Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سرخ انقلاب کے دور میں مسلمانوں پرعرصہ حیات تنگ ہوچکا تھا

ترکستان کے باشندے انقلاب روس کے بعد مساجد و مدارس سے محروم ہوگئے ،علماء کو شہری حقوق سے محروم کر کے سائیبریا کے برف زاروں میں بھجوا دیا جاتا ، نماز باجماعت ادائیگی پر ٹیکس عائد کر دیا جاتا تھا 

 

ارسلان ہاشمی۔جدہ

گزشتہ سے پیوستہ

- - - - - - - - - - -

 1917 میں ماورالنہر کی سرزمین روسی انقلاب کی لپیٹ میں آگئی ۔ زار شاہی کا تختہ الٹنے کے بعد جمہوریت پسند نیشنلسٹ روسیوں نے الیگزنڈر کرنسکی کی سربراہی میں عبوری حکومت قائم کر لی ایک برس کے اندر ہی فروری 1918 میں کمیونسٹوں نے لینن کی سربراہی میں کرنسکی حکومت کا تختہ الٹ کر روس پر قبضہ کر لیا اور سوشلسٹ روس نے ترکستان کی جانب پیش قدمی شروع کر دی۔ ابتداء میں نظریاتی طور پر وہاں مداخلت کی گئی اور اپنے ہمنوا بنائے گئے ۔ دسمبر 1921 میںکمیونسٹوں نے بخارا اور جمہوریہ خیوا پر اپنے چنگل گاڑ دیئے ۔کمیونسٹوں نے ترکستان پر قبضہ کرتے ہی شہریوں کی زمینیں ، باغات ، کارخانے بحق سرکار ضبط کرنے شروع کر دئے اور تمام افراد کو حق شہریت سے محروم کیا جانے لگا ۔مساجد پر پابندیاں لگانی شروع کردی گئیں ۔ مساجد بحق سرکار ضبط کرنے کیلئے باقاعدہ منظم مہم کے تحت سب سے پہلے مساجد اور مدارس کے اوقاف کو ضبط کیاجاتاجب مساجد اور مدارس کے وسائل ختم ہو جاتے تو ان پر کمیونسٹ حکومت ٹیکس عائد کردیتی وہاں کے لوگ نماز باجماعت کی ادائیگی کیلئے چندہ جمع کر کے ٹیکس ادا کرتے تو چندہ دینے والوں پر خزانہ ٹیکس لگا دیا جاتا کہ تم لوگوں نے مسجد کاجس طرح ٹیکس ادا کیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تم نے خزانہ چھپا رکھا ہے اس لئے تم پر خزانہ ٹیکس عائد کیا جاتا ہے ۔ اس کے بعد کون مسجد کا ٹیکس ادا کرنے کی ہمت کر سکتا تھا ۔ ان حالات میں لوگ مسجد کا رخ کرنے سے کترانے لگے جب مسجد نمازیوں سے خالی ہو نے لگتی تو اسے ایک ہفتے بعد ہی بحق سرکار ضبط کر لیا جاتا ۔بعدازاں ضبط شدہ مساجد اصطبل ، رقص گاہ یا کلب میں بدل دیا جاتا ۔ جامع مساجد جن کے ساتھ مدارس اور طلباء کی اقامت گاہیں موجود ہوتی وہاں کمیونسٹ اور یہودی خاندانوں کو آباد کر دیا جاتا تھا ۔ کمیونسٹ پارٹی کی شاخیں ہر محلے میں کھول دی گئی تھی جن کا کام علاقے کے تمام مکینوں کے بارے میں مکمل معلومات جمع کرنا اور مذہبی خیالات کے حامل افراد کی مصروفیات کا ریکارڈ رکھنا ہوتا تھا ۔ روزگار کے لئے کمیونسٹ پارٹی کے دفتر سے پرمٹ حاصل کرنا ضروری ہوچکا تھا کوئی بھی شخص خواہ وہ مزدور ہو یا دہقان اس وقت تک کام نہیں کر سکتا تھا جب تک اس کے پاس پارٹی دفتر سے پرمٹ جاری نہیں کر دیا جاتا ۔ ورک پرمٹ کے حصول کیلئے یہ لازمی تھا کہ مذہب سے مکمل لاتعلقی اختیار کی جائے اور اسکا ثبوت پارٹی دفتر کے اہلکاروں کو فراہم کیاجائے ۔ الغرض سرخ انقلاب کے بعد مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ ہو چکاتھا ۔ دن دھاڑے مسلمانوں کا قتل عام ہوتا اور قاتلوں کے خلاف کوئی پرچہ بھی درج نہ کروا سکتا تھا ۔ مسلمانوں میں غیرت و حمیت ختم کرنے کیلئے کمیونسٹوں نے ایک منصوبہ بنایاجس پر عمل کرنے کیلئے انہو ںنے وادی فرغانہ میںاعلان کروایا کہ تمام اہل علاقہ اپنے اہل خانہ کے ہمراہ فلاں مسجد میں حاضر ہو ں جو اجلاس میں نہیں آئے گا وہ حالات کا خود ذمہ دار ہو گا ۔ اعلان کے بعد اہل علاقہ مجبورا اپنے اہل خانہ کے ہمراہ مسجد میں پہنچے جہاں پہلے سے ہی مسلح دستے موجود تھے ان کی ذمہ داری یہ تھی کہ وہ باپردہ مسلم خواتین کے سروں سے چادریں کھینچ کر مسجد کے صحن میں جمع کرتے جائیں جب تمام اہل علاقہ جمع ہو گئے تو سرخوں کے علاقائی سربراہ نے چادروں اور برقعوں کے ڈھیر کویہ کہتے ہوئے نذر آتش کر دیا کہ آج کے بعد ہر عورت آزاد ہے مذہبی لوگوںکی جانب سے جو پابندیاں ان عورتوں پر لاگو کی گئی تھی ہم نے آج ان تمام پابندیوں کو ختم کر دیا ۔ اس دن کے بعد سے کوئی عورت حجاب نہیں اوڑھے گی ۔ ا س دن کو کمیونسٹوں نے یوم بے پردگی کے دن کے طور پر منانا شروع کردیا ۔ کمیونزم کے حامیوں کے سامنے جو مسلمان بھی حجت کرتا اسے یا تو شہید کر دیاجاتا یا سائبیریا کے برف زارو ںمیں ہمیشہ کیلئے بھیج دیا جاتا جہاں سے واپسی ناممکن ہوجاتی تھی۔ مسلم فاتحین کی عظیم الشان مساجد کو تفریح گاہوں ، پارٹی دفاتر یا اسی قسم کے دیگر کاموں کے لئے مختص کر دیاجاتا ۔

کمیونزم وسوشلزم کے درندوں کی سفاکی اور ترکستانی علماء کی ثابت قدمی

انقلاب روس کے دوران ترکستان کی تاریخ میں ایسے بے شمار واقعات بھر ے پڑے ہیں جنہیں پڑھ کر دل و دماغ مفلوج ہوجاتے ہیں مگر ان علماء حق کی ثابت قدمی اور دین حق کی سربلندی کیلئے انسانیت سوز مظالم برداشت کئے مگر انکے پائے استقامت میں ذرہ برابر بھی لرزش نہ آئی ۔ راہ حق کے لئے ترکستان کے علماء کرام کی قربانیوں نے قرون اولی کے مسلمانوں کی یاد تازہ کر تے ہوئے اپنی جانب سے گویا ترکستانی مسلمانوں کاکفارہ ادا کردیا ۔ جو مظالم ان پر ڈھائے گئے ان کی ایک معمولی سی جھلک قارئین کے سامنے پیش کرنے کی جسارت کررہا ہوں تاکہ راہ حق کے ان مسافروں کی عظمت اور دین اسلام سے ان کے لگائو کا اندازہ کیا جاسکے ۔ ـ" جی پی او ( روسی خفیہ پولیس ) نے اسٹالن کے حکم پر ترکستان اور روس کے طول و عرض سے سیکڑوں ترکستانی ، تاتاری اور قفقاری علماء کو بلایا اور انہیں ایک محضر نامہ دیا گیا ساتھ ہی ان علماء کرام سے کہا گیا کہ اس اعلامیہ پر دستخط کر دیں تو انکی زندگیوں میں آرام و سکون ہمیشہ کیلئے لکھ دیا جائے گا یہی نہیں بلکہ آپ تمام حضرات کے رشتہ داروں ، عزیز و اقارب اور جاننے والوں کے لئے ہر طرح کی چھوٹ ہو گی ان سے کوئی باز پرس نہیں کی جائے گی اور حکومت کی جانب سے آپ تمام حضرات مقربین میں ہونگے۔ جو اعلامیہ ان علماء حق کو دیا گیا تھا اس میں درج تھا " ہم حاملان دین کا یہ ایمان ہے کہ آج سے قرنوں پہلے عرب میں محمد آئے جنہو ںنے اپنی قوم کی اصلاح کی ۔

اب اس بگڑی ہوئی دنیا میں لینن آیا اور اس نے ظلم سے نجات دلائی ۔ ہم اعلان کرتے ہیں کہ مارکس اور لینن نے جو کچھ لکھا اور کہا اب وہی اسلام ہے اور مسلمانوں کے لئے قابل عمل " ۔ ان علماء حق نے اس روسی خفیہ پولیس کی جانب سے ملنے والے اس اعلامیہ کو ماننے سے انکارکرتے ہوئے انتہائی حقارت سے ٹھکراتے ہوئے بیک زبان ہو کر کہا " چہ نسبت خاک را با عالم پاک " مارکس اور لنین مادہ پرستی کے مارے ہوئے محض ایک عام سے انسان تھے۔ ان کی غیر فطری تعلیمات کا آقائے دو جہاں کی لائی ہوئی فطری اسلامی تعلیمات سے کیا نسبت و تعلق ہو سکتا ہے؟ علماء کرام کی اس جرات پر روسی درندے بھنا گئے انہو ںسیکڑوں علماء کو گرفتار کر کے سائبیریا کے برف زاروں میں بھیج دیا۔ 93 جید علماء کو علیحدہ کیا اور انہیں مزید ترغیب دینے کی ہر طرح سے کوشش کی مگر انکے پائے استقامت میں زرہ بھر بھی لرزش نہیں آئی تو روسی گماشتوں نے انہیں ٹرکوں میں سوار کر کے فوج کی نگرانی میں اوش شہر کے پہاڑوں میں پہنچا دیا جہاں ان پر ہونے والے مظالم کو آسمان نے دیکھا اور زمین بھی لرز گئی ہوگی ۔ ان تمام 93 چوٹی کے علماء کو ایک ایک پھاوڑا دیا اور ہر ایک سے کہا کہ وہ ایک فٹ چوڑا دو فٹ گہرا اور 5 فٹ چوڑا گڑھا کھودیں جب گڑھے تیار ہو گئے تو ہر عالم کے ہاتھ میں چونے کی بوری دی گئی اب انہیں کھودی ہوئی قبر کے کنار ے کھڑا کر کے اس طرح ان پر فائرنگ کی گئی کہ گولیاں انکے جسموں کو چھوتی ہوئی نکل جاتی اور زخموں سے خون رسنے لگتا جوں ہی زخموں سے چور لہولہوبدن لڑ کھڑاتے ہوئے گڑھے میں جاگرتے تو دوسرے عالم دین کو حکم دیا جاتا کہ چونے کی بوری اپنے ساتھی پر الٹ دی جائے بعدازاں انہیں زندہ چونے میں دفن کر دیاجاتا ۔ اسی طرح ہر شخص اپنی قبر اپنے ہاتھوں سے کھودتا اور اسی ظالمانہ سلوک کا شکار ہو جاتا۔ قابل صد آفرین ہیں ہمارے اجداد کہ انہو ںنے اتنے ظلم سہہ کر بھی راہ حق کو فراموش نہ کیا۔ آخری شخص کو ظالموں نے زخمی کئے بغیر زندہ ہی دفن کر دیا جو کسی طرح بچ نکلنے میں کامیاب ہوگیا ۔شاید یہی نہیں بلکہ یقینا قدرت کو ان ظالموں کی کارروائی اور علماء حق کی حق پرستی سے دنیا کو آگاہ کرنا تھا اسی لئے آخری شخص کو جسے زخمی کئے بغیر زندہ دفن کر دیا گیا تھا کسی طرح قبر سے نکلنے میں کامیاب ہو گیا اور چھپتے چھپاتے کاشغر پہنچا بعدازاں1935 میں دہلی میں میرے والد صاحب سے ملا اور اس پورے واقعے کو من و عن بیان کیا ۔

ایک اور عالم دین کی راہ حق کیلئے بے مثال قربانی

ترکستان کی تاریخ میں ایک نہیں سیکڑو ں ایسے درد ناک واقعات ملیں گے جن کو پڑھ کر جہاں ہمارا ایمان

تازہ ہو تا ہے وہاں ان جید علماء کرام کی قدر و منزلت میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے جنہو ں نے رب کریم کے ارشاد ( ترجمے کا مفہوم ۔ اپنے رب کے حکم پر صبر کراور انکی جانب سے پیش کی جانے والی گمراہی اور کفر کی اطاعت نہ کرو ) پر عمل کرتے ہوئے مثالی قربانیاںدیکر ملت کو گمراہی سے نکالنے میں اپنا بہترین کردار ادا کیا ۔ اس حوالے سے والد صاحب نے ایک اور قصہ اپنی کتاب میں تحریر کیا جسے یہاں نقل کررہا ہو ں ۔ قاضی عبدالمجید خان ترکستانی علماء میں خاص اہمیت رکھتے ہیں۔ سرخ فوج نے انہیں رات کو گھر سے اٹھایا اور اپنے اڈے پر لے آئی ان پر ہر طرح کے مظالم ڈھائے گئے تاکہ وہ لنین کی حمایت میں جاری فتوی پر دستخط کر دیں مگر انہو ں نے وہی جواب دیا جو ان کے پیش رو علماء نے دیا تھا " چہ نسبت خاک را باعالم پاک " ( لنین تو اس خاک کے برابر بھی نہیں جس پر آقائے دو جہاں بول و برازفرمایا کرتے تھے )۔ قاضی عبدالمجید کا یہ جواب سن کر روسیوں نے انکے جسم پر اس طرح چاند ماری کی کہ جسم زخموں سے چور چور ہوکر انکے ہی لہو میں ڈوب گیا اس کے بعد انہیں گڑھے میں پھینک کر اوپر سے چونا اور گرم راکھ ڈال دی گئی ۔

قاری محی الدین انکا شمار بھی جید علماء دین میں ہوتا تھا انہیں بھی یہی ترغیب دی گئی کہ وہ اس اعلامیہ پر دستخط کر دیں اور ہمارا ساتھ دیں تو انکے آل اولاد ساری زندگی عیش کرے گی مگر انکا جواب بھی وہی تھا جو دیگر علماء حق اپنی جان پر کھیل کر دے چکے تھے اس پر روسی درندوں نے قاری محی الدین کو ایک بلند مقام پر کھڑا کیا اورفائرنگ اسکواڈ کے 5 گروپس بنائے گئے۔ ہر گروپ کو جدا جدا نشانے دیئے گئے پہلے گروپ نے سر کانشانہ بنایا دوسرے نے شانوں کا تیسرے نے سینے کا چوتھے نے رانوں کا اور پانچویں نے گھٹنوں کا ۔فائرنگ اسکواڈ کو ایک ساتھ فائرنگ کرنے کا حکم دیا گیا ۔ ایک ہی لمحے میں قاری محی الدین کا جسد خاکی فضا میں بکھر گیا مگر انکے پائے استقامت میں ایک لمحے کیلئے بھی لرزش نہ آئی ( آفرین ہے ان علماء حق پر )

( باقی آئندہ ہفتے بروز بدھ )

شیئر: