Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عدلیہ کی کردار کشی اور دباو کی تاریخ

 
 سچ یہ ہی ہے کہ انصاف گونگا نہیں ہوتا ، بولتا ہے ، وجو د رکھتا ہے ، اس لئے نظر آتا ہے مگر یہ گونج اسی وقت عیاں ہو سکتی ہے کہ تما م متعلقہ عنا صر بھی اپنا کر دار ادا کریں 
 
سید شکیل احمد 
 
لا ہور ہائی کو رٹ بار کی سلو ر جو بلی تقریب سے خطا ب کر تے ہو ئے چیف جسٹس پاکستان میا ں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ کسی کے دباو میں آئیں گے اور نہ ہی مصلحت ، مفاد اورخوف کا شکا ر ہو نگے تما م فیصلے میرٹ پر کئے جائیں گے ، شفافیت کی جانب کوئی بھی آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھ سکے گا ،نظام بدلنے کا وعدہ نہیں کر رہا تاہم دائر ہ اختیا ر میں رہتے ہو ئے کو شش کرونگا ، پا کستان کو ایسے لو گو ں کی ضر ورت ہے جو دیا نتدار ہو ں ، ججو ں کی تعینا تی کیلئے ترازو میں جھول نہیں آنا چاہئے، عہد کر تا ہو ں کہ فرض کی انجا م دہی میںکبھی کمزور نہیں پڑوں گا ، عوام کے اعتما د کو بحال کرنا ہو گا ۔
چیف جسٹس پا کستان نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے وہ دراصل پاکستان کے عوام کی دل کی آواز ہے ، عوام یہی چاہتے ہیں کہ ان کو انصاف بلا تاخیر ملے ، سستا ملے ، یہ کہنے میں باک نہیں کہ پاکستان کی عدالتو ں کے احاطو ں میں جو کا ر وبار ہوتا ہے ، وہ انتہا ئی قابل افسوس ہے ایک طرف مصیبت زدہ اپنے مقدمے کی پیر وی کے لئے خوارہو رہاہوتا ہے اور دوسری جانب اس کی جیب جا ئز کا م کیلئے نا جائز طورپر خالی کرائی جا تی ہے ، چیف جسٹس صاحب نے اپنی تقریر میں فرما یا ہے کہ وہ نظام بدلنے کا وعدہ نہیںکررہے بلکہ دائر ہ کا ر میں رہتے ہو ئے مساعی کی بات کر رہے ہیں ، بات تو درست ہے کہ پا کستان میں سیاست دانو ں کے طر ز عمل نے بہت سے شکو ک و شبہات پید ا کر رکھے ہیںچنا نچہ اب حالت یہ ہے کہ عوام سیا ست دانو ں کی ہر بات کو سنجید ہ نہیں لیتے کیو نکہ اعتما د کی فضا کو ان سیا سی وعدو ں کی بنا ءپر گہری زد پڑچکی ہے ، معاملہ اب اعتما د اور بے اعتما دی کے درمیا ن نہیں رہا۔
عدلیہ کی بحالی کے لئے تحریک میں یہ بات تو درست ہے کہ عوام نے بھر پور ساتھ دیا، قر بانی سے بھی دریغ نہیں کیا تاہم ججوںکو بھی سلا م ہے کہ انھو ں نے عدلیہ کی آزادی کی تحریک میں عظیم قر بانی پیش کر کے ایک عمد ہ مثال قائم کی جس کی بنا ءپر عو ام کا عدلیہ پر بھر پو ر بھروسہ قائم ہو ا ، ما ضی کی عدلیہ کی تاریخ کی ورق گردانی کی جا ئے تو افسو س اور ملا مت کے سوا کچھ نہیں ملتا مگر یہ سب کچھ بیر ونی دباو اورکسی حد تک ذاتی مفاد کی بنیا د پر ہوتا رہا ہے ، 60ءکی دہا ئی تک عدلیہ کا کر دار دھند لانہیں تھا ، عمد ہ انصاف کی تو قع اپنی جگہ مو جو د تھی اور اس زمانے میں کئی اہم ترین فیصلے آئے جو آج بھی تاریخ کا اہم ترین با ب قرار پا تے ہیں اگر چہ جسٹس منیر کا فیصلہ اسمبلیو ں کو توڑنے کا درست قرادینے کا پا کستان کے مستقبل کا تاریک ترین فیصلہ قرار پایا مگر اس کے باوجو د بعد میں عد لیہ نے انصاف کے تقاضوں کو مدنظر رکھا ۔
عدلیہ میں ایک لمبی فہر ست ہے بے باک ، کھرے ، انصاف دار ، ایما ندار اور باکردار ججز کی ، قوم اس معاملے میں بانجھ نہیں رہی ہے صرف ایک مثال کا فی ہے سابق چیف جسٹس کا رنیلس کی زندگی آج بھی انصاف کے لئے خدما ت انجا م دینے والو ں کے لئے مشعل راہ ہے ، جسٹس کارنیلس فرما یا کر تے تھے کہ وہ غیر مسلم ہو تے ہو ئے بھی آئینی طو رپر مسلما ن ہیں کیونکہ پا کستان ایک اسلا می ریاست ہے اور اس کا باشندہ ہو نے کے نا تے وہ دستو ر ی طورپر مسلما ن ہیں ، جسٹس کارنیلس عدالت میں خاموش رہتے تھے کسی قسم کا تبصرہ کر نے سے اجتنا ب کر تے تھے ، وہ کبھی کسی کے دباو میں نہیں آئے۔ انھو ں نے ایو ب خان کی جا نب سے جما عت اسلا می کو غیر قانونی قر ار دینے کے حکم کو کالعدم قرار دیا تھااس طرح ایک مطلق العنان آمر کے مقابلے میں انھوں نے انصاف کا دامن مصفا و نظیف رکھا ۔ جو تاریخی فیصلہ ہے ، جسٹس کا ر نیلس کو کبھی کسی عوامی تقریب میں نہیںدیکھا گیا۔ وہ اس سے اجتناب برتتے تھے کیو نکہ اس طرح کی سر گرمیو ں سے وہ جج کے احترام اور اعتما د کے دامن کو دھبّہ لگنے سے محفو ظ کئے ہو ئے تھے۔ آنجہا نی کا فرما نا تھا کہ جج نہیں بولا کر تے ا ن کا انصاف خود بولتا ہے ۔ اس لئے عدلیہ اور ججز ایک ہی جسم کے اعضاء ہیں ان میں سے کوئی مفلو ج نہیں ہو نا چاہیے اور نہ ہی کوئی داغدار ہونا چاہئے۔
یہ صرف ایک شخصیت کی مثال تھی ایسے درجنو ں جج گزرے ہیں جنھو ں نے نیک نا می کو بٹّہ نہیں لگنے دیا اس راہ میں صعوبتیں برداشت کیں جس کی تا زہ ترین مثال سابق فوجی آمر پر ویز مشرف کے دور میں مو جو د ہے کہ درجنو ں ججز کو ان کے گھر و ں میں بال بچو ں سمیت نظر بند کر دیا گیا ، طرح طر ح کی صعوبتیں برداشت کر نے پر مجبو رکیا گیا مگر آفرین ہے کہ انھو ں نے ایک جا بر آمر کے سامنے جھکنے کی بجا ئے ان سختیو ں اور مصیبتو ں کو قبول کیا ، سچ یہی ہے کہ انصاف گونگا نہیں ہوتا ، بولتا ہے ، وجو د رکھتا ہے ، اس لئے نظر آتا ہے مگر یہ گونج اسی وقت عیا ں ہو سکتی ہے کہ تما م متعلقہ عنا صر بھی اپنا کر دار ادا کریں ۔ 
   متعلقہ عنا صر سے مر اد پہلے نمبر پر حکو مت ، دوسرے نمبر پر عوام ، تیسرے نمبر پر قانو ن دان چاہئے وہ وکلا ء میں سے ہو ں یا کسی ادارے سے تعلق رکھتے ہو ں ، ان کا ایک ہی مشن ہو نا چاہئے کہ قوم انصاف سے تہی دامن نہ ہو مصیبت یہ ہے کہ جب کسی کی خواہش کے مطابق فیصلہ نہیںآتا تو وہ عدلیہ کو دبا و میں لا نے کی بدعت میں مبتلا ہو جا تا ہے جیسا کہ پچھلے دنو ں ایک سیاست دان یہ کہتے سنے گئے کہ وہ سپر یم کو رٹ سے مایو س ہو ئے ہیں پھر سے جلسہ جلو س کریں گے ، کیا یہ طرز عمل قوم کے مفاد میں ہے ، نظام کی خرابی میں ان کا بھی بلکہ سب سے بڑا ہا تھ انھی جیسے عنا صر کا ہے جو اپنے اغراض کی خاطر انصاف کو بغیر چبائے نگلنے کی مساعی کر تے رہتے ہیں جو اپنے مفاد کی قربانی نہیں دے سکتے وہ عوام کے لئے کیا قربانی دیں گے ۔
سیاست دانو ں کا عدلیہ کے معاملے میںسچی بات یہ ہے کہ کر دار کوئی قابل ذکر نہیں رہا ، اگر فیصلہ من پسند آگیا تو واہ واہ اگر الٹ گیا تو وہ پھر عدلیہ کی کر دار کشی پر جت جا تے ہیں اور اس کے کر دا ر کو متنا زعہ بنا ڈالتے ہیںجیسا کہ حال ہی میں سابق فوجی آمر پر ویز مشرف نے پاکستان سے مفر کے بارے میں جہا ں راحیل شریف کی دوران ملا زمت توقیر بنی ہو ئی تھی اس کو داغدار کرنے کی سعی کی وہا ں انھو ں نے عدلیہ پر دبا و کا بھی الزام لگا یا ، جو قبیح طرز عمل ہے ۔ راحیل شریف ہنو ز خامو ش ہیں ان کی جا نب سے وضاحت ضروری تھی کہ مشرف کہاں تک سچے ہیں کہ انھو ں نے مشرف کو پا کستان سے نکلنے، غداری ، قتل اور لا ل مسجد جیسے سنگین مقدما ت سے بچانے کے لئے
کوئی کر دار ادا کیا یا نہیں یا مشرف ویسے ہی بڑ مار رہے ہیں۔ 
******

شیئر: