Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ کب سامنے آئے گی؟

 
پی پی اور( ن )لیگ کی حکومتیں یکے بعد دیگرے اس ذمہ داری سے خود کو بری الذمہ خیال کرنے لگیں کہ کمیشن رپورٹ منظر عام پر لانے کا پابند نہیں 
 
محمد اسلم محمود بٹ
 
نئے سال 2017 ءکے آغاز کے ساتھ ہی وزیراعظم نواز شریف کے سامنے سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ آیا وہ ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ کا اعلان کریں یا نہیں جس کا انہوں نے اپنے حالیہ دورہ بوسنیا کے دوران عندیہ ظاہر کیا تھا۔ عدالت عظمیٰ کے سابق جج جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نے قومی ا سمبلی کی قائمہ کمیٹی کے حالیہ اجلاس میں ایبٹ آباد کے کمیشن کی رپورٹ حکومت کو پیش کی تھی جس کے ساتھ حکومت کو اس امر کی سفارش کی تھی کہ اسے منظرعام پر لایا جائے۔ پیپلز پارٹی اور اس کے بعد حکمراں مسلم لیگ ن اس ذمہ داری سے خود کو بری الذمہ خیال کرنے لگے کہ وہ اس کمیشن کی رپورٹ کو منظر عام پر لانے کے پابند ہیں۔2 نومبر 2011 ءکو امریکی کمانڈوز نے دنیا کی سب سے مطلوب شخصیت اور القاعدہ کے بانی و سربراہ اسامہ بن لادن کو پاکستان کے علاقے ایبٹ آباد میں ڈھونڈ نکالا۔ 
امریکہ کے ذریعے جو کہانی سامنے آئی اس کے مطابق اسامہ بن لادن اپنی 3 بیگمات اور تقریباً ایک درجن بچوں کے ساتھ یہاں مقیم تھے اور ان کے کچھ بچوں کی عمریں ظاہر کرتی ہیں کہ وہ ایبٹ آباد میں ہی پیدا ہوئے تھے۔ اسامہ بن لادن کی چوتھی بیوی جب ان سے ایبٹ آباد میں آن ملی تو ان کے بڑے صاحبزادے نے مبینہ طور پر اپنی ناخوشی کا اظہار کیا تھا او ر مبینہ طور پر ان خاتون کو ہی انہوں نے اسامہ بن لادن کو ڈھونڈ نکالے جانے کا ذمہ دار قرار دیا تھا جس کے بعد یہ احوال سامنے آیا تھا کہ اصل کردار  ڈاکٹر شکیل آفریدی نے بچوں کو ویکسین پلانے کی مہم کی آڑ میں اسامہ بن لادن کا سراغ لگایا تھا۔ 
امریکہ نے متعدد مرتبہ شکیل آفریدی کو اپنے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا مگر پاکستان کی جانب سے یہ موقف اختیار کیاگیا کہ ڈاکٹر شکیل آفریدی کا معاملہ عدالتوں میں زیر التواءہے جس کے بعد حکومت امریکی مطالبات پر غور کرے گی۔ امریکی تقاضوں کے جواب میں وزیراعظم کے مشیر برائے امو رخارجہ سرتاج عزیز نے بھی اپنے حالیہ انٹرویو میں یہی جواب دیا کہ فی الحال ڈاکٹر شکیل آفریدی کا مقدمہ عدالتوں میں زیر التواء ہے۔ اس مقدمہ کا فیصلہ ہوجانے کے بعد ہی حکومت امریکی مطالبے پر غور کرسکے گی۔ خیال کیا جاتا ہے کہ حکومت ڈاکٹر شکیل آفریدی کو امریکہ کے حوالے کرنا ہی نہیں چاہتی جو عالمی برادری کیلئے اس امر کا ثبوت ہے کہ یہ شخص اس واقعہ کو سچ ثابت کرنے کیلئے زندہ سلامت ہے۔ اطلاعات کے مطابق ڈاکٹر شکیل آفریدی فوجی ا نٹیلی جنس ادارے آئی ایس آئی کی تحویل میں کالا چٹا پہاڑ میں واقع سیف ہاوس میں زیر حراست ہے جس سے ملاقات کرنے ایک انڈر کور امریکی ایجنٹ اس مقام پر پہنچ چکا تھا جسے دوبارہ پاکستان آمد پر گرفتار کرکے ملک بدر کیا جاچکا ہے۔ 
اسامہ بن لادن کو ٹھکانے لگائے جانے کے فوراً بعد ملک دہشت گردی کے طوفان سے گزرا ۔ تقریباً روزانہ کی بنیاد پر یہاں خودکش حملوں اور بم دھماکوں کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا جن میںمبینہ طور پر وہ امریکی باشندے ملوث تھے جو بظاہر امریکی این جی اوز کیلئے کام کررہے تھے مگر دراصل ان کا تعلق امریکی سی آئی اے سے تھا۔ باور کیا جاتا ہے کہ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) احمد شجاع پاشا نے ان تمام امریکیوں کا سراغ لگاکر انہیں ملک بدر کیا جس کے نتیجے میں ملک میں دہشت گردی کے واقعات میں نمایاں کمی ہوئی تھی۔
باور کیا جاتا ہے کہ امریکی سی آئی اے پاکستان کو اس کے جوہری اثاثوں سے محروم کرنے کے مشن پر گامزن تھی اور ہے اسے پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے پاکستان کے دفاعی مراکز کو دہشت گردوں کے ذریعے نشانہ بنایا جاتا رہا ۔ ضرب عضب کے عنوان کے ساتھ سابق فوجی سربراہ جنرل(ر) راحیل شریف کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے دہشت گردی کی لعنت سے بڑی حد تک ملک کو نجات دلوائی اور ملک کے جوہری اثاثوں کو محفوط تر بنایا۔ انہو ںنے جس عظیم ذمہ داری کا بوجھ اٹھایا تھا وہ موجودہ حالات میں جنرل قمر جاوید باجوہ کے کاندھو ںپر آن پڑی ہے جو بڑی کامیابی سے اس مشن کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ جنرل قمر جاوید باجوہ ملک کی سب سے بڑی کور 10 کے بھی ماضی میں سربراہ رہ چکے ہیں جس کے دائرہ کار میں دارالحکومت اسلام آباد اور جموں و کشمیر کے درمیان غیر حتمی بارڈر لائن آف کنٹرول بھی شامل ہے جہاں کے اگلے مورچوں کا انہوں نے دورہ کیا اور پاکستانی حدود کی خلاف ورزی کرنے پرپاک فوج کو سخت ترین جوابی کارروائی کرنے کاحکم صادر کیا۔
سابق فوجی سربراہ جنرل راحیل شریف کے دور میں جوہری ہتھیاروں کو اس قابل بنایا گیا تھا کہ انہیں ہند کی جانب سے جارحیت کے ارتکاب پر استعمال میں لایا جاسکے اور موٹر ویز پر لڑاکا طیاروں کے استعمال کی مشقیں کی گئی تھیں جس کے نتائج بظاہر یہ سامنے آئے کہ پاکستان کے ساتھ جنگی جنون میں مبتلا ہندوستانی وزیراعظم نریندر مودی کے اوسان ٹھکانے آگئے اور لائن آف کنٹرول پر بلااشتعال حملوں کا سلسلہ تھم گیا اور رواں دور میں دونوں ممالک کے درمیان پانی کے تنازع کے خاتمے کیلئے عالمی بینک کے صدر کے مشورے کی رو سے مذاکرات کی تیاریاں جاری ہیں اس سے پہلے وزیراعظم کے مشیر برائے امور خارجہ سرتاج عزیز نے ہند پر واضح کیا ہے کہ 1960 ءمیں عالمی بینک کے تعاون سے طے پانے والے سندھ طاس معاہدے کو نہ تو منسوخ کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی اس معاہدے میں یکطرفہ ترمیم کی جاسکتی ہے۔ یہ معاہدہ دونوں ممالک کے درمیان جنگ کے دنوں میں بھی قائم رہا اور ماضی کی ہندوستانی حکومتیں اس پر انگلی نہیں اٹھاسکیں ۔ یقین کیاجاتا ہے کہ ہند اس حوالے سے تازہ اعتراضات نہیں اٹھا سکے گا اور دونوں ممالک کے درمیان یہ تنازع پاکستان کی تشفی کے مطابق حل ہوجائے گا۔
یہ تمام صورتحال ایسے وقت میں برپا ہوئی ہے جب وزیراعظم کیخلاف پانامہ لیکس کے عنوانات کے تحت عدالت عظمیٰ میں مقدمہ دائر ہے جس کی سماعت نئے چیف جسٹس آف پاکستان کی آمد کے بعد دوبارہ شروع ہوگی۔ یہ مقدمہ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے دائر کیا ہے جن کیخلاف ان کی جماعت کے سابق صدر مخدوم جاوید ہاشمی نے یہ تہلکہ خیز انکشاف کیا ہے کہ وہ اپنے دھرنوں کی تحریک کے دوران 2014 ء میں 90 دنوں کیلئے مارشل لا لگوانا چاہتے تھے جس کی تیاریاں مکمل کی جاچکی تھیں۔ حزب اختلاف اور حزب اقتدار کے رہنما اس الزام کی تحقیقات کروانے کا مطالبہ کررہے ہیں۔ عمران خان نے اکیلے ہی حکومت گرانے کے مشن سے دستبردار ہوتے ہوئے پانامہ لیکس کیخلاف پیپلز پارٹی کو تعاون کی پیشکش کردی ہے اور حسب سابق پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کیخلاف طنز کے تیر چلاکر خود ہی اپنے پاوں پر کلہاڑی ماری ہے۔ انہی حالات میں عام انتخابات 2018 ء کے بجائے 2017 ء میں منعقد کروانے کے مطالبات کا جواب تو نہیں دیا مگر ان کیلئے یہ سوال سر اٹھا چکا ہے کہ وہ ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ شائع کریں یا نہیں اور اس رپورٹ کو حسب سابق سرکاری کاغذات میں دفن رہنے دیں۔ 
******

شیئر: