Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بنگلہ دیش کاالمیہ

 
 ڈھاکا پریس کلب میں ، میں نے دیکھاکہ میڈیا والے طنز کررہے ہیں کہ سینکی ہوئی ہلسا مچھلی کولکتہ کے ہوٹلوں میں دستیاب ہے لیکن بنگلہ دیش میں نہیں
 
کلدیپ نیر
 
یہ بات سمجھ میں آنے والی نہیں ہے کہ ایسے میں جبکہ بنگلہ دیش اپنے جشن آزادی کی تقریبات میں مصروف ہے ، وہاں غیر مسلموں کی املاک کو کیوں نقصان پہنچایا جارہا ہے۔ 45 سالہ پہلے ہندوستان نے اس وقت کے مغربی پاکستان سے آزادی چھین لینے میں سابق مشرقی پاکستان کو تعاون دیا تھا۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ بنگلہ دیش کی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد(شیخ مجیب الرحمان کی بیٹی) نے خود اپنی تشکیل کردہ عوامی تحریک کے ذریعے اپنی سرزمین کو آزاد کرایا۔ موجودہ شدت پسند طاقتوں کے سامنے سینہ سپر رہنے کی ان کی اسناد میں کوئی شک نہیں کیا جاسکتا تاہم یہ الگ بات ہے کہ ان کیخلاف اپنے اقدامات سے انہوں نے مخالف پارٹیوں کیخلاف جنگ کا کام لیا ہے۔
بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کو یہ شکایت ہے کہ ان کا عتاب اس پر اسلئے ٹوٹا ہے کہ وہ واحد متبادل ہے، برسراقتدار عوامی لیگ جس کی سربراہ حسینہ واجد ہیں، انہیں ختم کرنے کیلئے تمام حربے آزما رہی ہیں۔ یہاں تک کہ ایسی افواہیں پھیلائی جارہی ہیں جن سے خالدہ ضیاء کی شبیہ داغدار ہو۔ بنگلہ دیش کی آزادی کے فوراً بعد شیخ مجیب الرحمان سے ملاقات مجھے یاد ہے۔ میں نے ان سے شکایت کی تھی کہ وہاں وہاں ہند مخالف احساس بہت شدید ہے۔ ڈھاکا پریس کلب میں ، میں نے دیکھاکہ میڈیا والے طنز کررہے ہیں کہ سینکی ہوئی ہلسا مچھلی کولکتہ کے ہوٹلوں میں دستیاب ہے لیکن بنگلہ دیش میں نہیں۔ انہوں نے آزادی کے فوائد کا استحصال کرنے پر نئی دہلی اور کولکتہ پر سخت تنقید بھی کی۔ 
شیخ مجیب الرحمان نے مجھے بتایا کہ بنگالی اس شخص کا احسان کبھی نہیں بھول سکتا جو آپ کو ایک گلاس پانی پلا دے۔ آپ کے ہم وطنوں نے ہمارے علاقے کو آزاد کرانے کیلئے مکتی باہنی کی مدد کرتے ہوئے اپنی زندگیاں قربان کی ہیں۔ انہو ںنے یہ بھی کہا کہ بنگلہ دیش میں سیکولرازم کی جڑیں بہت گہری ہیں اور کسی بھی حالت میں اسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا لیکن حیرت ہے کہ اب بنگلہ دیش کی سیکولر شناخت پر سوالیہ نشان لگ رہا ہے۔ جنرل ایچ ایم ارشاد کے فوجی اقتدار کے دوران حکومت کا حصہ رہ چکی جماعت اسلامی پوری طرح اسلامی طرز حکمرانی کو مقبول بنانے کیلئے کوشاں ہے اور دنیا کے اسلامی ملکوں سے گہرے روابط رکھنا چاہتی ہے۔ خوش قسمتی سے بنگلہ دیش کے اندر اس کی طرف کوئی توجہ نہیں دی گئی لیکن شیخ حسینہ کی عدم مقبولیت نے بنگلہ دیشی عوام کو ایسا بنا دیا ہے کہ ان کے خیالات تبدیل ہورہے ہیں۔ وہ اپنی حقیقی حزب مخالف کی لیڈر خالدہ ضیاءکے حامیوں کو نیست ونابود کرنے کی فکر میں رہتی ہیں۔ اس لڑائی میں بیگم خالدہ ضیاءکے طرفدار سیکولر افراد کو بھی فرقہ پرست کے لقب سے نوازا جاتا ہے اور ان پر پھبتیاں کسی جاتی ہیں۔
حسینہ مزید قدم جمانے اور اقتدار سے چپکے رہنے کی شدید خواہش رکھتی ہیں۔ مخالف پارٹیاں سرعام کہہ رہی ہیں کہ وہ انہیں انتخابات میں شاید اس لئے نہ ہٹاسکیں کہ وہ منصفانہ الیکشن کرائیں گی نہیں۔ وہ پہلے ہی خاندانی اقتدار کی بات کرتی رہی ہیں اور حکومت کے تمام معاملات میں امریکہ میں مقیم اپنے فرزند سے رائے مشورہ لیتی رہی ہیں۔ اس سوچ کی نہج پر وزیراعظم اپنے حامیوں کو مختلف جماعت اور تعلیمی اداروں کی اہم حیثیتوں پر مقرر کرتی رہی ہیں۔ چاہے ان کی لیاقت اور تعلیمی استعداد مطلوبہ معیار کی نہ ہو۔ 
اس طرح وہ لیاقت کی بنیاد پر وضع کردہ تعلیمی نظام کو تباہ کررہی ہیں لیکن اس سے وہ کوئی سروکار نہیں رکھتیں کیونکہ وہ سمجھتی ہیں کہ سیکولرازم کے نام پر وہ اپنے وفاداروں میں سے کسی کو بھی اعلیٰ عہدے پر بٹھا سکتی ہیں۔ ان کا رویہ ایسا ہے گویا کہ حکومت کرنا ان کا پیدائشی حق ہو۔ وہ ایک ایسا قانون نافذ کرنے کی کوشش کر رہی ہیں جس کی رو سے ان کے والد یا ان کے اقتدار پر اعتراض کرنے والے شخص کو قوم دشمن تصور کیا جائے گا۔ واقعی یہ جمہوری اقدار کی تعبیر کا عجیب انداز ہے لیکن جونہی یہ قانون بن جائے گا بنگلہ دیش میں عجیب تر واقعات رونما ہوسکتے ہیں ۔ آج ان کا نشانہ بنی ہوئی مخالف پارٹیاں آئندہ کوئی آواز اٹھا نہیں پائیں گی۔ ملک کا ماحول مزید جابرانہ اور آمرانہ ہوجائے گا اورحکومت پر انگشت نمائی کرنے والے افراد گنے چنے ہی رہ جائیں گے۔
اپنے تمام اقدامات میں شیخ حسینہ نے ملک کے عوام کی بہبود کو فراموش کردیا ہے۔ اپنے قیام کی سالگرہ کا جشن منانے والے بنگلہ دیش کا مسئلہ یہ ہے کہ اقتصادی ترقی کے ذریعے حکومت عوام کی مدد کسی حد تک کرسکتی ہے۔ بدقسمتی سے ایسا ہے نہیں۔ وزیراعظم اپنی کامیابیوں کا شمار اپنے قریبی وفاداروں کو دی گئی ملازمتوں ہی سے کرتی ہیں۔ عدلیہ کی اب کوئی آزادانہ حیثیت نہیں رہ گئی۔ ہندوستان کے برخلاف ججوں کے انتخاب کا کوئی کالجیم بھی نہیں ہے۔ حکومت ان کا تقرر براہ راست کرتی ہے اور جیسا کہ اس وقت ڈھاکا میں موجود بنگلہ دیش کے اولین وزیر خارجہ کمال حسین نے بتایا کہ بنچ میں بعض خود مختار ججوں کی موجودگی کے باوجود بعض کا میلان حکومت نوازی کی طرف تھا۔ ا ن کا رویہ اس طرح تھاکہ گویا کوئی ان پر سوار ہے۔ ا ن کے فیصلوں سے ایسے رجحان کی عکاسی ہوتی تھی جو کسی خود مختار عدلیہ کا نہیں ہوتا۔ ہندو جج اس دبا وکو محسوس کرتے ہیں۔ مجھے ڈھاکا میں اپنے ہائی کمشنر سبریمل دت سے ہوئی گفتگو بھی یاد ہے کہ جنہوں نے میری اس شکایت پر کہ بنگلہ دیشی ہندووں کی بدحالی کی کوئی مثال نہیں دی جاسکے گی۔ یہ جواب دیا کہ ہندوستان کے مدد کرنے سے پہلے اس موضوع پر گفتگو ہوئی تھی۔ 
یہ سمجھا گیا تھاکہ وہاں کے ایک ملین ہندووں میں سے بیشتر ہندوستان منتقل ہوجائیں گے اور وہیں رہ جانے والے بہت سے اسلام قبول کرلیں گے۔ یہ تو ٹھیک ہے لیکن اس کا تصور کبھی نہیں کیاگیا تھا کہ ہندووں کی املاک تباہ کردی جائیں گی۔ یہ حقیقت ہے کہ ہندوستان میں 20 فیصد سے زیادہ مسلمان ہیں بنگلہ دیشی مسلمانوں کو متاثر کرے گی کہ وہ ایسی کوئی بات نہ کریں جس سے نئی دہلی اور ہندوستان کی ہندو آبادی الگ تھلگ ہوجائے۔ بنگلہ دیش کو دینی اقدار کا احیاءکرنا ہوگا جو اس کے سیکولر جمہوری ملک ہونے کی پہچان ہیں۔ یہ بات اس ملک کے بانی شیخ مجیب الرحمان کے ذہن میں نہیں تھی جو اقلیتوں سے تفریق سے عاری ملک بنانا چاہتے تھے۔ شیخ حسینہ ان کے نقش قدم پر چلنا چاہتی ہیں مگر وہ آمریت پر اتر آئی ہیں اوراس جذبے کا کوئی عکس ان میں ہے نہیں۔ یہی بنگلہ دیش کا المیہ ہے۔ 
******

شیئر: