یہاں مغرب کے دہرے معیار اور کردار کا ذکر بر محل ہے کہ مغرب زبانی تو اس امر کا اظہار ضرور کرتا ہے کہ امن قائم ہو مگر زیر زمین اس کی بھر پور کوششیں ہیں کہ کسی طرح بھی اسلامی ممالک باہم منقسم رہیں، ان میں خلیج بڑھتی رہے،مسالک کے درمیان دیواریں نہ صرف اونچی ہوں بلکہ مضبوط تر ہوتی چلی جائیں۔ جس پس منظر میں محترمہ نے ’’مفاہمت ‘‘ لکھی اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ محترمہ کو حالات کی سنگینی کا صحیح ادراک تھا ،اس کے ساتھ ساتھ محترمہ کی ذاتی حیثیت ایسی تھی کہ وہ نہ صرف اپنے وژن کو پیش کر تیں بلکہ اس کو مدلل الفاظ میں تسلیم کروانے پر بھی قادر تھیں۔

ان کی اس اہلیت کو مد نظر رکھتے ہوئے،مغربی ایشیا میں ابھرتے طوفان پر قابو پانے کی خاطر ہی جنرل مشرف سے این آراو کی ڈیل کروائی گئی تا کہ محترمہ اپنے مفاہمتی وژن اور عوامی مقبولیت کے ساتھ اس ناسور کا علاج کر یں لیکن جنرل مشرف اور ان کے ساتھیوں نے ان کے کردار کو محدود رکھنا چاہا جس کی خلاف ورزی پر انہیں اپنی جان سے ہاتھ دھونے پڑے۔ محترمہ کی شہادت کے بعد ، زرداری صاحب نے ’’پاکستان کھپے‘‘ کا نعرہ لگا کر عوامی ہمدردیاں تو ضرور سمیٹیں، آئین کو اصل حالت میں بحال تو ضرور کیا،صوبوں کے درمیان وسائل کی تقسیم کا قابل عمل فارمولا تو بنا ڈالا،کنکرنٹ لسٹ میں موجود صوبائی خود مختاری تو دے ڈالی،گلگت بلتستان کو الگ صوبہ تو بنا ڈالا مگر مفاہمتی پالیسی کے نام پر مخالفین کی قانون شکنی سے نظر اندازی، وسائل کی لوٹ کھسوٹ سے چشم پوشی نے اس مفاہمت کو کلی طور پر ایک مختلف رنگ دے ڈالا۔ اشرافیہ نے اپنے اپنے دائرہ کار مافیاؤں کی طرح تقسیم کر کے اندھیر نگری مچا دی کہ ان کے نزدیک یہی وہ مفاہمتی پالیسی تھی ،جس کا ذکر محترمہ نے اپنی کتاب میں کیا تھا۔ محترمہ کے خوبصورت مفاہمتی وژن کا یہ انجام کس نے سوچا ہوگا؟پیپلز پارٹی ایک وفاقی جماعت کی حیثیت سے زندہ رہی مگر افسوس مفاہمت کی من مانی تشریح کرنے والوں پر ،جنہوں نے ایک وفاقی سیاسی جماعت کو لسانی جماعت بنانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔

شیئر: