Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

زندگی میں گرہستی کے سواکچھ نہیں کیا، ثمینہ ظہیر

وطن سے ساری زندگی دور رہے پھربھی اُسے بھلا نہیں سکتا ۔یہ وہ سرزمین ہوتی ہے جسے وہ آنکھ کھولتے ہی دیکھتا ہے،ہوا کے دوش پر ملاقات کا احوال

 

تسنیم امجد ۔ ریاض

کسی بھی بچے کے لئے ماں ایسی ہستی ہوتی ہے جسے بچہ اس کی ہر اچھائی اور ہر برائی کے ساتھ چاہتا ہے، وہ ماں کو اس کے مزاج کی سختی و نرمی،گفتار کی تلخی و شیرینی، اس کے پیار کی کمی و فراوانی،اس کی دانائی و نادانی،اس کی امارت و بے سروسامانی ، اس کی بے اعتنائی و مہربانی کے ساتھ دل و جان سے اپناتا ہے۔ ماں ایک ایسی عورت ہوتی ہے کہ کائنات میں اس کاکوئی نعم البدل ممکن نہیں ہو سکتا ۔ ماں اور بچے کا رشتہ کسی بھی کلئے، ضابطے، قاعدے یا اصول سے ماورا ہوتا ہے۔حد تو یہ ہے کہ یہ رشتہ بعض اوقات سائنسی و عمرانی اصولوں کو بھی منہ چڑاتا دکھائی دیتا ہے۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ اگر انسان کو کسی ہم نفس سے کوئی تکلیف پہنچے تو وہ اس سے دور ہو جاتا ہے، اس سے روابط منقطع کر دیتا ہے، اس سے نفرت کرنے لگتا ہے مگر جب ماں اپنے بچے کو مارتی ہے تو وہ چلا کر روتا ،آنسوبہاتا اسی ماں کی گود میں پناہ لیتا ہے اور اس سے محبت طلب کرتا ہے ۔ انسان کا کچھ ایسا ہی تعلق اپنے وطن سے بھی ہوتا ہے۔ کوئی بھی شخص کرۂ ارضی کے جس خطے میں آنکھ کھولتا ہے ، وہ اسے دل و جان سے پیارا ہوتا ہے، وہ اپنے وطن کے ا ندھیروں کو پردیس کی چکا چوند سے زیادہ قیمتی سمجھتا ہے ، اسے وطن کی مشکلات ، پردیس کی آسائشوں سے پیاری لگتی ہیں، وہ اپنے وطن کو اس کی تمام تر اچھائیوں، تما م برائیوں، تمام بے اعتنائیوں، تمام اُداسیوں اور تمام رعنائیوںکے ساتھ قبول کرتا ہے اور اس پر نازاں رہتا ہے ۔ خواہ وہ وطن سے ساری زندگی دور رہے پھربھی اُسے بھلا نہیں سکتا ۔یہ وہ سرزمین ہوتی ہے جسے وہ آنکھ کھولتے ہی دیکھتا ہے ، اس لحاظ سے وطن اس کی ’’پہلی محبت‘‘ ہوتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ پہلی محبت انسان کبھی نہیں بھولتا۔زندگی کا حسن خاک اور زمین ہی سے مستعار ہے ۔ وطن وہ گوشہ ہے جو بے منت ، بے احسان ، اپنی بانہیں پھیلائے ہمیں ہر لمحہ اپنی پناہوں میں لینے کیلئے تیار رہتا ہے۔ اس پناہ گاہ میں انسان کو آنکھ کھلنے سے لیکر آنکھ بند ہونے تک عنایتیں میسر آتی رہتی ہیں۔ اس گلستان میں ہم اپنے خوابوں کی تعبیر تلاش کرتے ہیں، فکر و خیال اسی خاک سے ابھر کر وسعت ِ افلاک کو شرمندہ کرتے ہیں۔ یہ کشور حسین ہمارے وجود کو شناخت بخشتی ہے ۔

محترمہ ثمینہ حفیظ ہوشیار پوری ایک ہی سانس میں وطن کی مدح سرائی کئے جارہی تھیں، وہ ہوا کے دوش پر اردونیوز کی مہمان تھیں کہنے لگیں ’’اردونیوز‘‘ تو خود ایک دیس ہے اسے کانِ ادب کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔سلسلہ ’’ہوا کے دوش پر‘‘ بھی نہایت دلچسپ ہے ،اب تو اس کی وسعت نے سبھی فاصلے ، دوریاں مٹادیں۔ یہ ملکوں ملکوں اپنائیت و محبت کے پھول ریختہ دانوں میں تقسیم کرنے کا فریضہ ادا کررہا ہے۔ہر پڑھنے والے کو یہی محسوس ہوتا ہے کہ یہ کسی کی نہیں بلکہ اسی کی کہانی ہے۔ انٹرنیٹ اور موبائل فون جیسی ایجادات نے جغرافیائی فاصلوں کوکسی ویزا اور ٹکٹ کے بغیر مٹادیا ہے ۔اس طرح پردیس کی تنہائی بڑی حد تک پر رونق محفل میں بدل چکی ہے ۔

محترمہ ثمینہ اپنے سجے سجائے ڈرائنگ روم میں صرف اس لئے بیٹھی تھیں تا کہ وہ اپنے ابا حضور کے لائے ہوئے خوبصورت ڈیکوریشن پیسز بھی دکھا سکیں۔

تفصیلی گفتگو کے آغاز میں انہوں نے مشہور زمانہ غزل گراموفون پر چلادی:

محبت کرنے والے کم نہ ہونگے

تری محفل میں لیکن ہم نہ ہونگے

ثمینہ نے اداس آواز میں گفتگو کا سلسلہ پھر شروع کیا اور بولیں کہ میں اپنے بہن بھائیوں میں چوتھے نمبر پر ہوں۔ سب سے بڑی اپیا ڈاکٹر صبیحہ حمید سوشیالوجسٹ ہیں ۔انہوں نے اسی مضمون میں پی ایچ ڈی کی ہے ، ان کی 9کتابیں انہی کے سبجیکٹ میں اب تک شائع ہوچکی ہیں ۔ ان سے چھوٹے زُہیب بھائی، جو کراچی میں کاروبار سے منسلک ہیں، پھر عصمت باجی ، جو 1971ء میں تین برس ’’پر زنر آف وار‘‘ یعنی ’’جنگی قیدی‘‘ رہیں۔ وطن لوٹیں توانہوں نے ’’ہیپی لینڈ‘‘ کے نام سے اسکول کی بنیاد رکھی جو بہت مقبول ہوا یہاں تک کہ اس کی دوسری شاخ کی بھی بنیاد رکھنا پڑی۔ عصمت باجی تو ہمیں داغِ مفارقت دے گئیں۔ ان کی 2بیٹیاں ہیں ایک ڈاکٹر اور دوسری اسلامی اسکالر جبکہ خودانہوں نے فزکس میں ماسٹرز کر رکھاتھا ۔ چوتھے نمبر پر میں یعنی ثمینہ ہوں جبکہ پانچویں نمبر کا چھوٹا بھائی عمیر حفیظ ،غیر ملکی ایئرلائنز میں رہاتاہم اب کراچی میں بڑے بھیا کے ساتھ بزنس کررہاہے۔ ہماری والدہ کی شادی جلدی ہوئی تھی، گوکہ تعلیم میں وہ بابا کے ہم پلہ نہ تھیں لیکن پڑھنے کا شوق بے انتہا تھا۔ صبح اخبار باقاعدگی سے پڑھتیں اور بعد میں اس پر تبصرہ بھی کرتیں۔ بابا جان ان کا ساتھ دیتے۔ ہم نے آنکھ کھولتے ہی اپنے گھرمیں کتابوں کا شیلف سجا ہوا دیکھا۔ بابا ہوشیار پور میں پیدا ہوئے۔ گورنمنٹ کالج لاہور میں پڑھے، تب فیض احمد فیض بھی اس کالج میں پڑھتے تھے۔ یہ وہ دن تھے جب صوفی غلام مصطفیٰ تبسم ان کے کالج میں انسٹرکٹر تھے۔ وہ ان دونوں طالب علموں کی قابلیت سے نہایت متاثر تھے۔ 1929ء میں کالج کے مشاعرے میں دونوں نے شرکت کی۔ تب بابا کی دو غزلوں نے شہرت پائی ایک تو یہی جو ابھی ہم نے سنی یعنی، ’’محبت کرنے والے کم نہ ہونگے‘‘ اور دوسری ’’تیری تلاش میں ہم جب کبھی نکلتے ہیں‘‘

والد محترم کو ناصر کاظمی کا استاد ہونے کا شرف حاصل ہے۔ مجھے یہ کہتے ہوئے نہایت خوشی ہورہی ہے کہ ناصر کاظمی بابا کی رہنمائی میں مشہور زمانہ غزلیں لکھتے تھے۔ مجھے یاد ہے بابا جان اکثر ان سے انکی یہ غزل سنتے تھے:

نیت شوق بھر نہ جائے کہیں

تو بھی دل سے اتر نہ جائے کہیں

آج دیکھا ہے تجھ کو دیر کے بعد

آج کا دن گزرنہ جائے کہیں

نہ ملا کراداس لوگوں سے

حسن تیرا بکھرنہ جائے کہیں

آرزو ہے کہ تو یہاں آئے

اور پھر عمر بھر نہ جائے کہیں

آؤ کچھ دیر رو ہی لیں ناصر

پھر یہ دریا اتر نہ جائے کہیں

آج میں جب بابا اور ناصر کاظمی کی شاعری کا موازنہ کرتی ہوں تو مجھے دونوں کی شاعری میں خاصی مماثلت دکھائی دیتی ہے۔ محترمہ ثمینہ کہنے لگیں مجھے یہ خلش پریشان رکھتی تھی کہ میں نے زندگی میں گھر گرہستی کے سواکچھ کرکے نہیں دکھایا، میرے شوہر ظہیر سجاد پائے کے بزنس مین ہیں۔ 

اللہ تعالیٰ نے ہمیں چار اولادوں ایک بیٹے زبیر اور تین بیٹیوں ماریہ، مریم اور آمنہ سے نوازا ۔ کچھ پانے کی لگن کو تقویت ملنے کا راستہ خود ہی میرے روبرو آگیا ہے۔ میں زبیر کو گرامر اسکول لاہور میں داخل کروانے گئی، وہاں مجھے کسی ٹیچر کی جگہ صرف 3ماہ کیلئے پڑھانے کی پیشکش ہوئی۔ میرا وہ 3 ماہ کا سفر 34برس پر محیط ہوگیا۔ میرے کام اور لگن کو پذیرائی ملی اور مجھے کچھ کرنے کو مل گیا۔ تدریس کے باعث یوں لگا کہ زندگیاں بنانے کے پراجیکٹ جیسا تو کچھ اور ہے ہی نہیں۔ اپنے پیشے سے لگن و محنت سے میں پرنسپل کے عہدے پر پہنچ گئی۔ میں ٹیچرز کے ساتھ میٹنگ کرتی تو انہیں یہی کہتی کہ صرف کتابوں کو ایکسپلین کرنا ہی آپ کا کام نہیں بلکہ رول ماڈل بننا اورزندگی کے آداب بتانا بھی فرضِ اولین ہے۔ ہماری بات چیت کے دوران ثمینہ کے شوہر ظہیر سجاد بھی تشریف لے آئے، کہنے لگے اردونیوز کی شہرت مملکت میں مقیم عزیزوں و دوستوں کے ذریعے ہم تک پہنچی ہے بلکہ گزشتہ دنوں ویب سائٹ بھی کھولنے کا موقع ملا جب لاہور ہی کی مشہور و معروف شاعرہ صائمہ الماس کا انٹرویو چھپا تھا۔ اردونیوز پردیس میں خود ایک دنیا ہے جس نے ریختہ دانوں کو خود میں سمو رکھا ہے۔ میرا ناتہ بیگم کی وساطت سے جس خاندان سے جڑا وہاں میں نے شعر و ادب کی محافل کا انعقاد دیکھا، سنا اور شرکت کی ، اس طرح زندگی کا یہ خوبصورت انداز بہت بھایا، مجھے بھی شاعری سے لگاؤ ہے۔ سننا بہت بھاتا ہے ، بیگم نے انگریزی میں شاعری کی ہے لیکن انہیں افسوس ہے کہ اردو میں کیوں نہیں کی۔ میں جانتا ہوں کہ ایک دوسرے کی خواہشوں کا احترام خوشگوار ازدواجی زندگی کا خاصہ ہے۔ انسان کو اپنی ذات کے خول سے باہر نکل کر اپنے ارد گرد والوں کا احترام کرنا چاہئے۔ اگر کسی کا بننا چاہتے ہو تو پوری حقیقت سے بن جاؤ ورنہ اپنی ذات کو اس طرح بناڈالو کہ کوئی حقیقت میں تمہارا بن جائے۔ ایک دوسرے سے توقعات اتنی ہی رکھیں جتنی ممکن ہوں ، یقین کیجئے اس طرح قربت میں اضافہ ہوگا۔ دونوں ایک دوسرے کو اہم ترین جانیں اور خوش رہیں۔ مجھے اپنے سسر محترم حفیظ ہوشیارپوری کی شاعری بہت پسند ہے۔ ایک غزل کے چند اشعار بیان کرتا ہوں۔

خوفِ تقلید راہبر ہی رہا

اک قدم اس سے پیشتر ہی رہا

یوں ستارے شریک درد رہے

غمِ آفاق کا بیاں تھا حفیظ

گرچہ روئے سخن ادھر ہی رہا

شیئر: