Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آپ ہیں محض پاکستانی شوہر ، میں ’’بین ا لاقوامی دولہا‘‘

کسی شخص کو دوزبانوں پر عبور حاصل ہے تو گویا اس کی دوبیویاں ہیں، مجھے 5علاقائی ، ایک قومی اور 10غیر ملکی زبانوں پر عبور ہے

 

شہزاد اعظم ۔ جدہ

 

مادر علمی میں ہم ایک ایسی ’’مثلث‘‘ یعنی ’’ٹرائیکا‘‘ کا حصہ تھے۔ ہم تینوں اس ناتے سے بھی خوش قسمتوں میں شمار ہوتے تھے کہ ہماری کلاس ٹیچر’’مس شکیلہ‘‘ تھیں۔ 12ویں کا امتحان بھی ہم نے ایک ساتھ ہی پاس کیا پھر سب نے اپنی اپنی راہ لی تو یہ’’ ٹرائیکا‘‘ کھڑاک کر کے ٹوٹ گئی۔ ہمارا ایک دوست عمرانیات کا ماہر بنا، دوسرے نے’’سماجیات ‘‘میں پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی۔ رہ گئے ہم تو ہم نے صحافتی امور کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا۔ہم سمجھتے تھے کہ صحافت کی دنیا میں قدم رکھ کر ا نسان کو ہر طرح کی معلومات تک رسائی حاصل ہو جاتی ہے مگر ہمارا یہ خیال صد فیصد درست ثابت نہیں ہوا کیونکہ ہمارے باقی دو نوں دوست جب بھی ملتے ہیں تو ایسے ایسے حقائق و دقائق سے آگاہ کرتے ہیں کہ ہمارے محض 14نہیں بلکہ سارے کے سارے طبق ہی روشن ہو جاتے ہیں مثال کے طور پر 5روز قبل’’ہوا کے دوش پر‘‘ ماہر سماجیات سے ہماری بات چیت ہوئی۔ انہوں نے ہمیں ایسی آگہی عطا فرمائی کہ ہم انگشت بدنداں رہ گئے۔ انہوں نے ہم سے سوال کیا کہ ذرا یہ بتلائیے کہ اگر کسی انسان کو کوئی زبان سیکھنی ہو تو اسے کیا کرنا چاہئے؟ ہم نے کہا کہ اسے شہر میں اُس زبان کا ’’لینگوئج سینٹر‘‘ تلاش کرنا چاہئے اور وہاں داخلہ لے لیناچاہئے ۔ ہمارا جواب سن کر ہمارے اُس دوست نے کڑوے کسیلے منہ بنائے اور گویا ہوا کہ یہ تو مجبوروں اور بے یار و مدد گار لوگوںکا وتیرہ ہے۔ آزاد اور خود مختار قسم کے لوگ اگر کوئی زبان سیکھنا چاہتے ہیں تو وہ اس زبان والی سے شادی کر لیتے ہیں۔

مثال کے طور پر اگر آپ کو جرمن زبان سیکھنی ہے تو جرمن خاتون سے شادی کر لیجئے، چینی سیکھنی ہے تو چینی خاتون سے اور جاپانی زبان سیکھنی ہے تو وہیں کی کسی عورت سے ازدواجی بندھن میں بندھ جائیں۔اس کا سبب یہ نہیں کہ شادی کے بعد وہ فوراً ہی کسی اچھی استانی کا روپ دھار لیتی ہے بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر شوہر اپنی بیوی کے دل میں گھر کرنے کے لئے اس کی بات سنتاہے، اس کی بات مانتا ہے اور اس کے احساسات کو جانتا ہے۔ بیوی بھی یہی چاہتی ہے کہ کیونکہ یہ بات سب جانتے ہیں کہ غصہ اور محبت، دونوں اپنی انتہاء کو اسی وقت پہنچ سکتے ہیں جب ان کا اظہار اپنی مادری زبان میں کیاجائے۔ یہ بات کس حد تک درست ہے، اس کا اندازہ لگانے کے لئے ذرا تصور کیجئے کہ ایک پاکستانی جس کا نام شیدا ہے اور اس کی مادری زبان پنجابی ہے ، اس کی شادی فرانسیسی خاتون سے ہو جاتی ہے۔ اب دولہا میاں اپنی فرانسیسی دلہن سے فرماتے ہیں کہ ’’توں مینوں چنگی لگنی ایں‘‘۔ وہ جواباً کہے گی کہ’’سی کووو‘‘ یعنی آپ کیا کہہ رہے ہیں؟ پھر وہ ’’پنجابی ٹو فرانسیسی ‘‘لغت اٹھائے گا اوراس میں ’’توں مینوں چنگی لگنی ایں‘‘یعنی 5الفاظ کے ترجمے دیکھے گا اور پھر کہے گا ’’جی وو زیمبیاں‘‘۔ یہ سن کر وہ کہے گی ’’اشکم ووزوسی‘‘۔ اب وہ ’’فرانسیسی ٹو پنجابی‘‘ لغت اٹھائے گا اور دلہن کی زبان سے ادا ہونے والے الفاظ کے معانی دیکھے گا جو یوں ہوں گے’’میں بھی تمہیں پسند کرتی ہوں۔‘‘یہ پڑھ کر وہ خوش ہوجائے گا۔ جوں جوں دن گزرتے جائیں گے ، فرانسیسی دلہن، اپنے دولہا کو اپنی مادری زبان سکھاتی رہے گی۔ دولہا اگرکوئی لفظ غلط بولے گا تو دلہن فوری سمجھا دے گی کہ یوں بولیں، یوں نہیں۔ اسی طرح جب دلہن کو غصہ آئے گا، وہ لال پیلی ہو کر دولہا کو جب ’’ٹکے ٹکے ‘‘ کی سنائے گی تو اُس وقت تو وہ بالکل خاموش رہیں گے کیونکہ دولہا میاں اس کی تمام باتوں کو موبائل کے وائس ریکارڈر میں محفوظ کرنے میں مصروف ہوں گے اور بعد ازاں جب وہ ’’فرنچ ٹو پنجابی‘‘ لغت میں اس’’ دلہنی چیخم دھاڑ‘‘ کا ترجمہ دیکھیں گے تو خود بخود ان کو اپنے کانوں سے دھواں نکلتا محسوس ہوگا۔پھر وہ اس کا جواب دینے کے لئے ٹھنڈے دماغ سے سوچ سوچ کر، پنجابی ٹو فرنچ لغت سے تاش کر کے مرچیں لگانے وا لے جملے اکٹھے کریں گے اور پھر دلہن سے کہیں گے کہ وہ جو صبح تم نے کہا تھا، اب اس کا جواب سن لو۔بہر حال یوں لغتیں چھانتے چند ماہ بمشکل ہی گزریں گے اوراس پاکستانی نوجوان کو فرانسیسی زبان پر عبور حاصل ہوجائے گا۔ ہمارے دوست نے یہ بھی واضح کیا کہ انسان اور خاص طور پر مرد، پیار کے الفاظ تو کسی بھی زبان میں ادا کر لیتا ہے مگر جب اسے غصہ آتا ہے تو وہ صرف اور صرف اپنی زبان میں ہی اپنے خیالات، احساسات اورجذبات بیان کرتا ہے ۔

فرض کریں کہ اگر اس پر پابندی لگا دی جائے کہ وہ خواہ دنیا کی کوئی بھی زبان بول لے مگر اسے اپنی مادری زبان میں بھڑاس نکالنے کی اجازت نہیں ہوگی تو یقین کیجئے ، اس کا غصہ ٹھنڈا نہیں ہو پائے گا اور ایسے میں ممکن ہے کہ اس کے’’ان بُجھے غصے ‘‘ کے باعث اس کے دماغ کی شریان پھٹ جائے ۔ اسی وقت اگر اسے مادری زبان بولنے کی اجازت دیدی جائے تو وہ اپنی مرضی کے الفاظ بول کر ، پوری قوت سے بھاں بھاں کر کے بالآخر خاموش ہوجائے گا۔ ہم نے کہا کہ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ اگر کسی شخص کو دوزبانوں پر عبور حاصل ہے تو گویا اس کی دوبیویاں ہیں؟ ماہر ازدواجیات نے کہا کہ آپ کو اس میں شک و شبے کی گنجائش کیوں نظر آ رہی ہے۔ بالکل صحیح بات ہے۔ میرے ابا کو دیکھئے ، انہیں پنجابی، پشتو، سندھی، بلوچی اور سرائیکی ، تمام زبانوں پر عبور تھا جبکہ مادری زبان اُردو تھی۔ہم نے کہا کہ یہ 5 زبانیں کیسے کیونکہ شادیاں تو.......انہوں نے کہا کہ ہمارے ابا نے ہماری ایک اماں کو طلاق دے دی تھی۔ اس کے بعد بلوچ خاتون سے شادی کی تھی۔یوں ابا نے مختلف زبانیں بولنے والی 4 سے زیادہ ہستیاںاپنے گھر میں کبھی اکٹھی نہیں کیں۔

ہمیں اپنے ابا کی یہ بات بہت پسند آئی۔ ہم نے ڈرتے ڈرتے سوال کیا کہ آپ کو کتنی زبانوں پر عبور حاصل ہے ؟انہوں نے جواب دیا کہ مجھے 5علاقائی، ایک قومی اور 10غیر ملکی زبانوں پر کامل عبور حاصل ہے۔ ہمیں اس موقع پر انتہائی خفت کا احساس ہوا اور ساتھ ہی یہ ڈر بھی لگا کہ کہیں وہ ہم سے ہماری بیویوں کی تعداد دریافت نہ کر لیں۔ ہم نے فوراً ہی اختتامی کلمات کہہ کر آف لائن ہونے کی اجازت چاہی مگر انہوں نے ایک سیکنڈ، ایک سیکنڈ کہہ کر ہمیں روکا اور سوال کیا کہ یہ تو بتائیے ، آپ کو کتنی زبانوں پر عبور حاصل ہو سکا؟ ہم نے انتہائی ندامت کے ساتھ کہاکہ ’’ہم تو فقط اپنی قومی زبان اُردوپر ہی اکتفا کئے ہوئے ہیں،تمام تر شستگی اور شائستگی کے ساتھ ذمہ داریوں کی ادائیگی کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہماری خواہش ہے کہ ہمیں عمدہ تلفظ کے ساتھ اُردو بولنی، لکھی اور پڑھنی آجائے ۔ ہم تو ابھی تک اس کوشش میں ہی کامیاب نہیں ہو سکے ۔ دوسری زبان سیکھنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ دوست نے کہا ’’آپ لوگ ترقی کرنے سے اس قدر خوف زدہ نہ جانے کیوں ہوتے ہیں ۔ انسان کو مختلف زبانیں سیکھنی چاہئیں۔ جانتے ہیں، آپ میں اور مجھ میں کیا فرق ہے؟ فرق یہ ہے کہ آپ محض پاکستانی شوہر ہیں اور میں ’’بین ا لاقوامی دولہا‘‘ کا خطاب پا چکا ہوں آخر کو مجھے 16زبانوں میں غصہ نکالنا، تعریف کرنا، شکایت کرنااوردوستی کرناآتا ہے۔

شیئر: