Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

موبائل ، معاشرے کو لپیٹ میں لینے والی ’’سائنسی عنایت‘‘

بلا شبہ موبائل فون جیسی ’’سائنسی عنایت‘‘وقت کی ضرورت ہے مگر موبائل فونز پر ایس ایم ایس اور پیغامات کے پیکجز نے معاشرے کے تمام طبقے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے

 

عنبرین فیض احمد۔ ریاض

ہمیشہ یہی کہا جاتا ہے کہ کوئی چیز بذات خود اچھی یا بری نہیں ہوتی بلکہ اس کا ستعمال اس کو اچھا برا بناتا ہے۔ ضرورت سے زیادہ کسی چیز کا استعمال انسان کو کہیں کا نہیں چھوڑتا۔ دور حاضر میں موبائل فون اور انٹرنیٹ بھی ان ایجادات میں شامل ہیں جنہوںنے ایک جانب انسان کو انسان سے قریب تر کردیا ہے تو دوسری جانب اس نے کئی طرح کے قباحتوں کو بھی جنم دیا ہے ۔ اس میں قصور موبائل یا انٹرنیٹ کا نہیں بلکہ اسے استعمال کرنے والوں کا ہے۔بلا شبہ موبائل فون جیسی ’’سائنسی عنایت‘‘وقت کی ضرورت ہے مگر موبائل فونز پر ایس ایم ایس اور پیغامات کے پیکجز نے معاشرے میں ایسی وباء پھیلارکھی ہے جس نے بوڑھے، جوان اور حتیٰ کہ بچوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ مختلف قسم کے پیغامات سے دوسروں کو پریشان کرنا بھی اب فیشن بنتا جا رہا ہے۔ بعض لوگوں نے موبائل فون کو جرائم کے آلے کے طور پر استعمال کرنا شروع کردیا ہے۔ معاشرے کے حالات دیکھ کر ہماری ایک سہیلی نے تہیہ کرلیا کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے وہ اپنے بچوں کے باشعور ہونے تک انہیںموبائل خرید کر نہیں دے گی۔وہ اسے ساری برائیوں کی جڑ تصور کرتی تھی۔ اس کا بیٹاہر روز اسکول سے آنے کے بعد کہتا کہ مما میرے سب دوستوں کے پاس موبائل ہے، میں اب بڑا ہوچکا ہوں ، 9ویں جماعت میں پہنچ گیا ہوں پھر بھی آپ موبائل خرید کر نہیں دیتیں۔

ایک روز اس کے شوہرکو دفتر میں ہی دل کا دورہ پڑاجو جان لیوا ثابت ہوا ۔ وہ بالکل بکھر کر رہ گئی ۔ اس کیلئے خود کو سمیٹنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہو چکاتھا۔ اس کے دونوں معصوم بیٹوں کی موجودگی نے ہی اسے جینے کا حوصلہ دیا۔وہ ڈاکٹر تھی، اس نے بچوں کی اعلیٰ تعلیم و تربیت کے لئے رات دن محنت شروع کردی ۔ وہ اسپتال سے آنے کے بعد کافی تھک جاتی مگر وہ اپنے بچوں کودینی اور دنیاوی تعلیم دینے پر باقاعدہ توجہ دیتی۔ ماہ و سال گزرتے گئے۔ آج اس کے بچے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھ چکے تھے اس کی محنت رنگ لے آئی تھی۔سارا خاندان ، سارا محلہ اوراسکول کا بچہ بچہ ان بچوں کی مثالیں دیا کرتے ۔ سب انہیں رشک کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ 10ویں جماعت میں اس کے بیٹے نے خوب محنت کی اور سوچا کہ اس مرتبہ تو مما مجھے موبائل گفٹ کرہی دیں گی۔

جب نتیجہ آیا تو اس کے بیٹے نے پورے شہر میں اول پوزیشن حاصل کی مگر اس کا تو دل مان نہیں رہا تھا کہ بچے کو موبائل فون لے کر دیاجائے مگر اس نے خود کو سمجھایا کہ یہ وقت کی ضرورت بن چکا ہے۔ اس کے بیٹے نے تقریب والے دن اپنے دوستوں کو مدعو کیا۔ جب تقریب ختم ہوئی اورچند دوست رہ گئے تو ایک نے دوسرے دوست سے کہا کہ دیکھ یار، یہ نمبر تو اپنے موبائل میں فیڈ کرلے اور پھر دل بھر کے اس لڑکے کو تنگ کرنا ۔ ہم سب مل کر اس کو تنگ کریں گے ۔اس نے جواباً کہا’’اوکے ! میں سمجھ گیا۔‘‘ وہ کچن میں کھڑی ان بچوں کی ساری گفتگو سن رہی تھی ۔اس نے اسی وقت ایک فیصلہ کیا کہ کچھ بھی ہوجائے وہ اپنے بچوں کو موبائل ہرگز نہیں دلائے گی۔ بے شک یہ وقت کی ضرورت تو ہے مگر آج کی نسل نو نے اسے کھلونا اور لطیفہ سمجھ لیاہے ۔ کھلونا تو اس لئے کہ جس طرح چاہیں اس کے ذریعہ کھیل سکتے ہیں اور لطیفہ اس لئے کہ اپنے ہی کھیل پر ہنستے ہیں۔ اس نے سوچا کہ جوان بچے ہیں ، وہ اپنی برسوں کی محنت ،ریاضیت اور تربیت کو یوں کسی صورت ضائع نہیں ہونے دے گی یہ سوچ کر اس کا دل مطمئن ہوگیا۔ اسے بے ساختہ اپنے اوپر رونا آگیا ۔ اس نے دعا کی کہ اے میرے رب کریم! میرے حال پر رحم فرما ۔ اگریہ بچے غلط راہ کے مسافر بن گئے تومیری ساری محنت رائگاں جائے گی۔ اس کو احساس ہوا کہ آج کے دور میں والدین اپنے ناسمجھ بچوں کے ہاتھوں میں موبائل دے کر بے فکر ہوجاتے ہیں ، وہ یہ دیکھنے کی زحمت بھی گوارہ نہیں کرتے ہیں کہ وہ ان چیزوں کا استعمال کس انداز میں کررہے ہیں۔ اس نے اپنے آپ کوسمجھایا کہ میرا بیٹا مجھ سے خواہ کتنا ہی ناراض کیوں نہ ہو ،میں اپنے بچے کو ایسا تحفہ نہیں دے سکتی جو اس کے مستقبل کو برباد کردے ۔

شیئر: