Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عوام ’’بے نقاب چہروں‘‘ کو دیکھ دیکھ کراُکتا چکے

70سالوں سے سائیکل آئی، گھوڑا ٓیا،تلوارآئی ، تیر آیا، خان آگیا، قادری آیا ، نہیں آیا تو شعور نہیں آیا،آزادی نہیں آئی ، خوشحالی نہیں آئی

ڈاکٹر عابد علی۔ مدینہ منورہ

 

اردو زبان میں بے زار ہوجانے ، جی بھرجانے ، بے دردی سے کوئی کام کرنے یا کسی بات کی کثرت سے دل اچاٹ ہوجانے کی کیفیت کو اکتاہٹ کا نام دیا جاتا ہے اور اس اکتاہٹ کے نتیجے میں کچھ اچھے اور کچھ برے لگنے والے جملے ادا ہوجاتے ہیں مثلاً : ایک مفت خورے کی عادت تھی کہ وہ جب بھی اپنے کسی عزیز یا دوست کے گھر جاتا ، وہاں سے ٹلنے کا نام نہ لیتا۔ ایک دفعہ وہ اپنے کسی لنگوٹیا یار کے گھر گیا جو اپنے دوست کی عادت سے واقف تھا ۔اس نے تینوں وقت اسے دال کھلائی تاکہ وہ اس کے گھر سے جلد چلا جائے لیکن وہ وہاں سے نہ نکلا چنانچہ وہ ہر روز دال کھلانے لگا۔ ایک دن مفت خورکے دوست نے اس سے پوچھا ،آج کیا تاریخ ہے؟ مفت خور نے جواب دیا مہینے کی تاریخ تو مجھے معلوم نہیں ہاں البتہ دال کی آج 15تاریخ ہے۔ روز روز حلوہ کھانے والے بھی ایک دن اکتاجاتے ہیں اور ذائقہ بدلنے کیلئے کچھ اور فرمائش کرنے لگتے ہیں۔ اکتاجانا انسان کی فطرت میں شامل ہے لیکن علامہ اقبال نے اپنی نظم میں جس اکتاہٹ کا ذکر کیا ہے ، وہ کچھ اور ہے، ملاحظہ کیجئے:

دنیا کی محفلوں سے اُکتا گیا ہوں یارب

کیا لطف انجمن کا جب دل ہی بجھ گیا ہو

مرزا غالب کہتے ہیں :

رہئے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ

ہو ہم سخن کوئی نہ ہو اور ہم زباں کوئی نہ ہو

اُکتاہٹ کا عالم اب بہادر شاہ ظفر کی زبانی سنئے:

لگتا نہیں ہے جی مرا اجڑے دیار میں

کس کی بنی ہے عالمِ ناپائدار میں

ان حسرتوں سے کہہ دو کہیں اور جابسیں

اتنی جگہ کہاں ہے دلِ داغدار میں

اک شاعرہ عالیہ بشیر اپنی اکتاہٹ کچھ اس طرح بیان کرتی ہیں:

چلو اس شہر ناپرساں سے اب ہم دور چلتے ہیں

کسی امکان کی جانب

کسی فردوس گم گشتہ کے کھوئے دھیان کی جانب

جہاں آنسو نہیں ہوتے، نہ ہر دم لوگ جلتے ہیں

چلو اب دور چلتے ہیں

یہ کہتے ہیں صبا واں پر بہت خوش آس آتی ہے

مکینوں کے مزاجوں کو بھی دائم راس آتی ہے

سنا ہے یہ بھی واں پر چاند نہ اور تارے اترتے ہیں

چلو اب دور چلتے ہیں

پڑھا ہے یہ صحیفوں میں خزاں کی رت نہیں آتی

جو فصل گل ٹہر جائے تو پھر واپس نہیں آتی

نہ مرجھاتی ہیں کلیاں اور نہ غنچے ہی نکھرتے ہیں

چلو اب دور چلتے ہیں

کسی صحرا ، کسی جنگل یا نخلستان کی جانب

پہاڑوں میں چھپے انمول خوابستان کی جانب

یا نیلے پانیوں کی سمت باامید بڑھتے ہیں

چلو اب دور چلتے ہیں

یاپھر ایسی جگہ کوئی جہاں خوش حال رہتے ہیں

جہاں غربت نہیں اگتی ہے مستِ حال رہتے ہیں

کہ ہم بھی بھول کر سب کچھ انہی کے ساتھ رہتے ہیں

چلو اب دور چلتے ہیں

جہاں پر تتلیاں ہیں سیکڑوں آنکھیں لبھانے کو

جہاں جگنو چمکتے ہیں یہ اندھیارے مٹانے کو

جہاں پر روشنی اور دوستی کے دیپ جلتے ہیں

چلو اب دور چلتے ہیں

آجکل پاکستانی عوام بھی اکتاہٹ کا شکار ہیں۔ ایک ملک کی 6زبانیں ہیں ، اردو ،سندھی، پشتو، بلوچی، پنجابی اور سرائیکی یا تو عوام کو ساری زبانیں بولنا آتی ہوں یا پھر وہ اپنے قومی لیڈروں کے جلسوں میں صرف زندہ باد ، مردہ آباد ، آوے ، آوے، یا جاوے جاے، یا گو، گو کے نعروں کی زبان سیکھیں۔ ہمارے عوام جذباتی باتیں کرنے والوں کے پیچھے لگ جاتے ہیں۔ یہ جلسے جلوسوںکی عادی ہو چکے ہیں ۔ہر وقت روٹی ، کپڑا اور مکان کے چکر میں چکرا چکے ہیں۔ ہر سیاست دان انہیں جمہوریت کے سبز باغ دکھاتا ہے۔ جمہوریت اور روٹی کپڑا اور مکان کے نعرے سنتے سنتے اس کے کان درد کرنے لگے ہیں ۔یہ انہی ’’بے نقاب چہروں‘‘ کو دیکھ دیکھ کراکتا چکے ہیں۔ یہ سیاست دان پچھلے 70سالوں سے ایک ہی نعرہ لگوارہے ہیںکہ سائیکل آئی، گھوڑا آیا، تلوار آئی، تیر آیا، شیر آیا، خان آگیا ، قادری آیا۔ سب آگئے نہیں آیا تو شعور نہیں آیا، عقل نہیں آئی، آزادی نہیں آئی، خوشحالی نہیں آئی۔

عوام اب اس بوسیدہ نظام سے اُکتا چکے ہیں جو عوام کوبرباد کر رہا ہے ۔ ایک صاحب اپنے دوست کے گھر گئے، وہ بہت دیر تک بیٹھے رہے ، میزبان تنگ آگیا اور یہ کہہ کر کہ میں ابھی آتا ہوں ، دوسرے کمرے میں چلاگیا۔ جب کافی دیر ہوگئی اور میزبان نہ آیا تو مہمان نے میزبان کے چھوٹے لڑکے سے پوچھاکہ تمہارے ابو کیا کررہے ہیں، لڑکے نے جواب دیا ’’آپ کے جانے کا انتظار کررہے ہیں‘‘۔

شیئر: