Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

تنازعات کے حل کیلئے پاک ہند مذاکرات ناگزیر

حکومتی سربراہان کو بین الاقوامی امور میں احتیاط سے کام لینا چاہیے، شدّت پسندی کا کوئی فائدہ نہیں، ہمسایوں کے ساتھ دوستی کی خواہش کو اولیت دینی چاہیے

 

صلاح الدین حیدر

بہت دن ہوگئے پاکستان اور ہند کے تعلقات کے بارے میں بات کیے ہوئے، سوچا ایک طائرانہ نظر اس موضوع پر بھی ڈال لی جائے۔ لیکن پہلے کچھ27 دسمبر کے بارے میں جس کا چرچا ہر زبان پر تھا۔ ہر شخص پیپلز پارٹی کی قیادت سے کچھ نہ کچھ توقع کررہا تھا۔قصور ان لوگوں کا نہیں تھا۔ ذمہ داری ساری کی ساری آصف زرداری اور بلاول بھٹو پر عائد ہوتی ہے، جنہوں نے گذشتہ تین ہفتوں سے ایک ہوّا کھڑا کر رکھا تھا کہ پارٹی کی سابق چیئرپرسن بے نظیر بھٹو کی نویں برسی پر دھماکا خیز اعلان ہوگا۔ خود بلاول کئی مرتبہ کہہ چکے تھے کہ اگر اُن کے 4 نکاتی مطالبات نہ مانے گئے تو پھر گڑھی خدا بخش سے دما دم مست قلندر ہوگا۔ اس اصطلاح کا عام طور پر مطلب یہی نکالا جاتا ہے کہ کوئی بڑی خبر سنائی جائے گی۔

زرداری بھی ڈیڑھ سال کی جلاوطنی ختم کرکے پچھلے ہفتے جب وطن لوٹے تو قوم کو خوش خبری دینے کا اعلان کیا لیکن جو کچھ ہوا، اُس کے بارے میں صرف یہ کہہ دینا کافی ہے کہ کھودا پہاڑ نکلا چوہا۔ اُن کے اعلان کہ وہ خود اور بلاول اب قومی اسمبلی کا ضمنی انتخاب لڑیں گے۔ بلاول کے بارے میں تو پہلے ہی یہ بات منظرعام پر آچکی تھی۔ ہاں زرداری کے بارے میں یہ اعلانِ حیرت تھا۔ لوگوں کو تعجب ہوا کہ کہاں صدر مملکت جیسا اعلیٰ ترین عہدہ اور کہاں قومی اسمبلی کی رکنیت۔ آسمان کو زمین سے کیا نسبت لیکن اگر زرداری کے اعلان کے منفی پہلو بہت زیادہ ہیں تو کچھ مثبت بھی ہیں۔

غور سے دیکھا جائے تو اُن کی مختصر تقریر میں کئی راز پوشیدہ تھے۔ اُنہوں نے فوج کو سلام پیش کیا مگر جنرل مشرف کے بارے میں حقارت آمیز الفاظ استعمال کیے۔ ایک جنرل کو دودھ میں سے مکھی کی طرح نکال پھینکا۔ کون سا کمال تھا۔ مشرف کے خلاف وکلا برادری اور عوام کا احتجاج زور پکڑ گیا تھا پھر 2008 کے انتخابات کے بعد تو ویسے ہی پیپلز پارٹی کی حکومت بن چکی تھی۔ مشرف کو تو ویسے ہی جانا تھا۔ اُس میں کریڈٹ لینے کی کون سی بات تھی۔ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین کی تقریر میں نواز شریف کو خاص طور پر ہدفِ تنقید بنایا گیا۔ وزیراعظم کو باور کروادیا گیا کہ وہ ہندوستانی ہم منصب کے ساتھ دعوتیں اُڑاتے ہیں اور کشمیری ہندوستانی فوجیوں کی گولیوں کا نشانہ بن رہے ہیں، خود پاکستانی فوجی شہید ہورہے ہیں۔ کشمیری بچّوں کے دلوں پر کیا گزر رہی ہوگی۔ یہ جملے جان بوجھ کر استعمال کیے گئے۔ ایک تو نواز شریف کو فوج کی نظر میں گرانا مقصود تھا۔ دوسرے فوج کی تعریف کرکے اپنے لیے ممکنہ گرفتاری سے بچنا بھی زیر نظر تھا ۔سب سے بڑی بات یہ عوام کو پیغام دینا تھا کہ زرداری صاحب خود اور اُن کا خاندان، اُن کی پارٹی، پاکستان پر فدا ہے۔

ماضی کی تاریخ اس کے بالکل مختلف ہے۔ اگر بھٹو پر یہ الزام لگا کہ اُنہوں نے سابقہ مشرقی پاکستان سے علیحدگی میں اہم کردار ادا کیا تو بے نظیر پر ہندوستانی حکومت کو سکھوں کی فہرست فراہم کرنے کا الزام عائد کیا گیا۔ حقیقت کیا ہے، واﷲ اعلم بالصواب، مگر دھواں اُٹھتا ہے تو آگ ضرور ہوتی ہے۔ یہ سچ ہے کہ نواز شریف ہمسایہ ممالک سے دوستی اور امن کے ہمیشہ سے خواہاں رہے ہیں۔اُنہوں نے بی جے پی جیسی شدّت پسند جماعت کے سابق رہنما اٹل بہاری واجپئی کو لاہور بلواکر اُن سے وہ کچھ کہلاڈالا جو پہلے کسی ہندوستانی لیڈر نے پاکستان کے بارے میں نہیں کہا تھا۔ وا جپئی کے الفاظ کہ پاک وہندکے تعلق اب ایک نئی جہت پر پہنچ گئے ہیں، آج بھی مینارِ پاکستان لاہور پر کنداں ہیں۔ مشرف نے بھی آگرہ سمٹ اور دوسرے کئی مواقع پر ہندوستانی قیادت سے سمجھوتا کرنے کی کوشش کی۔7 نکاتی منصوبہ بھی کشمیر کے مسئلے کے حل کی خاطر پیش کردیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے ہند سے محاذ آرائی کی پالیسی اپنائی لیکن خود ہی پیچھے ہٹنا پڑا۔ شملہ معاہدہ سراسر پاکستان کے خلاف تھا۔ مسئلہ کشمیر اپنی بین الاقوامی حیثیت کھو چکا تھا پھر زرداری کی صدارت کے دوران پاک و ہند تعلقات میں کبھی پیش رفت نہیں ہوئی لیکن نواز شریف تو آج بھی ہند سے اچھے مراسم کے خواہاں ہیں۔ موجودہ ہندوستانی وزیراعظم مودی نے تمام تر الزامات کے باوجود پاکستان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔ نواز شریف اُن کی حلف برداری میں دہلی گئے، علیحدگی میں اُن سے ملاقات بھی کی۔ دُنیا تو اُس وقت محوِ حیرت رہ گئی، جب مودی اپنے بیرونی دورے سے واپسی پر لاہور میں نواز شریف کے گھر آئے۔ان کی نواسی کی شادی میں تحفہ بھی پیش کیا۔ دونوں میں ذاتی رشتے استوار ہوئے۔ ایسے رشتے ملکوں کے درمیان تنازعات حل کرنے میں اکثر ممدومعاون ثابت ہوتے ہیں۔ تاریخ اس طرح کی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ مجھے خود ایوب خان نے صدارت سے علیحدہ ہونے کے بعد بتایا کہ سندھ طاس معاہدے نے کیسے جنم لیا۔ پاکستان کو تربیلا اور منگلا جیسے آبی ذخائر کے لیے بین الاقوامی امداد دی گئی۔

اُس وقت کے ورلڈ بینک کے صدر مکنامارا ایوب خان کے دورۂ امریکہ میں اُن کی صاحبزادی کے ساتھ گفتگو میں پاک وہند کے بیچ میں پانی کے مسئلے پر بات کی جو بعد میں سرکاری سطح پر اختتام پذیر ہوئی۔ یہ صحیح ہے کہ سیزفائر لائن پر گولا باری جاری ہے، کئی ایک فوجی شہید بھی ہوئے، لیکن اب اس شدّت میں کمی بڑی حد تک آگئی ہے پھر ہندوستانی رہنمائوں کے بیانات میں بھی پہلے سے بہت کم تلخی نظر آتی ہے۔ اس بات سے پوری طرح متفق ہوں کہ حکومتی سربراہان کو بین الاقوامی امور میں احتیاط سے کام لینا چاہیے۔ شدّت پسندی کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا، شاید یہ بات اب ہندوستانی وزیراعظم اور اُن کے ساتھیوں کو بھی سمجھ میں آگئی ہے۔ پاکستان سے بھی محتاط رویہ اپنایا جانے لگا ہے۔ خوش آئند بات ہے۔ ضرورت تو اس بات کی ہے کہ دونوں ملکوں کی سیاسی قیادت، اُن کے پارٹی نظریات کچھ بھی ہوں، ہمسایوں کے ساتھ دوستی کی خواہش کو اولیت دینی چاہیے۔

افسوس کہ ایسا نہیں، اگر پاکستان میں جہادی اور مذہبی تنظیمیں یا جماعت اسلامی جیسی سیاسی پارٹی ہند کو زیر کرنے پر تلی نظر آتی ہیں تو ہندمیں بھی شیوسینا اور کئی ایک شدّت پسند جماعتیں اور تنظیمیں، مودی کے گرد گھیرا تنگ کرنے میں مصروفِ عمل ہیں۔ قومی نقطۂ نظر کا فقدان ہے۔ اندرونی سطح پر اگر دیکھا جائے تو بھی تسلی بخش صورت حال نہیں ۔ ہند اور پاکستان میں نواز شریف اور مودی مسائل سے نبردآزما ہیں۔ ہند میں اگر کرنسی کی تبدیلی نے مودی کے لیے مسائل کھڑے کردیے ہیں تو پاکستان میں وزیراعظم اور اُن کا خاندان پانا مہ لیکس کے بھنور میں پھنسے نظر آتے ہیں۔ پھر بھی کوششیں اپنی جگہ جاری رہنی چاہئیں، اُمید کا دامن چھوڑنا بے وقوفی اور حالات سے سمجھوتا کرنے کے مترادف ہوگا۔ مایوسی کفر ہے۔ دونوں طرف سے محاذ آرائی کو خیرباد کہنا پڑے گا۔ مشکل عمل ہے لیکن مشکلات کو دُور کرنے کا نام ہی قیادت ہے۔ نواز شریف تو تمام تر اندرونی خلفشار کے باوجود اپنی جگہ ہند سے دوستی پر اٹل نظر آتے ہیں۔ قوم کو اُن کا ساتھ دینا چاہیے۔، جنگیں مسائل کا حل نہیں۔پاک وہند نے بھی تین جنگیں لڑیں۔ مسائل بجائے حل ہونے کے مزید بڑھ گئے تو پھر فائدہ کیا۔ دونوں کو اپنے اپنے ملک میں حالات گفت و شنید کے ذریعے ہموار کرنے پڑیں گے اور کوئی چارہ نہیں ہے۔

شیئر: