Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

تشویش

برصغیر کی آزادی کے وقت تقسیم کے امور نمٹانے کیلئے مملکت عظمیٰ برطانیہ کا ارسال کردہ سیرل ریڈکلف بڑے مہلک انداز میں ڈنڈی مار گیا

 

جاوید اقبال

 

ہندوستانی وزیراعظم نریندر مودی کے خطاب نے مجھے لرزا کر رکھ دیا ہے۔ مودی نے کہا ہے کہ وہ پاکستان کو پانی کے قطرے قطرے کیلئے ترسائے گا۔ ایک بھیانک منظر آنکھوں کے سامنے آگیا۔ 1984 ء کا اکتوبر تھا۔ سعودی ٹی وی کے چینل 2 کے نیوز اسٹوڈیو میں میرا ساتھی برطانوی اینکر نارمن پیری اور میں رات 9 بجے کی خبریں پڑھ رہے تھے۔ معمول یہ تھا کہ ہم ایک ایک خبر بار ی باری پڑھتے تھے۔ میری باری آئی تو افریقہ کے بارے میں کچھ اطلاع تھی۔ میں نے اسکرپٹ پڑھا اور پھر مانیٹر کی اسکرین کی طرف دیکھا۔ کسی یورپی نشریاتی ادارے کااینکر ہاتھ میں مائیکرو فون تھامے ایک بے آب و گیاہ و سیع میدان میں کھڑا تھا۔ اس کے پیچھے دور تک جانوروں کے ڈھانچے اکا دکا پڑے تھے۔ اور ان کے بیچ میں کہیں کہیں انسان زمین پر تھے۔ نیم برہنہ، بے حرکت۔ تب میں نے اناؤنسر کی آواز پر توجہ دی۔ وہ ایتھوپیا میں تھا۔ خشک سالی نے زمین سے قوت نمو چھین لی تھی۔

جانور سبزے اور پانی کو ترستے مررہے تھے۔ انسان مہینوں سے خوراک کی عدم دستیابی پر نحیف و ناتواں ہوکر زمین پر آگرے تھے۔ بدنوں کی ہڈیاں جو شدت اشتہاء نے واضح کردی تھیں، پنجر بنی صرف خشک جلد کاپردہ کئے زندگی کی سانسو ں کا قرض چکا رہی تھیں۔ پتلے سوکھے چہروں پر دھرے بڑے کاسہ ٔ ہائے سر ان کے کسی دوسری دنیا کی مخلوق ہونے کا پتہ دیتے تھے۔ بھوک، بے چارگی ، درماندگی پھر اینکر نے ایک اور اندوہناک منظر دکھایا۔ اقوام متحدہ کے کسی خیراتی ادارے کی ایک خاتون ایک 8 ، 9 سالہ بچے کو کچھ کھلانے کی کوشش کررہی تھی۔ ہاتھ میں پکڑے پیالے میں سے اس نے ایک چمچے میں چاول اٹھائے اور بچے کے ہونٹوں کے قریب لے گئی۔ اسے پچکارتے ہوئے کھانے کا اشارہ کیا۔ بچے کے سوکھے چہرے پر رکھی کسی گیند کی طرح اُبلتی موٹی آنکھوں میں بے تعلقی رہی۔ وہ چمچے کو گھورتا رہا۔ اب کے خاتون نے یہ چمچہ اس کے ہونٹوں میں داخل کیا۔ ننھے سیاہ ہونٹوں نے کوئی حرکت نہ کی۔ تب خاتون نے کیمرے کی طرف دیکھا اور وضاحت کی کہ مہینوں تک کچھ کھانے کو نہ ملنے کا یہ وحشتناک اثر ہوا تھا کہ انسان خوراک اور اسے کھانے کا عمل تک فراموش کرچکے تھے۔

شمالی ایتھوپیا کے بے آب و گیا ہ بنجر میدانوں میں 2 ، 3 برس صرف بھوک کا درخت اُگا تھا۔ خشک سالی اور پھر اس کے نتیجے میں سر اٹھانے والے قحط نے افریقہ کے موتی ملک کی 80 لاکھ کی آبادی کو تباہ حالی تک پہنچا دیا تھا جن میں سے دس لاکھ کی لاشیں جنگلی جانوروں اور گوشت خور پرندوں کی خوراک بن رہی تھیں۔ نیلے دریائے نیل کا بہاؤ زیادہ دور نہیں تھا اور ملک کا ماسکو نواز فوجی حکمران کرنل ہیلے منجسٹو مریم اس المیے سے بے نیاز وردی میں ماسکو اور مشرقی یورپ کے دوروں پر تھا۔ انسانی حقوق کے سب سے بڑے علمبردار ریاستہائے متحدہ امریکہ اور کینیڈا نے سرخ ایتھوپیا میں مرتے ابن آدم کو خیرات میں دینے کے بجائے اپنی فاضل گندم سمندر کی نذر کردی تھی۔

مشرقی افریقہ میں فروغ پذیر کمیونزم کے آگے بند باندھنا ازبس ضروری تھا۔ وہ ایک انتہائی دلگیر شام تھی۔ مانیٹر پر مرتے اور مرے انسانوں کو دیکھ کر 60 سالہ بوڑھا نارمن پیری بھی بے حد غمگین ہوا تھا۔ ایتھوپیا کی اقتصاد کا زیادہ تر انحصار زراعت پر ہے۔ اس کی مجموعی قومی پیداوار کا نصف زرعی اجناس کی فروخت پر منحصر ہے جبکہ 80 فیصد آبادی کا ذریعہ معاش کاشت کاری ہے۔ ملک کے شمالی حصے کی زمین زرخیز ہے اسلئے اکثر اجناس کی کاشت وہا ں ہوتی ہے۔ شہنشاہ ہیل سیلاسی جب تک اقتدار میں رہے رعایا شکم سیری اور اطمینان کے گیت گاتی رہی۔ 1974ء میں فوجی کرنل ہیلے منجسٹو مریم نے اقتدار پر قبضہ کیا تو ملک میں مسائل نے سراٹھایا۔ 70 ء کی دہائی کے اواخر میں خشک سالی نے اپنے پاؤں پھیلانا شروع کئے۔ درخت ٹنڈمنڈ ہوئے، گھاس مری تو ناداری نے اپنا دامن دراز کیا۔ حیوان اور انسان گرتے گئے۔ کچھ نے گھبرا کر جنوب کی طرف نقل مکانی کی تو ان سے پہلے بھوک وہاں پہنچ گئی۔ بڑا دلخراش منظر تھا۔ حد نگاہ تک بے برگ درختوں کی بین کرتی بیواؤں کے ہوا میں اٹھے بازوؤں کی طرح فضا میں بلند شاخیں، جانوروں کے ڈھانچے اور اکا دکا لاوارث پڑے انسانی بدن کچھ مردہ کچھ میں زندگی پر پرواز کھول رہی تھی۔ نریندر مودی کے بیان نے متوحش کردیا ہے۔

دریا 5 تھے۔ ہند کے زیر تسلط کشمیر سے نکلتے تھے۔ ان دریاؤں سے نکلنے والی نہروں کے منابع پنجاب کے مشرقی حصے میں تھے۔ برصغیر کی آزادی کے وقت تقسیم کے امور نمٹانے کیلئے مملکت عظمیٰ برطانیہ کا ارسال کردہ سیرل ریڈکلف بڑے مہلک انداز میں ڈنڈی مار گیا۔ وادی کشمیر کو سارے راستے مغربی پنجاب سے جاتے تھے۔ ڈاک و تار پنڈی سے چلتی سرینگر جار کتی تھی۔ نوزاد ہند کو کشمیر تک رسائی دینے کیلئے ریڈ کلف نے ایک بھیانک اور شرمناک کردار ادا کیا اور برصغیر کے نقشے پر پنسل سے خط یوں کھینچا کہ مغربی پنجاب کو سیراب کرنے والے نہروں کے منابع بھی ہند کی جھولی میں ڈال دیئے۔ اپریل 1948 ء میں ہند نے ا چانک پا کستان کا پانی بند کیا تو مسائل نے سراٹھایا۔ عالمی بینک ثالث بنا آگے بڑھا اور 1960 ء میں دونوں ممالک کے درمیان سندھ طاس معاہدہ وجود میں آیا۔ پاکستان کے 2 دریا ستلج اور راوی ہند لے گیا جبکہ جہلم، چناب اور سندھ اس کے حصے میں آئے۔ معاہدے کے مطابق اوپری بہاؤ پر بیٹھے ہند کو زیریں بہاؤ پر واقع پاکستان کو اس کی ضرورت کے مطابق سارا پانی مہیا کرنا ہوگا۔ تب عالمی بینک ثالث تھا لیکن نیا منظر نامہ تشویش میں مبتلا کررہا ہے۔ عالمی بینک نے ثالثی سے معذرت کرلی ہے۔ اس بر س مارچ میں ہمیں صرف 50 فیصد نہری پانی میسر آئے گا۔ گندم کی بالیاں سنہری ہونے سے پیشتر ہی جان ہار جائیں گی۔ تب جہلم اور چناب کی مچھلیاں؟ سندھ کی اندھی ڈولفنیں اور ان دریاؤں کے کنارے پر بسیرا کئے کچھوے اور تتلیاں ؟ اور یہ دھمکی؟ بیواؤں کی طرح سوکھے بازو اٹھائے بین کرتے شجر؟ ایتھوپیا؟ بس ! بس! اور کچھ نہیں لکھاجاتا۔ !

شیئر: