مسجد میں بیٹھے ذکر واذکار میں مشغول نوجوان سے حضرت عمرؓ نے کہا’’ اٹھو! جا کرمحنت مزدوری کرو، آسمان سے چاندی اور سونا نہیں گرے گا
* * * عبد المالک مجاہد ۔ریاض* * *
ہم میں سے کو ن سا ایسا شخص ہے جو سعادت مند نہیں بننا چاہتا۔ اس خوبصورت اور رنگین دنیا میں ہر شخص خوشیوں کی تلاش میں رہتا ہے ۔ اس کی خواہش یہی ہے کہ وہ کسی طرح اچھی اور عمدہ زندگی گزارے۔ اپنی زندگی کو خوبصورت بنانے کے لئے ہر شخص بقدر امکان کوشش کرتا ہے مگر سوال یہ ہے کہ خوش بختی، خوش قسمتی اور سعادت ہے کیاچیزاور یہ کس طرح حاصل کی جاسکتی ہے، اسے کہاں تلاش کیا جائے۔ کیا سعادت اور خوش قسمتی حد سے زیادہ مال دار ہونے میں ہے؟ ایک شخص اربوں کی جائیداد کا مالک ہے۔ اس کے پاس کوٹھیاں اور دکانیں ہیں۔ کام کاج کے لئے نوکروں کی لمبی قطار ہے ۔اس کے پاس گاڑیوں کا بیڑا ہے۔ روپے پیسے کا انبار لگا ہوا ہے۔کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ جس شحص کے پاس مال جیسی نعمت میسرہے یہ سعادت مند ہے ۔ قارئین کرام !میں نے جان بوجھ کر مال کو نعمت کے لفظ سے ذکر کیا ہے۔ بلاشبہ مال ودولت بہت بڑی نعمت ہے۔ فقر سے تو اللہ کے رسول نے بھی پناہ مانگی ہے اور سیدنا عمر فاروق ؓ کے الفاظ ہیں ’’اگر فقر آدمی ہوتا تو میں اسے قتل کردیتا ‘‘
ہم میں سے اکثریت مال ودولت کی خواہش مند ہے ۔ اس کے حصول کے لئے ہر طریقہ اپنایا جاتا ہے۔ یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ اسلام کی نگاہ میں دولت کوئی بری چیزنہیں، نہ ہی اسلام نے کمانے سے روکا ہے بلکہ اسلام اس جانب ہماری رہنمائی کرتا ہے کہ ہم محنت کرکے کمائیں۔ہاتھ پر ہاتھ رکھے محض بیٹھے رہنا اسلام کی نگاہ میں سخت ناپسندیدہ ہے۔اللہ کے رسول نے اپنے صحابہ کو اپاہچ نہیں بنایا بلکہ انہیں محنت ومشقت کا خوگر بنایا۔ اسلامی تاریخ میں ایسی بے شمار مثالیں ہیں کہ صحابہ کرام ؓنے کسی کا دست نگر بننا بالکل گوارا نہیںکیا بلکہ انہوں نے اپنی زندگی خود بنائی۔ اپنے عمل، اپنے کردار اور اپنی محنت سے اپنی زندگی کو بنایا اور سنوارا۔
آئیے ایک عظیم صحابی سیدنا عبد الرحمن بن عوف کی زندگی سے سبق حاصل کرکے آگے بڑھتے ہیں۔ ان کا شمار عشرہ مبشرہ میں ہوتاہے۔جب ہجرت کرکے مدینہ طیبہ پہنچے تو بالکل بے سروسامانی کے عالم میں تھے۔اللہ کے رسول نے مہاجرین اور انصار کے درمیان مواخات اور بھائی چارہ قائم کیا۔ کل90 آدمی تھے جن میں آدھے مہاجرین اور آدھے انصاری۔بھائی چارے کی بنیاد کیا تھی ؟یہ ایک محبت، ہمدردی ، غم خواری اور ایثار کا نام تھا۔
سیدنا عبد الرحمن بن عوفؓ کو سعد بن ربیع ؓ کا بھائی بنایا گیا۔ سیدنا سعدؓ مدینہ طیبہ کے معروف زمیندار تھے۔ان کے پاس بہت سے باغات اور کھیتاں تھیں۔ لوگوں کے نزدیک ان کی مالی پوزیشن بڑی واضح تھی۔انہوں نے سیدنا عبد الرحمن بن عوفؓ سے کہا : میں انصار میں سب سے زیادہ مالدار ہوں۔ آپ میرا مال دو حصوں میں تقسیم کرکے اس میں سے آدھا اپنے لئے نکال لیں۔ میری 2 بیویاں ہیں، آپ دیکھ لیں جو زیادہ پسند ہو مجھے بتائیں ، میں اسے طلاق دے دیتا ہوں اور عدت گزرنے کے بعد آپ اس سے شادی کرلیں۔ سیدنا عبد الرحمن بن عوفؓ کا جواب ملاحظہ کریں:
’’اللہ آپ کے اہل اور مال میں برکت دے۔ مجھے صرف بازار کا راستہ بتادیں‘‘ انہوں نے یہودی قبیلے بنو قینقاع کے مشہور بازار کا راستہ بتادیا۔ شام کو واپس آئے تو ان کے پاس پنیر کے چند ٹکڑے اور گھی تھا۔ اس کے بعد وہ روزانہ بازار جاکر مختلف اشیا کی خرید وفروخت کرتے رہے اور بتدریج ان کی آمدنی میں اضافہ ہوتا رہا۔ وہ محنت کے خوگر تھے، تجارت ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ چند ماہ کی بات تھی کہ ان کی شادی بھی ہوگئی اور ان کا شمار مدینہ طیبہ کے مشہور تجار میں ہونے لگا۔حقیقی سعادت اسی کا نام ہے کہ آدمی خود محنت کرکے اپنے ہاتھوں کی کمائی کھائے۔ اللہ کے رسول نے حضرت داؤد علیہ السلام کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا تھا ’’ وہ اپنے ہاتھ کی کمائی کھاتے تھے‘‘
سیدنا عمر فاروق ؓ کے دور میں کچھ نوجوان مسجد میں بیٹھ کر ذکر و اذکار کررہے تھے۔ انہوں نے اپنا درہ سنبھالا اور ان سے کہا:
اٹھو! جا کرمحنت مزدوری کرواور اپنا رزق حاصل کرو اور سنو!آسمان سے کبھی چاندی اور سونے کے سکے نہیں گریں گے۔یقینا جو شخص محنت ومزدوری کا عادی ہے، شام میں جب اسے مزدوری ملتی ہے تو اس کو حقیقی مسرت اور خوشی حاصل ہوتی ہے۔
سیدنا عمر بن خطابؓ بہت کم سوتے تھے، دن رات کام کرتے تھے۔ ایک دن ان کے گھر والوں نے ان سے کہا :
آپ تھوڑا سا آرام کرلیں۔
تو فرمانے لگے :’’ اگر میں رات کوزیادہ سو جاؤں تو میں اپنے نفس کو ضائع کردوںگا اور اگر دن کو سو گیا تو اپنی رعایا کو ضائع کردوں گا‘‘
ہم اگر غور کریں کہ ہم سارا دن کتنا وقت کام کرتے ہیں او ر کتنا سوتے ہیں؟ آپ کاغذ قلم اٹھائیے اور اپنے شب وروز کے لمحات کوقلمبندکرنا شروع کریںاور دیکھیں کہ آپ کے معمولات زندگی کیا ہیں ؟ ہم میں سے بیشتر ایسے ہیں جن کی زندگی میں قطعا ًتوازن نہیں۔ ان کے سامنے کوئی واضح اہداف نہیں۔ ذرا غور کریں ہم ٹی وی میں کتنا وقت ضائع کرتے ہیں۔ بازاروں میں فضول گھومنے میں کتنا وقت صرف ہوتا ہے۔ ہماری کوشش ہوتی ہے کہ کم سے کم کام پر ہمیں زیادہ سے زیادہ معاوضہ ملے۔سعادت اس چیز کا نام ہے کہ ہم اپنی زندگی کو بامقصد بنائیں۔ اپنے فراغت کے وقت میں کوئی بامقصد کام کریں۔
بیت اللہ الحرام میں عموماً لوگ نماز سے پہلے جمع ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ڈاکٹر عائض القرنی اپنی شہرہ آفاق کتاب ’’لا تحزن‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ہم صفوں میں بیٹھے نماز کا انتظار کررہے تھے۔گرمی کی شدت تھی، لوگوں کو پیاس بھی لگی ہوئی تھی۔اچانک ایک بوڑھا بابا جس کی داڑھی اور سر کے بال سفید تھے اپنی جگہ سے اٹھا اور پانی کے کولر سے زمزم کے تین چار گلاس لا کر لوگوں کو پلانا شروع کردیتا۔ وہ بار بار کولر تک جاتا اور تین چار گلاس بھر کر لے آتااور باری باری لوگوں کو پانی پلاتا ۔لوگ اپنی باری کے منتظر ہیں کہ کب ان کو پانی پلایا جائے گا۔ بوڑھا بابا نہایت خوش ہے۔ اس کے چہرے سے پسینے کے قطرے ٹپک رہے ہیںاور یہی اس کی سعادت مندی ہے کہ لوگوں کی مدد کرکے ان کی پیاس بجھا کر اسے حقیقی خوشی ہورہی ہے۔
معزز قارئین کرام! ذرا آگے بڑھنے سے پہلے غور کریں کہ کیا ہمارے نوجوان اس بوڑھے بابا سے بھی گئے گزرے ہیں جس نے نیکی حاصل کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیںجانے دیا۔اپنے اردگرد غور کریں، اپنے جاننے والوں کو دیکھیں کہ کتنے لوگ بیروزگار ہیں۔ ان کے پاس کرنے لئے کوئی کام نہیں؟وہ سارا دن بازاروں میں بیٹھے تاش کھیلتے رہتے ہیں۔غیر ضروری سرگرمیوں میں مبتلا رہتے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ ہماری زندگی بڑی بے کار ہے ، ہم بے روزگار ہیں۔میری ذاتی زندگی کا تجربہ ہے کہ بہت سارے لوگ کام کی تلاش میں آتے ہیں ان سے کہا جاتا ہے کہ جاؤ، فلاں جگہ یا دوست کے پاس جا ؤ اور آج ہی کام شروع کردو۔ عموما ً ان کا جواب یہ ہوتا ہے کہ آج… آج تو نہیں، آج میں مصروف ہوں ۔ کل جاؤں گا۔ وہ لوگ جوحقیقی سعادت کے متمنی ہوتے ہیں وہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے نہیں رہتے بلکہ مسلسل کام کرتے ہیں ۔زندگی میں کامیابی کا ایک اصول ہے اور وہ یہ ہے کہ کام، کام اور کام۔اللہ کے رسول کے دور اقدس میں ایک سیاہ فام بوڑھی عورت اپنے ذمہ مسجد کی صفائی لے لیتی ہے۔ وہ مسجد نبوی کی صفائی کرتی ہے۔اس میں جھاڑو دیتی ہے۔ وہ یہی کام کرسکتی تھی اس لئے بہت خوش تھی ۔ممکن ہے کہ وہ مسجد کی تعمیر میں درہم ودینار نہ ڈال سکتی ہو مگر وہ مسجد کی صفائی کرکے سکون اور چین حاصل کرلیتی تھی اور پھر اس کا صلہ اس کو کیا ملتاہے؟ اللہ کے رسول نے ملاحظہ فرمایا کہ وہ عورت جو ہماری مسجد کی صفائی کرتی تھی نظر نہیں آرہی ۔ صحابہ کرام ؓسے پوچھا کہ وہ ہماری مسجدکی صفائی کرنے والی کدھر گئی؟ عرض کیا گیا کہ وہ چند ایام قبل فوت ہوگئی۔ ہم نے خود اس کا جنازہ پڑھ کر اسے جنت البقیع میں دفن کر دیا۔ آپ کو اطلاع دینا مناسب نہ سمجھا کہ آپ کائنات کی سب سے مصروف ترین شخصیت ہیں۔ اللہ کے رسول کے اسوہ ٔحسنہ کو دیکھئے ۔ ارشاد ہوا :
مجھے اس کی قبر دکھاؤ۔
اور پھر آپ اس سیاہ فام عورت کی قبرپرجو مسجد میں جھاڑو لگایا کرتی تھی تشریف لے گئے اور اس کی قبر پر نماز جنازہ ادا کی۔یہ واقعہ غور طلب ہے ۔بظاہر یہ عمل کتنا معمولی ہے مگر اس کا اجر وثواب اسے کس قدر ملا کہ ان شاء اللہ جنت الفردوس کی مستحق بن گئی۔ اُس عورت نے ہمارے لئے مثال قائم کی ہے کہ ہم میں سے ہر شخص معاشر ے کا حصہ ہے۔ اس کی بہتر تشکیل میں اس کی اصلاح میں اس کی تعمیر میں وہ اپنا کردار ادا کرسکتا ہے۔ کیا ہم اُس عورت سے بھی گئے گزرے ہیں۔ سارا دن بستر پر پڑے رہنا اور کوئی کام نہ کرنا اور پھر اس بات کا شکوہ کرنا کہ ہماری آمدنی کم ہے یا ہمیں کام نہیں مل رہا ۔ایسے شخص کو اپنے اوپر افسوس کرنا چاہئے۔اگر آپ حقیقی سعادت حاصل کرنا چاہتے ہیں تو اپنے کام میں مخلص ہوجائیں جس دفتر میں کام کرتے ہیں وہاں اپنی محنت ، لگن عمدہ کارکردگی اور اعلیٰ اخلاق اور معاملات سے کام پر چھا جائیں۔ میں ذاتی زندگی کے تجربات کی روشنی میں کہوں گا کہ کسی بھی ادارے کی انتظامیہ اپنے ہر ملازم کے بارے میں خوب جانتی ہے۔ اسے معلوم ہوتا ہے کہ کون کتنا محنتی ہے، کون ایماندار اور کون ادارے کے ساتھ مخلص ہے اور پھر اس کی روشنی میں وہ ملازمین کی ترقی کرتی ہے۔
اس بات کو سمجھنے کے لئے میں آپ کو ایک مثال دے کر آگے بڑھوں گا۔آج سے30 سال قبل جب میں سعودی عرب آیا تو میرے گھر کے نیچے پارکنگ لاٹ تھی جس میں لوگ گاڑیاں کھڑی کرتے تھے۔صبح سویرے ایک بنگالی ہاتھوں میں پانی کی بالٹی لئے کھڑا ہوتا اور گاڑیاں صاف کرتا رہتا۔ میں صبح وشام جب بھی وہاں سے گزرتا اسے مستعد پاتا۔ آہستہ آہستہ وہ اہل محلہ میں معروف ہوتا چلا گیا۔لوگ اس سے روزانہ یا ماہانہ کی بنیاد پر گاڑی صاف کرواتے۔ کوئی اسے ریال دے دیتا اور کوئی دو ریال۔ اسے اس سے کوئی غرض نہ ہوتی کہ کون کتنا دیتا ہے۔اگر کوئی فیملی سامان لے کر آتی تو بھاگ کر ان سے سامان پکڑ لیتا اور ان کے گھر تک پہنچادیتا۔ چھوٹے بچوں کو اٹھا لیتا۔خاص طور پرگیس سیلنڈر یا پانی کا کنستر تو وہی اوپر والی منزل تک پہنچاتا۔ہم بھی اسے اس کے عوض کچھ نہ کچھ دے دیتے نہ بھی دیتے تو وہ کبھی مطالبہ نہ کرتا۔ادھر جب بھی کھانا بچ جاتا تو ہم اسے بھی دے دیتے جو وہ خوشی خوشی قبول کرلیتا۔وہ ہر کسی کے کام آتا۔میں نے اتنی لمبی ڈیوٹی دیتے ہوئے کبھی کسی کو نہیں دیکھا۔یقینی بات ہے کہ تھوڑے عرصہ میں اس نے نہ صرف معاشرے میں بہتر مقام بنا لیا بلکہ اس کی مالی حالت بھی درست ہوگئی۔حقیقی سعادت تو محنت کرنے میں ہے۔