Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ما ورا النہر:ازبکستان کی مثالی ترقی کے 25 برس

 انقلاب روس کے بعد ترکستان میں دینی تعلیم کا حصول ممنوع تھا، تبلیغ و اشاعت دین بہت بڑا جرم تصور کیا جاتا تھا 
 
ارسلان ہاشمی ۔ جدہ
 
جدہ میں ازبکستان کے قونصل جنرل اولوغ بیگ مقصود آف خوش مزاج اور انتہائی ملنسار شخصیت کے حامل ہیں انہیں یہاں تعینات ہوئے  2 برس گزر چکے ہیں۔ اس سے قبل وہ امریکہ میں ازبکستان کے سفارتخانے میں فرائض انجام دے چکے ہیں ۔اولوغ بیگ سے  اکثر و بیشتر پریس کانفرنسس اور دیگر تقریبات میں ملاقات رہتی تھی ۔ 2015 میں ازبکستان کے صدارتی انتخابات ہونے تھے اس موقع پر جدہ میں  ازبک  قونصلیٹ کی جانب سے صدارتی انتخابات کی کوریج کیلئے  دعوت نامہ موصول ہوا مگر مصروفیت کی وجہ سے نہ جاسکا ۔ جولائی 2016 میں ازبکستان کے پہلے صدر اسلام کریم آف کے انتقال کے بعد ریاستی قانون کے مطابق  الیکشن کمیشن نے 90 دن کے اندر انتخابات کرانے کے احکامات دیئے اور تمام سیاسی جماعتوں کو پروگرام جاری کر دیا جس کے بعد وہاں انتخابات کی تیاریاں شروع ہو گئیں ۔ 
 
ستمبر کا پہلا ہفتہ تھا، میں ایک طویل عرصہ بعد چھٹیوں پر پاکستان گیا تھا۔اس دوران  واٹس اپ پر ا زبک  قونصل جنرل اولوغ بیگ کا میسج آیا جس میں کہا گیا تھا کہ میں آپ سے رابطہ کرنے کی کوشش کررہا ہو ں مگر نمبر بند جا رہا ہے ۔ میں نے انہیں بتایا کہ میں پاکستان میں ہوں جس پر بیگ کی جانب سے جواب آیا کہ جیسے ہی جدہ آئیں مجھ سے رابطہ کریں۔ اس جواب نے مجھے تجسس میں ڈال دیا تاہم پاکستان میں اس قدر مصروفیات تھی کہ میں دوبارہ رابطہ نہ کر سکا ۔ ایک ماہ چھٹی گزار کر جوں ہی جدہ پہنچا تو پہلی کال اولوغ بیگ کی آئی خیریت دریافت کرنے کے بعد بتایا کہ ازبکستان میں دسمبر کے پہلے ہفتے میں صدارتی انتخابات ہونے ہیں۔ ہماری خواہش ہے کہ آپ اس بار ازبکستان ضرور جائیں تاکہ وہاں کے صدارتی انتخابات کے طریقہ کار کا از خود مشاہدہ کریں ۔ ( اکثر ازبکستان کے سیاسی حالات اور وہاں انتخابی عمل کے موضوع پر اولوغ بیگ سے بات ہوتی رہتی تھی میرا کہنا تھا کہ ازبکستان میں الیکشن کے نام پر محض ڈرامہ ہی کیا جاتا ہے جس پر ا نکا جواب ہوتا تھا کہ آپ خود اس کا مشاہدہ کریں ) ۔
 
بات ہو رہی تھی ازبکستان کے انتخابات کے آغاز کے حوالے سے تیاریوں کی ۔ دعوت نامہ موصول ہونے کے بعد دوسرا مرحلہ  ویزے اور دیگر تیاریوں کا تھا اس حوالے سے کسی قسم کی مشکلات کا سامنا نہیں تھا کیونکہ دعوت نامہ ازبکستان الیکشن کمیشن کی جانب سے تھا جس میں آمد ورفت کے علاوہ قیام و طعام اور دیگر تمام تر اخراجات ان کے ہی ذمہ تھے ۔ روانگی کی تاریخ اولوغ بیگ نے بتادی تھی مگر ویزے کا کوئی نام ونشان نہیں تھا ۔ شیڈول کے مطابق ہمیں 30 نومبر کو جدہ سے روانہ ہونا تھا 28 نومبر تک ہمارے ویزے اسٹیمپ نہیں ہوئے تھے۔ جب 28 کا دن بھی گزر گیا تو وہاں جانے کے خیال کو دل سے نکال دیا اگلے دن یعنی 29 نومبر کی صبح ازبک قونصلیٹ کے ڈپٹی قونصل بہرام کی کال آئی کہ آپ ابھی پاسپورٹ لے آئیں تمام تیاریاں مکمل ہو گئی ہیں مگر اس دن مصروفیت غیر معمولی تھی صبح کو محکمہ ٹریفک کے ڈائریکٹر سے ملاقات تھی جن سے انٹرویو لینا تھا  جس کا پروگرام کافی دن سے طے تھا ۔ میں نے بہرام سے  سہ  پہر آنے کو کہا مگر اس وقت تک قونصلیٹ کا وقت ختم ہو جانا تھا تاہم میری مجبوری کو دیکھتے ہوئے بہرام نے کہا کہ وہ میرا انتظار کرے گا جب بھی فارغ ہو ں پاسپورٹ لیکر آسکتا ہوں ۔ اس سہولت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میں شام  4 بجے کے قریب قونصلیٹ پہنچا جہاں بہرام میرا منتظر تھا۔ مجھ سے پاسپورٹ لیتے ہی فوری طور پر اس پر ویزا اسٹیمپ کرنے کے بعد کنفرم ٹکٹ کے ساتھ میرے حوالے کر دیا اسی دوران قونصل جنرل اولوغ بیگ بھی وہاں پہنچ گئے ۔ ان سے ملاقات میں ازبکستان کے موسم اور حالات کے حوالے سے بات ہوئی ۔ ازبکستان روانگی کے لئے ہماری بکنگ 30 نومبر کی صبح سعودیہ ائیر لائن کی پرواز سے براستہ دبئی ہونی تھی اس لئے فوری طور پر ازبک قونصلیٹ سے رخصت ہوا کیونکہ باقی تیاری بھی کرنی تھی ۔ 
 
ازبکستان روانگی کا پہلا مرحلہ
 
30 نومبر کی صبح 6 بجے ہماری پرواز جدہ کے بین الاقوامی ہوائی اڈے سے روانہ ہونی تھی۔ پہلی منزل دبئی تھی وہاں سے ہمیں ازبکستان ائیر لائن کے ذریعے تاشقند پہنچنا تھا ۔ آفس کے ساتھی اور ہمسایہ عبدالستار خان سے درخواست کی کہ وہ نصف شب کے بعد ائیر پورٹ پہنچا دیں۔ عبدالستارنے وقت کی پابندی کا مکمل خیال رکھتے ہوئے سحر کے قریب ٹیلی فون کیا کہ وہ میرا انتظار کر رہے ہیں۔ ائیر پورٹ کیلئے کب روانہ ہونا ہے میں نے کہا 10 منٹ میں اہل خانہ سے ملکر نیچے اترتا ہوں ۔ گھر والوں سے ملکر جب میں نیچے پہنچا تو وعدے کے عین مطابق عبدالستارکو موجود پایا۔ اس سے اندازہ ہوا کہ سفر خوشگوار ہو گا کیونکہ ابتدا ہی طے شدہ پروگرام کے مطابق ہوئی ۔ ائیر پورٹ پہنچنے میں کسی قسم کی دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑا کیونکہ سحر کے قریب  جدہ میں ٹریفک نہ ہونے کے برابرہوتا ہے اس لئے ہوائی اڈے کی مسافت چند منٹوںمیں کٹ گئی ۔ ائیر پورٹ کی چوکی کے قریب پہنچے تھے کہ ازبک قونصل جنرل اولوغ بیگ کی کال موصول ہوئی کہ انہوں نے دریافت کیا کہ میں پہنچ رہا ہوں یا ارادہ ملتوی کردیا ۔ میں نے بتایا کہ قریب ہی ہوں ۔ ہوائی اڈے پر پہنچ کر دیرینہ ساتھی عبدالستارکو الوداع کہا اور سفر کی دعا کا ورد کرتے ہوئے سامان ٹرالی پررکھا اور ٹرمنل کی عمارت کی جانب بڑھا ۔ ٹرمنل کے دروازے پر ہی قونصل جنرل اور ڈپٹی قونصل بہرام سے ملاقات ہوئی۔ ازبکستان جانے والے وفد میں میرے علاوہ 5افراد بھی شامل تھے جن کا تعلق  OIC  سے  تھا ۔ جن میں 3 خواتین اور 2 مرد شامل تھے ۔ قونصل جنرل اولوغ بیگ نے وفد کے ارکان سے تعارف کروایا اور ہمارے سفر کا آغاز ہو ا۔ 
 
بورڈنگ وقت مقررہ پر شروع ہوئی مگر جہاز کی روانگی میں ایک گھنٹہ تاخیر ہوئی جس کی وجہ سے ہمیں دوسرے اسٹاپ پر مشکل صورتحال کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ دبئی سے ہماری پرواز میں صرف ایک گھنٹہ ہی رہ گیاتھا ۔ دبئی ائیر پورٹ پر ازبکستان ائیر کے اسٹیشن مینجر آتا بیگ اور دبئی میں متعین قونصل جنرل نے وفد کے ارکان کا استقبال کیا اور ازبک روایت کے تمام تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے مہمان کہہ کر انتہائی عزت و احترام سے وی آئی پی لائونج  میں پہنچا کر آگے کے سفر کا بندوبست کرنے میں لگ گئے کیونکہ جدہ سے ہماری پرواز میں ہونے والی تاخیر کا اثر دوسری پرواز پر بھی پڑا جس کی وجہ سے یہاں ہونے والی بورڈنگ میں معمولی تاخیر ہو گئی ۔ سعودیہ ائیر لائن سے سامان کی منتقلی اور بورڈنگ میں 15 منٹ مزید لگے جس کے  بعد ہم ازبک ائیر کے مہمان بن گئے ۔ دبئی سے ازبکستان کا سفر 3 گھنٹے 45 منٹ کا تھا ۔ اولوغ بیگ نے خصوصی طور پر وفد میں سے صرف میرے لئے بزنس کلاس کا اہتمام کیا جبکہ جدہ سے وفد میں شامل دیگر ساتھی اکنامی کلاس میں ہی سفر کر رہے تھے ۔ جہاز میں سوار ہوئے تو ساتھیوں سے جدا ہوناپڑا تاہم دبئی سے شامل ہونے والے دیگر نئے ہم راہیوں سے تعارف ہوا جو ازبکستان انتخابات کے لئے ہی جا رہے تھے جن میں بعض ممالک کے سفارتکار ، صحافی ِ ، حکومتی اہلکار اور سیاستدان شامل تھے ۔ پاکستان سے بھی صحافی ، سیاستدان اور سابق سفارتکار وں کو ازبکستان مدعو کیا گیا تھا جو اسی پرواز میں سفر کر رہے تھے ۔ 
 
ہماری پرواز ازبکستان کے وقت کے مطابق شام 6 بجے کے قریب تاشقند کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پہنچی ۔ سردیوں کی شامیں ویسے بھی رات کا سماں پیش کرتی ہیں۔ ائیر پورٹ پر ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ ہم رات کے کسی پہر میں یہاں پہنچے ہیں ۔ جو ں ہی جہاز پر سیڑھی لگی ہمارے سامنے ایک فوجی افسر جس کی یونیفارم اور لگے بیج سے اندازہ ہوا کہ اسکا  رتبہ کرنل کاہو گا ۔ بعدازاںمیرے خیال کی تصدیق دبئی سے آنے والے ایک بحرینی صحافی نے کر دی جو کافی عرصہ تاشقند میں گزار چکا تھا  ۔ کرنل نے انتہائی خوش مزاجی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مائیک پر انگلش اور بعدازاں  ازبکی میں  اعلان کیا کہ تمام مسافر آرام سے اپنی نشستوں پر بیٹھے رہیں صرف وہ مہمان جو مختلف ممالک سے آنے والے وفد میں شامل ہیں پہلے اتریں اور جہاز کے ساتھ کھڑی بسوں میں سوار ہو جائیں ۔ جو ں ہی ہم جہاز کے دروازے سے باہر نکلے یخ بستہ ہوا کے تیز جھونکے نے ہمیں خوش آمدید کہا جس نے مجھے ماضی میں پہنچا دیا۔ 
 
ماورالنہرکا علاقہ منکرین خداکے خونی پنجے میں
 
یہاں قارئین کو میں اپنا مختصر تعارف کروانا چاہوں گا تاکہ اس یادگار سفر کی جزئیات کو میری نگاہ سے دیکھ کر ملت اسلامیہ کے اس روشن ماضی سے واقف ہو سکیں  جسے مٹانے کیلئے منکرین خدا نے ہر ممکن کوشش کی مگر انکی ہر سعی لاحاصل رہی ۔ترکستان میں کمیونزم کی زندگی 7 دہائیاں بھی نہ دیکھ سکی بالاخر اسے پسپا ہو کر روس کے برف زاروں تک دوبارہ محدود ہونا پڑا ۔ میرے والد صاحب کا نام اعظم ہاشمی  ہے انکا تعلق ترکستان سے تھا جسے اسلامی تاریخ میں ماورالنہر کہا جاتا ہے ۔ ترکستان کا ماضی انتہائی عالی شان او رملت اسلامیہ کیلئے سرمایہ افتخار ہے۔ ما ورالنہر کی سرزمین نے جید علماء کرام جن میں سرفہرست امام بخاری ، علامہ زمخشری ،  ماہرین ریاضیات و فلکیات البیرونی ، خوارزمی اور طب جدید کے بانی ابن سینا جن کی تصنیف القانون جو آج بھی آکسفورڈ یونیورسٹی کے شعبہ طب میں پڑھائی جاتی ہے کے علاوہ امیر تیمور، شہنشاہ ظہیر الدین بابر ، التمش اور دیگر متعدد نامور ہستیاں پیدا کیں ۔ والد صاحب 1917 میں وادی فرغانہ کے ایک علمی و ادبی خاندان میں پیدا ہوئے ۔ ہمارا  ددھیال دینی حوالے سے ترکستان میں غیر معمولی شہرت رکھتا تھا ۔ والد صاحب کے نانا انقلاب روس سے قبل متحدہ ترکستان کے مفتی اعظم اور مرجع خاص و عام تھے۔ براہ را ست  انکے شاگردوں کی تعداد ہزاروں میں تھی جو ترکستان میں نور علم سے ہزاروں طالبان حق کو منور کر نے میں مصروف کار تھے ۔
 
 1930 میں جب کمیونزم اور سوشلزم کے حامیوں نے ماسکو کی سرپرستی میں ترکستان پر چڑھائی کی تو وہاں کے باشندوں کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ جس نظام کو وہ محض معاشی نظام سمجھ رہے ہیں وہ ان سے ہر قسم کے حقوق سلب کرتے ہوئے انہیں محض غلام بنا ڈالے گا ۔     ( اس موضوع پر والد صاحب کی سوانح بعنوان"  سمرقند و بخارا کی خونین سرگزشت " جو مکتبہ اردو ڈائجسٹ نے کتابی شکل میں شائع کی ہے  میں مکمل تفصیلات موجود ہیں )۔یہاں میں " ترکستان " کے حوالے سے والدصاحب کی سوانح سے چند سطور نقل کرناچاہوں گا تاکہ 1930 کی تھوڑی سی جھلک قارئین کے سامنے آسکے اور وہ ان لمحات کا تصور کر سکیں کہ اجتماعی طور پر جب مسلمان انحطاط کا شکار  ہوتے ہوئے کفر ان نعمت کرتے ہوئے راہ حق کو فراموش کرنے لگیں تو قدرت ان کے ساتھ کیا کرتی ہے۔
 
والد صاحب بتایا کرتے تھے کہ ترکستان جسے ماورالنہر کہا جاتا ہے کی سرزمین کو قدرت نے بیش بہا نعمتوں سے نوازا ہے وہاں دنیا کے بہترین میوے ، قدرتی اجناس ، دریا، معدنیات اور قیمتی دھاتوں سے مالا مال پہاڑ سونا اگلتی زمین تھی۔ ایسا مردم خیز علاقہ کہ جس نے نامور علمائے  دین ، مفکرین ، سائنسدان، ماہرین ارضیات و فلکیات کے علاوہ نامور فاتحین پیدا کئے تھے ۔ انقلاب روس کے بعد ترکستان میں دینی تعلیم کا حصول قطعی طور پر ممنوع قرار دے دیا گیا تھا ۔ تبلیغ و اشاعت دین بہت بڑا جرم تصور کیا جاتا تھا ۔ جو دینی تعلیم حاصل کرتا تھا وہ خود کیلئے مصائب کو دعوت دیتا تھا ۔ عصری تعلیم کے لئے روسی نصاب مقرر کیا گیا تھا جن کا انتظام و انصرام کیتھولک پادریوں کے ہاتھوں میں تھا جن کا اصل مقصد مسلمانوں کی اولادکو گمراہ کرکے انہیں عیسائی بنانا تھا اسی لئے ترکستان کے عام لوگوں  نے ان تعلیمی اداروں کا بائیکاٹ کر رکھا تھا ۔ اس کے برعکس سرخ انقلاب سے قبل ترکستان میں مدارس کا جال پھیلا ہو ا تھا ترکی زبان ہی ذریعہ تعلیم تھی۔ ہر شہر اور قصبے میں دسیوں درسگاہیں تھیں مخیر حظرات کی جانب سے درسگاہوں کے لئے زمینیں وقف کر دی جاتی تھیں طلباء میں کتب کی تقسیم مفت کی جاتی تھی ۔  ان درس گاہوں میں سیاست  شجر ممنوعہ تھی یہ میدان علماء دین نے لادین قوتوں کے لئے چھوڑ رکھا تھا ترکستان کا معاشرہ علالم اسلام سے بالکل بے خبر اور کٹا ہوا تھا ۔ بے فکری اور معاشی آزادی نے ہر شخص کو سہل پسند بنا دیا تھا ۔ خانقاہی نظام رائج ہو چکاتھا ۔ بے علم علماء کشف القبور اور چلہ کشی وحدت الوجود پر بحث ومباحثے میں وقت گزارتے الغرض ان پر جمود طاری ہو چکا تھا اگر ان پر تنقید کی جاتی تو جواب ملتا کہ یہ خانقاہی نظام ہی دراصل سپاہ کی تیاری کے مراحل ہیں ۔
 
( باقی کل  ) 
 

شیئر: