Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سماجوادی پارٹی کا بحران

 
سماجوادی پارٹی کا موجودہ بحران دراصل سیاسی طاقت کو ایک ہی خاندان میں مرکوز رکھنے کی ہوس کا شاخسانہ ہے، ملائم سنگھ کے خانوادے کے ایک درجن سے زیادہ افراد مختلف عہدوں پر فائز ہیں
 
معصوم مرادآبادی
 
ملک کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش میں حکمراں سماجوادی پارٹی کی خانہ جنگی پھر سطح پر آگئی ۔ سرپھٹول کے دوسرے دور کا آغاز ایک ایسے موقع پر ہوا ہے، جب اسمبلی انتخابات سرپرہیںاور کسی بھی لمحہ چناو کی تاریخوں کا اعلان ہونے والا ہے۔ہرچند کہ سماجوادی پارٹی کے سربراہ ملائم سنگھ یادو اور ان کے باغی بیٹے وزیراعلیٰ اکھلیش یادو کے درمیان بعض لوگوں کی مداخلت کے بعد وقتی مفاہمت ہوگئی لیکن ٹکٹوں کی تقسیم کے معاملے میں دونوں کے درمیان جو مناقشہ پیدا ہواہے، اس کے منفی اثرات انتخابی میدان میں نظرآئیں گے۔ پارٹی کے قومی صدر ملائم سنگھ یادو نے اسمبلی انتخابات کے لئے 325امیدواروں کی جو فہرست جاری کی تھی، اس میں وزیراعلیٰ اکھلیش یادو کے کئی قریبی لوگوں کے ٹکٹ کاٹ دیئے گئے تھے ۔داغ دار شبیہ رکھنے والے کئی ایسے امیدواروں کو میدان میں اتاراگیا تھا جنہیں اکھلیش یادو پسند نہیں کرتے۔ اسی کشاکش کے نتیجے میں وزیراعلیٰ نے اپنی پسند کے 267 امیدواروں کی ایک متوازی فہرست جاری کردی جس کے خلاف ملائم سنگھ یادو نے سخت تیور اپناتے ہوئے اپنے بیٹے وزیراعلیٰ اکھلیش یادو اور چچازادبھائی پروفیسر رام گوپال یادو کوپارٹی مخالف سرگرمیوں کے الزام میں 6 سال کے لئے معطل کردیا تھا۔وقتی مفاہمت کے بعد دونوں کی معطلی واپس لے لی گئی ہے۔ دونوں کے کشیدہ تعلقات کا اثر حکومت کے وجود پر پڑنے والاتھا کیونکہ ممبران اسمبلی کے درمیان وفاداریوںکی تقسیم کے بعد اگر اسمبلی میں زورآزمائی ہوتی تو حکومت کے زمیں بوس ہونے کا خطرہ پیدا ہوجاتا۔
اس بات کا قوی امکان ہے کہ آئندہ فروری میں ہونے والے یوپی اسمبلی کے انتخابات کے دوران سماجوادی پارٹی کے امیدوار دیگر پارٹیوں سے زیادہ خود اپنی ہی پارٹی کے باغی امیدواروں سے زورآزمائی کرتے ہوئے نظر آئیں گے۔ امیدواروں کی جو متوازی فہرستیں جاری کی گئی ہیں، ان کے درمیان انتخابی میدان میں رسہ کشی آخر وقت تک برقرار رہنے کا امکان ہے۔ اس خانہ جنگی کے نتیجے میں سماجوادی پارٹی کو جو نقصان پہنچے گا اس کی تلافی کے امکانات نظر نہیں آتے۔
سماجوادی پارٹی کا موجودہ بحران دراصل سیاسی طاقت کو ایک ہی خاندان میں مرکوز رکھنے کی ہوس کا شاخسانہ ہے۔ سماجوادی پارٹی میں ملائم سنگھ کے خانوادے کے ایک درجن سے زیادہ افراد مختلف عہدوں پر فائز ہیں۔ اب تک ان تمام کی کمان پارٹی صدر ملائم سنگھ یادو کے ہاتھوں میں رہی ہے لیکن اپنے بیٹے اکھلیش یادو کو صوبے کا وزیراعلیٰ بنانے کے کچھ عرصے بعد انہیں یہ محسوس ہونے لگا تھا کہ پارٹی پر ان کی گرفت کمزور پڑنے لگی ہے۔ اس کمی کو دور کرنے کے لئے انہوں نے اپنے چھوٹے بھائی شیوپال یادو کو آگے کردیا صوبائی حکومت میں چچابھتیجے کے درمیان تلواریں کھنچ گئیں۔جس کا نظارہ 2ماہ پہلے پورے ملک نے بڑی دلچسپی کے ساتھ کیا۔اقتدارکی خاطر اب تک یہ ہوتا آیا ہے کہ بیٹے نے باپ کو قید کردیا ہو یا پھر بھائیوںکو اپنے راستے سے ہٹانے کے لئے انہیں راہ اجل پر روانہ کردیا ہو لیکن ایسا کم ہی ہوا ہے کہ ایک باپ اپنے بیٹے کے سنہرے سیاسی مستقبل کو داو پر لگانے پر آمادہ ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ گزشتہ5 سال کے دوران وزیراعلیٰ اکھلیش یادو نے ریاست میں اپنے کاموں اور صاف ستھری شبیہ سے عوام کے دلوںمیں اپنی جگہ بنائی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے پارٹی میں داغ دار لوگوں کو شامل کرنے یا انہیں ٹکٹ دینے کی مخالفت بھی کی لیکن انہیں اس بات کا قطعی اندازہ نہیں تھا کہ یہ کوششیں ان کے سیاسی مستقبل پر بھاری پڑیں گی پارٹی میں ان کے والد اور چچا ہی ان کی مخالفت میں سینہ سپر ہوجائیں گے۔ یہ بات سبھی جانتے ہیںکہ سماجوادی پارٹی کے بانی ملائم سنگھ یادو ماضی میں ہرقسم کے لوگوں کو پارٹی اور حکومت میں شامل کرکے وقتی فائدہ حاصل کرنے کا کھیل کھیلتے رہے ہیں۔ انہوں نے ہمیشہ داغ دار شبیہ رکھنے والے سیاست دانوں کو گلے لگایا ہے جبکہ ان کے بیٹے کی سوچ اس معاملے میں قدرے مختلف ہے۔ اس حقیقت کو جاننے کے باوجود ملائم سنگھ پرانی ڈگر سے ہٹنے کو تیار نہیں اور اس کام میں ان کے چھوٹے بھائی اور پارٹی کے صوبائی صدر شیوپال یادو ان کے ہمنوا ہیں۔ 
اترپردیش میں اقتدار پر قبضہ حاصل کرنے کے لئے بی جے پی نے جو جال بچھایا تھا، وہ نوٹ بندی کی نذر ہوگیا ۔ موجودہ صورت حال میں لوگوں کو یہی امید تھی کہ سماجوادی پارٹی دوبارہ اقتدار میں آجائے گی۔ سماجوادی پارٹی کو ایک طرف جہاں اکھلیش یادو کے کاموں کا فائدہ ملے گا، وہیں ان کی صاف ستھری امیج بھی کام آئے گی۔ لیکن پارٹی میں ٹکٹوں کی تقسیم کے مسئلے پر جاری خانہ جنگی نے سماجوادی پارٹی کی کامیابی کو مخدوش کردیا ہے۔ انتخابات تک یہ صورت حال قائم رہی تو اس کا سب سے زیادہ فائدہ بی ایس پی اور بی جے پی کو پہنچے گا۔ ملائم سنگھ یادو جن کی آخری خواہش ملک کا وزیراعظم بننے کی ہے، وہ اس کھیل میںبہت بڑے نقصان سے دوچار ہوں گے۔ اکھلیش یادو نے اپنے والد کی فرسودہ سیاست کے خلاف بغاوت کا جو جھنڈا بلند کیا ہے، وہ اگر انہیں راس آگیا تو وہ اپنے طورپر کانگریس جیسی پارٹیوں سے اتحاد کرکے انتخابی میدان میں اتریں گے۔ وہ کانگریس سے اتحاد کرکے 300 سیٹیں جیتنے کی باتیں کرتے رہے ہیں۔ ملائم سنگھ یادو اسمبلی انتخابات میں کسی بھی قسم کا سمجھوتہ کرنے سے انکار کرتے ہیں۔ اگر واقعی اکھلیش یادو کانگریس یا دیگر سیکولر پارٹیوں سے اتحاد کرکے الیکشن کے میدان میں اترتے ہیں تو یوپی میں نئی سیاسی تاریخ رقم ہوسکتی ہے۔ ایسی صورت میں ملائم سنگھ یادو اور ان کے بھائی شیوپال یادو کو سرچھپانے کی جگہ نہیں ملے گی۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ اکھلیش یادو کی صاف ستھری شبیہ کو ملائم سنگھ اپنے برانڈ کی سیاست کے لئے خطرہ تصور کرتے ہیں اور وہ دیگر سیاسی پارٹیوں سے تال میل کے بارے میں سوچ بھی نہیں پاتے۔ دوسروں کے ساتھ مل کر کامیاب ہونا انہیں آزاد رہ کر شکست سے زیادہ نقصان دہ محسوس ہوتا ہے۔ انہیں اس بات کا بھی خوف ہے کہ اگر کسی اتحاد کو کامیابی ملتی ہے تو اس کا فائدہ صوبے میں اکھلیش یادو کو اور مرکز میں راہل گاندھی کو ملے گا۔ ان کی اپنی نگاہ اب بھی وزیراعظم کی کرسی پر ہے۔ ملائم سنگھ یادو اسی خواہش میں خود اپنے ہاتھوں سے بنائی ہوئی پارٹی کوتباہ کررہے ہیں اور اترپردیش کا اقتدار اپنے سیاسی مخالفین کو طشتری میں سجا کر سونپ رہے ہیں۔ 
******

شیئر: