Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

درّایشیاـ۔۔۔۔ازبکستان

جدہ میں ازبکستان کے سابق ڈپٹی قونصل جنرل ایوب جان کے ہمراہ تاشقند ایئر پورٹ پر
الیکشن کمیشن کے اہلکار ایئرکن اور ترجمان میر جلال تاشقند پریس کلب میں
تاشقند میں ازبک سینیٹ کی عمارت
تاشقندمیں مدرسہ کوکلتاش کا بیرونی منظر
تاشقند میں ٹیکنیکل انسٹی ٹیو میں طلبہ کے بنائے ہوئے ماڈلز
قدیم تاشقند کا فضائی منظر
بخارا کی ایک سڑک پر مقامی شہری روٹی فروخت کررہے ہیں

کمیونسٹ برسو ں کے ظلم وجبر کے باوجود ازبکوں کی روایتی مہمان نوازی ختم نہ کر سکے ،ازبکستان کو قدرت نے بیش بہا خزانوں سے نوازا ہے ، خطے کو اشیاء کا موتی کہاجاتا ہے

 

ارسلان ہاشمی ۔ جدہ

      گزشتہ سے پیوستہ

(4)        

گزشتہ قسط میں بات ہو رہی تھی ان رسم و رواج اور خرافات کی جو کمیونسٹوں نے مسلمانوں میں پیدا کر دی تھیں ۔جن کے مطابق جس گھر میں میت ہو جاتی ہے ان گھر والوں کے ذمہ ہوتا ہے کہ وہ اہل علاقہ اور رشتہ داروں کیلئے 3 وقت کے کھانے کا اہتمام کرے اور میت گھر کے صحن یا اگر کھلا گھر نہیں ہے تو گھر کے باہر میدان میں خیمہ گاڑ کر وہاں میت کو رکھے تاکہ آنیوالے دیدار کرتے رہیں ۔ میت 3 دن تک وہاں رکھی جاتی اس دوران اگر صاحب خانہ مالدار ہو تو وہ پہلے دن گھوڑا ذبح کرے گا اور مہمانو ں کی تواضع کرے گا دوسرے دن گائے اور تیسرے دن دنبہ ذبح کر کے کھانے کا اہتمام کرے گا ۔ چوتھے دن میت سپرد خاک کی جائے گی ۔ اہل علاقہ نے بتایا کہ یہ رسم برسوں سے چل رہی ہے ۔

ہمیں تدفین کے لئے سرکاری اجازت نامہ نہیں ملے گا کیونکہ قبرکھودنے کیلئے اجازت نامہ درکار ہوتا ہے ۔ یہ سنکر میں پریشان ہو گیا ۔ میں نے ان سے کہا کہ ان باتوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں بلکہ اسلام میں تو سختی سے حکم دیا گیا ہے کہ میت کو فوری طور پر سپرد خاک کیا جائے ۔ میری بات سنکر محلے کے اکابرین جمع ہو گئے انہوں نے کہا ہمیں تو یہی بتایا گیا تھا اب کیا کر سکتے ہیں ۔ ایک معمر شخص نے کہا کہ ہم مجبور ہو گئے تھے برسوں سے جو نظام ہم پر مسلط رہا اس نے ہماری شناخت ختم کر دی ۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ میت کے لئے قبر کا بندوبست کریں اگر کچھ ہوتو مجھے سامنے کر دیں ۔ اہل خانہ کے چند افراد قبر کا انتظام کرنے چلے گئے کچھ دیر بعد ایک شخص آیا اس نے بتایا کہ پولیس نے علاقے کے ذمہ دار کو بلایا ہے کیونکہ قبر کھودنے کی اجازت وہی دیتا ہے ۔جب ذمہ دار آیا تو اہل محلہ نے مجھے آگے کرتے ہوئے کہا کہ یہ پاکستان سے آئے ہیں اور انکا کہنا ہے کہ میت کو فوری طور پر سپرد خاک کیا جائے ۔ ذمہ دار میری جانب آیا اورمجھ سے پوچھا کہ آپ کہاں سے آئے ہیں ؟ میں نے اسے بتایاکہ میں پاکستان سے آیا ہو ں اور جس رسم کے بارے میں مجھے معلوم ہوا ہے اس کا اسلام سے دوردور کا بھی تعلق نہیں بلکہ دین میں تو" اکرام میت "جس کے مطابق میت کو جلد از جلد سپر دخاک کردینا چاہئے ۔

ذمہ دار سے کافی دیر تک بات ہوتی رہی بالاخر وہ قائل ہو گیا ۔ اس نے پر نم آنکھوں کو رومال سے صاف کرتے ہوئے کہا ہم کو کن خرافات میں دھکیل دیا گیا ۔ہمیں تو معلو م ہی نہیں کہ ہم کہاں جارہے ہیں ۔میری آپ سے درخواست ہے کہ بیرونی دنیا کو بتائیں کہ وہ ہمیں دین کی درست فہم عطا کرے ۔ اور ہماری چھینی ہوئی میراث ہمیں لوٹائیں تاکہ ہم ان خرافات سے نکل سکیں ۔ ذمہ دار نے فوری طور پر قبر کھودنے کے احکامات جاری کر دیئے اس طرح ایک رسم کے خاتمے کا سبب بن سکا ۔ اس میں شک نہیں کہ اقوام کی ترقی کا سہرا سربراہان کے سر ہوتا ہے ۔ وہ قومیں خوش قسمت ہوتی ہیں جن کے سربراہ زیادہ سے زیادہ وقت ملک و قوم کی تعمیر پر خرچ کرتے ہیں ۔

1991 میں آزادی حاصل کرنے والی ازبک قوم نے محض 25 برس کی قلیل مدت میں کس طرح مثالی ترقی کی اسے دیکھ کر دل باغ باغ ہو جاتا ہے ۔ تعمیری ترقی دیکھ کر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ازبکستان کے سابق صدر اسلام کریم آف نے پوری توجہ ملک کی ترقی اور قوم کی خوشحالی پر مبذول رکھی۔جدہ میں ازبک قونصل جنرل اولوغ بیگ کی جانب سے جب مجھے دوبارہ دعوت دی گئی تو میں نے یہ سوچ کر جانے کی حامی بھر لی کہ جو باتیں سنتا رہا ہوں دیکھوںکہ ان میں کہا ں تک صداقت ہے ۔ ازبکستان کے سفر سے قبل میں بھی یہی سوچتا تھا کہ سابق صدر اسلام کریم آف اقتدار سے جمے بیٹھے ہیں وہ ڈکٹیٹر شپ کو جمہوریت کے لبادے میں لپیٹے ہوئے ہیں ۔

اس حقیقت کا ادراک ان کے انتقال کے بعد اس وقت ہوا جب حالیہ صدارتی انتخابات کا از خود مشاہدہ کیا اور جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ میرے خیالات کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ۔ ازبکوں کے نزدیک اسلام کریموف کا درجہ بابائے قوم کا ہے ۔ ایک ایسا قائد جس نے قوم کو بہت کچھ دیا اس سے بڑھ کر ملت اسلامیہ کا کھویا اور تلف شدہ سرمایہ جسے زار روس نے ہر ممکنہ حد تک مسلمانوں سے چھین لیا تھا۔ اسلام کریم آف نے اسے ملت کو دوبارہ لوٹا دیا ۔ صدیوں پرانے کھنڈرات جس سے مسلم قوم کی عظمت رفتہ کی جھلک نمایاں ہوتی تھی ان کی تجدید و مرمت کی۔ کمال یہ ہے کہ ازبکستان کے ہر شہر میں ما ورالنہر کی عظمت رفتہ کو اسی انداز میں تعمیر کروایا جس طرح اسے ماضی میں بنوایا گیا تھا ۔ ان تعمیرات کو دیکھ کر اس وقت کے مسلمانوں کی شوکت اور بلند ہمتی و عظمت کا اندازہ ہوتا ہے ۔بلند و بالا عمارتیں فن تعمیر کا منہ بولتا ثبوت ہیں ۔ازبکستان کو ایشیا کا موتی بلا وجہ نہیں کہا جاتا۔ اس خطے کو قدرت نے ہر نعمت سے نواز ا ہے ۔

تاشقند آمد

صدارتی انتخابات کی کوریج کیلئے جدہ سے ہماری فلائٹ براستہ دبئی سے تاشقند پہنچی ۔ لینڈ نگ سے قبل کپیٹن نے اعلان کیا کہ اس وقت درجہ حرارت 2 ڈگری سینٹی گریڈ ہے ۔ جہاز کا دروازہ کھلا اور ازبک فورسز کا ایک کرنل اور چند سادہ لباس میں افرادجہاز میں داخل ہوئے جنہوں نے ہمیں نہایت ادب و احترام سے خوش آمدید کہتے ہوئے کہا آپ لوگ جہاز کے ساتھ کھڑی بسوں میں سوار ہوجائیں ۔ ائیر ہوسٹس نے ہمیں اوور کوٹ دے دیئے تھے جس کی وجہ سے سرد موسم کا قدرے مقابلہ کیا جاسکا ۔ جہاز سے اتر کرہم ساتھ کھڑی بسوں میں سوار ہو گئے ایک بس میں 4افراد کو بٹھایا گیا بعدازاں بس ٹرمنل کی جانب روانہ ہوئی ۔ ٹرمنل سے باہر ائیر پورٹ اور ازبکستان کے مرکزی الیکشن کمیشن کے افسران موجود تھے جنہو ںنے ہمیں خوش آمدید کہتے ہوئے ٹرمنل کے وی آئی پی لائونج میں لے گئے وہاں ہماری تواضع گرم گرم ازبک قہوے اور میوے سے کی گئی ۔ ایک آفسر نے ہمارے پاسپورٹ لے لئے جو غالبا انٹری کرنے کیلئے لے گیا تھا ۔

ابھی میں لاونج میں بیٹھا قہوے کی چسکیاں لے رہا تھا کہ اچانک کسی نے مجھے میرے نام سے پکارا میں حیران تھا کہ یہاں کون ہے جو میرے نام سے واقف ہے جوں ہی مڑ کر دیکھا تو سامنے شناسا چہرے کو پایا ۔ یہ ایوب جان تھے جو 3 برس قبل جدہ میں ازبک قونصلیٹ میں وائس قونصل جنرل کے طور پرمتعین رہ چکے تھے ۔ ایوب جان سے اکثر و بیشتر جدہ میں ازبک قونصلیٹ میں ہی ملاقات رہتی تھی ۔ اجنبی سرزمین پر کوئی پرانا واقف کار مل جائے تو بڑی خوشی ہو تی ہے اسی وجہ سے انتہائی گرم جوشی سے ایوب سے ملے ۔ ایوب کا کہنا تھا کہ وہ تاشقند میںوزارت خارجہ میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ایوب کو خصوصی طور پر ائیر پورٹ پر بھیجا گیا تھا جو یقینا موجود ہ قونصل جنرل اولوغ بیگ کی ہدایات ہونگی( جس کی بعد میں ایوب نے تصدیق بھی کر دی) ۔ابھی ایوب سے حال احوال پوچھ ہی رہا تھا کہ ایک آفیسر میرے پاس آیا اور انتہائی احترام سے کہا کہ آپ کا سامان کو ن سا ہے اسے بتا دیں تاکہ آپکے ہوٹل پہنچا دیا جائے ۔ سامان کی نشاندہی کروائی جسے لوڈر نے ٹرالی پر ڈالا اور اس آفیسر نے پاسپورٹ میرے حوالے کر دیا ۔ ایوب اور دیگر افسران کے ساتھ جوں ہی لائونج کے دروازے سے باہر نکلے کوریڈو میں دو رویہ قطار بنائے چند افراد کھڑے تھے جنہوں نے ہمیں خوش آمدید کہا اور اسی دوران ایک شخص قطار سے نکلا اس نے اپنا تعارف کرواتے ہوئے کہا میرانام ایرکن جان ہے مجھے آپکی رہنمائی کی خدمت سونپی گئی ہے ۔ دوسری قطار میں ایک نوجوان آیا اس کا نام میر جمال تھا اسے میرے ترجمان کے طور پر کام کرنا تھا ۔ میں نے جمال کو ازبکی میں کہا کہ مجھے ترجمان کی ضرورت نہیں ۔ میر جمال نے حیرت سے کہا کہ آپ کوتو اچھی ازبکی آتی ہے۔ تو کیا میں آپکے ساتھ نہیں رہ سکتا ؟ میں نے اس سے کہا مجھے ترجمان کی ضرورت تو نہیں تاہم اگر آپ کو کسی قسم کا فائدہ ہو تو ضرور میرے ساتھ رہ سکتے ہیں ۔ میرے جواب پر وہ خوش ہو کر مجھ سے بغلگیر ہو گیا ۔ اس نے بتایاکہ وہ اسلامی یونیورسٹی کا طالب علم ہے عربی اور فارسی جانتا ہے ۔ واضح رہے الیکشن کمیشن کی جانب سے مختلف ممالک سے آنے والے مہمانوں کیلئے مختلف زبانیں جاننے والے ازبک طلباء کو ترجمان کے طور پر متعین کیا گیا تھا ۔

میرے رہنماـ" ایرکن آکا ــ" ( واضح رہے ازبکی میں آکا احتراما کہا جاتا ہے جس کے معنی بڑے بھائی کے ہیں ) نے مجھے پروگرام دیا جس کے مطابق ہمیں اگلی صبح بخارا جانا تھا ۔ جدہ روانگی سے قبل ہی دریافت کیا گیا تھا کہ ہم کو ن کون سے شہر جانا پسند کریں گے جس پر میں نے بخارا ، سمرقند اور نمگان لکھوایا تھا ۔ ہماری خواہش کو مدنظر رکھتے ہوئے میزبانوں نے پروگرام پہلے سے مرتب کر دیا تھا ۔ ایوب جان سے باتیں کرتے ہوئے باہر آئے جہاں گاڑی ہماری منتظر تھی سامان گاڑی میں رکھا جاچکا تھا ۔ ایرکان بخارا جانے کیلئے ٹکٹ کنفرم کرنے ائیر پورٹ کے اندر ہی رک گیا ۔

درجہ حرارت 2 ڈگری سینٹی گریڈ تھا جو ہمارے لئے بہت تھا جیکٹ کے باوجود یخ بستہ ہوا ہڈیوں میں گھسی جارہی تھی۔ ائیر پورٹ کی عمارت کے اطراف میں برف پڑی ہوئی تھی تاہم سڑک اور راہ داریوں پر برف کا نام ونشان نہیں تھا ۔ میر جمال نے بتایا کہ گزشتہ ہفتے شدید برف باری ہوئی تھی اس لئے سردی زیادہ ہو گئی ۔ برف سے ٹکرا کر آنے والی ہوا غیر معمولی طور پر سرد ہوتی ہے جو ہڈیوں میں گھستی محسوس ہو تی ہے ۔ میر جمال نے گاڑی کا دروازہ کھول کر مجھے کہا گاڑی میں بیٹھ جائیں ہوا کافی ٹھنڈی ہے میں نے اسے غنیمت جانا اور فورا گاڑی میں بیٹھ گیا ۔ گاڑی میں ہیٹر کی وجہ سے قدرے سکون کا احساس ہوا ۔ تھوڑی دیر بعدہی ایرکان آکا بھی آگئے انہو ںنے بتایا کہ کل صبح 7 بجے بخارا کیلئے ہماری پرواز بک ہو گئی اور ہمیں 6 بجے ایئر پورٹ کے لئے نکلنا ہو گا ۔ گاڑی تاشقند کی سڑکوں پر دوڑتی ہوئی کچھ ہی دیر میںہوٹل پہنچ گئی۔ ہوٹل کے استقبالیہ پر موجود اہلکاروں نے خوش آمدید کہتے ہوئے کمرے کی چابی دی اور سامان کمرے میں پہنچا دیا گیا ۔

٭اس نے پر نم آنکھوں کو رومال سے صاف کرتے ہوئے کہا ہم کو کن خرافات میں دھکیل دیا گیا

٭دنیا بھر سے آنے والے مہمانوں کیلئے ہوٹل میں پریس کلب کی سہولت مہیا کی گئی

شیئر: