Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جذبۂ اُلفت سے سرشار ،منزلِ محبت کے مسافر

انسان جب انسانیت سے محبت کرتا ہے تو کوئی رکاوٹ کوئی آزمائش اسکا راستہ نہیں روک سکتی ۔ وہ مالک حقیقی کیلئے اپنے فرائض کی انجام دہی میں انہی محبتوں کے ہمراہ آگے بڑھتا چلا جاتا ہے

زینت شکیل۔جدہ

وہ ناشتے میں گرما گرم پراٹھے بناتی اور جن کو جو پسند ہو اس کے ساتھ لقمہ بناتی جاتی۔ کبھی آملیٹ کے ساتھ، کبھی آلو کی بھجیا کے ساتھ اور دل چاہے تو جام اور مکھن کے ساتھ بھی۔ سب سے چھوٹے صاحب زادے نے نیا نیا اسکول جانا شروع کیا تھا ، اس کے ساتھ تیاری میں سب سے زیادہ وقت لگتا اور پھر ناشتے میں بھی اسے ہی سب سے زیادہ دیر لگتی۔ وہ کبھی اپنی سائیکل سواری شروع کردیتا ،کبھی اپنے فٹ بال کی تلاش میں ڈائننگ ٹیبل کے نیچے پہنچا ہوا ہوتاتو کبھی سیڑھی کو سلائڈنگ اسٹیئر سمجھ لیتا، اس لئے اوپر نیچے کا سفر جاری رکھتا اور وہ تھی کہ ہر صورت چھوٹے چھوٹے لقمے اس کے منہ میں ڈالنے کیلئے اس کے پیچھے پیچھے ہر اس جگہ پہنچتی جہاں جہاں وہ موجود ہوتا ۔ تیاری مکمل ہوئی، صاحب آفس کیلئے اور بچے اسکول کیلئے روانہ ہوئے تووہ اپنے ناشتے کی طرف متوجہ ہوئی۔ چائے کا کپ اٹھانے لگی تھی کہ اخبار میں تصویر دیکھ کر چونک گئی۔ سوچنے لگی سچ مچ ہر انسان کسی نہ کسی سے محبت کی ڈور میں بندھا ہوا ہے ۔ والدین ہیں تو اپنے بچوں کیلئے ہر آسانی تلاش کررہے ہیں، ان کی تربیت میں دن رات ایک کئے دے رہے ہیں۔ بوڑھے ہیں تو اپنے بچوں کو اچھی باتیں اپنی زندگی کا نچوڑ بتارہے ہیں۔ اذان کی آواز آرہی ہے تو بڑے چھوٹے سب وضو کیلئے جلدی کررہے ہیں، اپنے رب کریم کی پکار پر جلد از جلد مسجد میں پہنچ جانا چاہتے ہیں۔

طلباء و طالبات ہیں تو نماز کے بعد فوراً بعدکتابیں سنبھال رہے ہیں۔ جو پبلک ٹرانسپورٹ سے سفر کرتے ہیں انہیں اور بھی جلدی کرنا ہے کہ بس اسٹاپ پر وقت پر پہنچیں ۔جن کی اسکول وین آتی ہے وہ تیار ہوکر اپنی وین کا انتظار کررہے ہیں۔ جو جاب پر جارہے ہیں وہ وقت دیکھتے ہوئے تیاری کررہے ہیں۔ مائیں گھروں میں تلاوتِ قرآن کریم کے بعد ناشتہ بنانے ،لنچ کی تیاری کرنے اور پھر انہیں روانہ کرتے ہوئے منسون دعائیں پڑھتی جارہی ہیںتا کہ جن بچوں نے دعا نہ پڑھی ہو وہ بھی سن کر پڑھ لیں۔ اس تصویر نے بھی ہماری محبتوں کا پورا نقشہ کھینچ ڈالا ہے کہ کئی موٹرسائیکل سوار مختصر جگہ سے موٹرسائیکل گزارتے ہوئے اوپر موجود رکاوٹ سے بچتے بچاتے راستہ بناتے گزررہے ہیں ۔کسی کو پڑھنے جانا ہے، کسی کو آفس پہنچنا ہے ، عمر رسیدہ بزرگ بھی اپنی سواری کو اسی راستے سے گزارکراپنی منزل کی طرف جارہے ہیں ۔ ہیلمٹ پہنے صاحب اہلیہ کو لئے اسی دشوار گزار راہ کے مسافر بنے ہوئے ہیں جبکہ ایک خاتون برقع میں موجود رہ کر بھی اپنے تمام کام خود انجام دینے میں مصروف ہیں اور اپنے بچے کو گود میں اٹھائے رکاوٹ عبور کررہی ہیں۔ اس نے سوچا کہ ہر کوئی اپنے رشتہ داروں ، گھروالوں اور عزیزوں کی محبت میں یہ سارے کام انجام دے رہا ہے۔یہ سب جذبۂ اُلفت سے سرشار منزلِ محبت کے مسافر ہیں۔ کسی کو اپنے والدین کا نام روشن کرنا ہے ، اس لئے تعلیمی سلسلہ آگے بڑھانے جارہا ہے، کوئی گھریلو ذمہ داریوں کو پوری کرنے کیلئے روزگار کی تلاش میں ہے اور کوئی میاں بیوی ملکر گھر کی گاڑی چلانے کیلئے برسرِکار ہیں ۔ کوئی کلام الٰہی کی دعوت دینے گھر سے نکلا ہے اور کوئی ماں اپنے بچوں کو ضروری ٹیکہ لگوانے ، نکلی ہے ۔ہر ایک اپنی محبت کا ثبوت دیتا نظر آرہا ہے اور اپنی محبت پر نازاں ہے ۔ انسان جب انسانیت سے محبت کرتا ہے تو کوئی رکاوٹ کوئی آزمائش اسکا راستہ نہیں روک سکتی ۔

وہ مالک حقیقی کیلئے اپنے فرائض کی انجام دہی میں انہی محبتوں کے ہمراہ آگے بڑھتا چلا جاتا ہے۔ مالک حقیقی کی رحمت کی چھاؤں میں رہتا ہے ،دن بھرکاموں میں مصروف رہتا ہے اور اپنی نیند سوتا ہے۔ دوسری محبت دنیا سے ہوتی ہے جو مادی اشیاء پر منحصر ہوتی ہے ،دنیا سے محبت کرنے والے دولت کی طلب میں اتنے آگے نکل جاتے ہیں کہ ایک پہاڑ انکے پاس سونے کا موجود ہو تو دوسرے سونے کے پہاڑ کی خواہش میں جان ہلکان کئے رکھتے ہیں۔ اس کیلئے اپنی عزتِ نفس کو تھپک تھپک کر گہری نیند میں پہنچادیتے ہیں پھر چاہے دنیا ساری ان پر ہنستی رہے وہ کسی طرف توجہ نہیں دیتے ۔ بس اپنے اکاؤنٹس کی معلومات رکھتے ہیں۔ دنیا کے کن کن ممالک میں اور کہاں کہاں اپنی ذاتی جائدادیں خریدی جاسکتی ہیں اور کہاں کہاں خفیہ بینک اکاؤنٹس کھولے جاسکتے ہیں اور اپنے ملک میں کن اقدامات کے تحت غریب کو اور غریب اور امیر کو اور امیر بناسکتے ہیں اسی غور و فکر میں وقت گزار دیتے ہیں اور رات میں سونے کیلئے نیند کی گولی کے عادی بن کر ایک دن بے سکونی کے عالم میں ہی ملک عدم پہنچ جاتے ہیںاوردنیا میں ان کی تمام دولت ان کے رشتہ دار بے دردی سے خرچ کرنے کیلئے تیار ہوتے ہیں۔

شیئر: