Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پیپلز پارٹی اور زرداری کا سیاسی امتحان

 
 
بلاول بھٹو زرداری کے حکومت سے مطالبات کا وقت ختم ہوچکا، آصف زرداری کیلئے سیاسی امتحان کا وقت آن پہنچا ہے
 
محمد اسلم محمود بٹ
 
پاکستان میں پاک، ہند پائیدار امن کا خواب دیکھنے والے حلقوں کو اس امر سے نیک شگون ملا ہے کہ پاک فوج کے سدرن کمان کے سربراہ نے ہند کو یہ تجویز پیش کردی کہ وہ ماضی کی دشمنی بھلاکر پاکستان اور چین کے ساتھ اقتصادی راہداری کے منصوبے میں شامل ہو جائے۔ چین کے دفتر خارجہ کی ترجمان نے اس حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہا کہ یہ پاکستان کا استحقاق ہے کہ وہ ہند کو اس عظیم بین الاقوامی منصوبے میں شامل کرسکے تاہم اس نے اس حوالے سے اپنے اختلافات کا اظہار نہیں کیا۔ ہند میں بھی سنجیدہ حلقے اپنی حکومت کو یہ تجویز پیش کررہے ہیں کہ وہ اس ارزاں او ر فقید المثال منصوبے کو اپنی اجناس اور پیداوار کو افغانستان ، ایران اور وسط ایشیائی ریاستوں تک پہنچا کر اپنی اقتصادیات کو بے پناہ فائدہ پہنچا سکتا ہے۔
دونوں ممالک کے درمیان کشمیر کے متنازعہ علاقے میں اقتصادی تعاون اور محدود پیمانے پر تعلقات کی پالیسی پر پہلے ہی عملدرآمد جاری ہے۔ کشمیر کے درمیان غیر حتمی سرحد لائن آف کنٹرول پر دونوں ممالک کی افواج کے درمیان بظاہر حالات بہتر ہورہے ہیں ۔ دونوں ممالک کو ایک طویل عرصہ کے بعد کشمیر کی سمت سے پاکستان کی جانب بہنے والے دریاوں کے تنازع پر مذاکرات کا آغاز کرنا ہے جس کے بارے میں اقوام متحدہ کے صدر کا دونوں ممالک کو پیغام دیا گیا تھا۔ باور کیا جانا چاہئے کہ یہ سنگین تنازع افہام و تفہیم سے طے کرلیا جائے گا۔ 
اس امر سے قطع نظر کہ ہندوستانی وزیراعظم نریندر مودی نے مشرقی پنجاب کے حالیہ دورہ کے دوران پاکستان کیخلاف دھمکیاں دینے اور سندھ طاس معاہدہ کی خلاف ورزی کے مترادف ان عزائم سے قطع نظر کہ وہ دریائے سندھ کا پاکستان کو بہنے والے پانی کو بند کردیں گے، یہ اقدام ممکن ہی نہیں۔ ماہرین کے مطابق ہند کے زیر انتظام کشمیر سے مشرقی پنجاب اوراس سے آگے پاکستانی پنجاب میںبہتے ہوئے دریا کو عملاً روکا ہی نہیں جاسکتا جہاں سیلاب کا خطرہ ہر سال سراٹھاتا رہتا ہے۔ 
نریندر مودی سابقہ حکمرانوں کے مقابلے میں پاکستان کے مخالف اس حوالے سے سنجیدگی کے حامل نہیں رہے۔ انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ ماضی میں دونوں ممالک کے درمیان جنگ کے دوران بھی دریاوں کے معاملے کو چھیڑا نہیں گیاتھا اور نہ عالمی بینک کے تعاون سے 1960ءمیںطے پانے والے سندھ طاس معاہدے پر نظرثانی کا مطالبہ کیاگیا تھا۔ عالمی قوانین کے ماہر اور سابق نگران وزیر قانون احمر بلال کا کہنا ہے کہ ہند کا یہ طرز عمل لائن آف کنٹرول پر حالیہ پاک ہند کشیدگی کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ دوسرے الفاظ میں ہندوستانی وزیراعظم نے سیاسی بیان دیا ہے جسے حتمی نوعیت کا حامل قرار نہیں دیا جاسکتا۔ خصوصاً ایسے وقت میں جب ہند کو اقتصادی پیمانے پر بہت بڑا فائدہ پہنچنے کا اہتمام موجود ہو۔
ہند کا یہ بھی پرانا خواب ہے کہ اسے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی رکنیت حامل ہوجائے جس کیلئے لازمی ہے کہ ایسے ملک کے اپنے پڑوسی ممالک کے ساتھ سرحدی تنازعات نہ ہوں۔ ہند کیلئے یہ سنہری موقع ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ دیرینہ تنازع جموں اور کشمیر پر اپنے اعلانیہ موقف پر نرم رویہ اختیار کرے۔ ہند نے حالیہ دنوں میں پاکستان کیخلاف جنگ کے آغاز کے امکانات کا بھی جائزہ لیا اور کشمیر سے پاکستان کے مخالف جارحیت کا ارتکاب بھی کیا مگر پاکستان نے ملکی دفاع کو ناقابل تسخیر بنا دیا اور اپنے جوہری ہتھیاروں کو جدید ترین بھی بنا دیا جس کے سبب دونوں ممالک کے درمیان جنگ دونوں ممالک کے لئے بے پناہ تباہی کا سامان کرسکتی ہے جس کا بظاہر ہند متحمل نہیں ہوسکتا۔ ہندوستانی وزیراعظم نے حالیہ دنوں میں اس موقف کابھی اظہار کیا تھا کہ وہ بیماریوں ، غربت اور اپنے عوام میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری جیسے سنگین مسائل کے حل کی ضرورت پر بھی زور دے چکے ہیں۔ ایسے مسائل کے حل کیلئے امن کا قیام لازمی ہے جس کا پیغام ہندوستانی قیادت کو موصول ہوچکا ہے ۔ اب سنجیدگی کے اظہار کا موقع بھی آن پہنچا ہے۔
ان حالات میں پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری تقریباً 18 ماہ ملک سے غائب رہنے کے بعد اچانک وطن واپس لوٹ چکے ہیں۔ انہوں نے گزشتہ برس 16 جون کو فوج کے خلاف شدید نکتہ چینی کی تھی اور الزام لگایا تھا کہ فوج انہیں دیوار کے ساتھ لگانے کی کوشش کررہی ہے۔ فوج اپنی اس پالیسی سے باز نہیں آئی تو وہ آزادی کے وقت سے لے کر آج دن تک فوج کیخلاف تمام راز فاش کردیں گے جس کے بعد فوج قوم کے سامنے وضاحتیں پیش کرتی رہے گی۔ انہو ںنے یہ بھی کہا تھاکہ فوج اور اس کے افسران 3 سال کیلئے اپنے عہدوں پر تعینات رہتی ہے جس کے بعد انہیں رخصت ہونا پڑتا ہے مگر وہ عوام کے ہمراہ ہمیشہ کیلئے موجود رہے گے اس لئے وقت کا تقاضا ہے کہانہیں چھیڑا نہ جائے۔
باور کیا جاتا ہے کہ موجودہ آئی ایس آئی کے سربراہ نوید مختار نے جو اس وقت کور کمانڈر کراچی تھے، رینجرز کے ذریعے شہر میں بھتہ خوری کی وارداتوں کا احوال بیان کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ کراچی سے روزانہ کی بنیادوں پر ارب ہا روپے بھتے کا نام لیکر لوٹے جاتے ہیں ۔ یہ تمام دولت ایک ہی فرد کے کنٹرول میں آتی ہے۔ اس رپورٹ میں اس فرد کا نام نہیںلیا گیا تھا۔ 
آصف زرداری کے پاکستان پہنچنے سے پہلے ان کے فرنٹ مین کہلوانے والے افراد کو گرفتار کرلیا گیا۔ پولیس نے جسمانی ریمانڈ بھی لے لیا۔ باور کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے بیا ن میں فوج کی تحقیقات کی تصدیق کریں گے اور اپنے بیانات سے آصف زرداری کی مشکلات سے میں اضافہ کرسکتے ہیں۔ زرداری نے اپنی 23 دسمبر کو وطن واپسی کے بعد کارکنوں سے خطاب میں کہا تھا کہ وہ 27 دسمبر کو اپنی اہلیہ بے نظیر بھٹو کی نویں برسی کے موقع پر اہم اعلانات کریں گے جس کے بارے میں ذرائع ابلاغ میں مختلف اندازے لگائے جارہے تھے لیکن انہوں نے سوائے اس کے کوئی نئی بات نہیں کی کہ وہ اور بلاول آنے والے الیکشن میں حصہ لیں گے۔ 
ان دنوں پیپلز پارٹی کی قیادت میں حکومت کیخلاف گرینڈ الائنس کا بہت چرچا ہے ۔ مسلم لیگ ق، جماعت اسلامی اور دیگر جماعتیں عدالت عظمیٰ کی جانب سے پانامہ لیکس کے معاملے پر اپنے فیصلے سے پہلے ہی پیپلز پارٹی کے ساتھ اتحاد کیلئے کوشاں ہیں۔ وزیراعظم نواز شریف نے پنجاب میں اپنی سیاسی حیثیت میں بے پناہ اضافہ کیاہے مگر بلاول کے حکومت سے4مطالبات کا وقت ختم ہوچکا
 ہے اور اب آصف زرداری کیلئے ایسے سیاسی امتحان کا وقت آن پہنچا ہے جس کا قوم انتظار کررہی تھی۔ 
******

شیئر: