Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستانی ٹیم اوربیٹسمینوں نےروایت بدلنےکی غلطی نہیں کی

 
پانچویں روز کے پہلے سیشن کے کھیل تک ڈرا کی جانب جا رہے میچ کا فیصلہ اچانک آخری دو سیشنز میں ہوجانا اس حقیقت کا عکاس ہے کہ پاکستان ٹیم واقعی دنیا کی سب سے غیر متوقع نتائج دینے والی ٹیم ہے، ماہرین
 
 جمیل سراج ۔۔ کراچی 
 
واہ ری پاکستان ٹیم تیری کون سی کل سیدھی ہے ؟ کسی کرکٹ ناقد نے صحیح کہا تھا یہ دنیا کی واحد ٹیم ہے جو کسی بھی وقت کچھ بھی کرسکتی ہے، میلبورن میں بالکل ایسا ہی ہوا جو میچ پانچویں روز کھانے کے وقفے تک ڈرا کی جانب جا رہا تھا آخری دو سیشنز میں ڈرامائی انداز میں فیصلہ کن ہوگیا، پاکستانی بیٹسمین اظہر علی پہلی باری میں نا قابل شکست رہتے ہوئے 205 رنز اسکور کرتے ہیں لیکن دوسری باری میں ان کی ٹیم کو اننگز اور اٹھارہ رنز سے شکست ہوجاتی ہے ، ایسی حیران کن کارکردگی بلکہ نا قابل یقین کھیل کی توقع کوئی صرف پاکستان ٹیم سے ہی کرسکتاہے، آسٹریلیا نے پاکستان کو چاروں شانے چت کرکے دوسرا ٹیسٹ بھی جیت لیا ،میلبورن ٹیسٹ کے آخری دو سیشنز کے کھیل جو پاکستان ٹیم کی مایوسی کی مکمل تصویر کہلائے گی مدتوں یاد رہے گی،پاکستان کی آسٹریلیا کے خلاف دوسرے ٹیسٹ میں ڈرامائی شکست دراصل مصباح الحق اینڈ کمپنی کی مسلسل پانچویں ہار تھی جو عالمی رینکنگ کی ٹاپ تھری ٹیم ہونے کے ناطے کسی طرح اس کے شایان شان کہلانے کے لائق نہیں۔
اس ناکامی کا اعتراف خود قومی کپتان نے میچ کے بعد اپنے اختتامی کلمات میں کئے، جن کا یہ کہنا تھا کہ ٹیم کی کارکردگی میں تسلسل تو پیدا نہ ہوسکا البتہ ہماری شکستوں کا سلسلہ یقینا دراز ہوگیا کہ مجھ جیسا مضبوط اعصاب رکھنے والاکرکٹر بھی ٹیم کی قیادت چھوڑنے کی باتیں کرنے لگا، اس سے قومی ٹیم کی حساسیت کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے، وہ میچ جو پانچویں روز کے پہلے سیشن کے کھیل تک ڈرا کی جانب جا رہا تھا ،کا فیصلہ اچانک آخری دو سیشنز میں ہوجانا اس حقیقت کا عکاس ہے کہ پاکستان ٹیم واقعی دنیا کی سب سے غیر متوقع نتائج دینے والی ٹیم ہے، جس طرح قومی ٹیم، شائقین اور ناقدین کیلئے میچ کا نتیجہ کسی ڈراونے خواب سے کم نہیں تھا، اسی طرح پاکستان کرکٹ بورڈ حکام کیلئے کوئی بڑی بات نہیں ، پی سی بی ایگزیکٹیو کمیٹی کے سربراہ نجم سیٹھی نے ایک گفتگو میں ایسے ہی خیالات کا اظہار کرتے ہوئے برجستہ کہا، یہ کوئی نئی بات نہیں، ہماری ٹیم ایسے ہی نتائج کیلئے دنیا بھر میں مشہور ہے، ہمارے یہی کرکٹرز اگرانگلینڈ کو انگلینڈ میں ہراسکتے ہیں، متحدہ عرب امارات میں ویسٹ انڈیز سمیت دیگر ٹیموں کو بری طرح ٹھکانے لگاسکتے ہیں توایسے نتائج بھی دے سکتے ہیں ،اب اگر ان کی کارکردگی نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کی غیر مانوس کنڈیشنز میں اس قسم کی آرہی ہے تو اسے بھی سب کو کھلے دل سے قبو ل کرناچاہئے۔
جہاں تک کپتان مصباح الحق کی کپتانی اور یونس خان کی ریٹائرمنٹ کا سوال ہے تو اس پر یہی کہوں گا اس کا فیصلہ ان دونوں کرکٹرز کو خود کرنا ہے، پی سی بی کے چیئرمین شہریار خان کا بھی یہی کہنا ہے کہ مصباح الحق ہوں یا سینئر بیٹسمین یونس خان ٹیم میں برقرار رہنے یا نہ رہنے کا انحصار ان کے اپنے صوابدید پرہے، مجھے بڑی امید ہے کہ آنے والے وقتوں میں یہی ٹیم بہتر سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرے گی اس لئے کہ اس میں اچھا کھیلنے کی اہلیت بدرجہ اتم موجود ہے۔ سابق چیئرمین پی سی بی خالد محمود اور سابق چیف سلیکٹر پی سی بی عبدالقادر کا کہنا تھا کہ جب ٹیم کو مشکل حالات میں کھیلنے کاتجربہ نہیں ہوگا تو اس کی کارکردگی میں تسلسل لانا گویا ”جوئے شیر “ لانے کے مترادف ہوگا،اس قدر غیر متوقع کھیل جس کا کسی کو وہم و گمان بھی نہ ہو ، جب اس قسم کی مایوس کن کارکردگی قومی کرکٹرز کی جانب سے تسلسل کے ساتھ سامنے آئے گی تو اس پر تنقیدوں کا نہ تھمنے والا سلسلہ بھی شروع ہوگا، کپتان کی قائدانہ صلاحیتوں سمیت کھلاڑیوں کی تکنیک پر سب کی انگلیاں بھی اٹھیں گی،کہ یہی ہے دستور دنیا، ٹیم کی اس شرمناک شکستوں پر مصباح الحق کی کپتانی پر تنقید کرنے میں ناقد کو حق بجانب تصورکرنا بھی قاعدے کی رو سے درست معلوم ہوتا ہے۔
ماہرین میں محمد یوسف، شعیب اختر، سکندر بخت اور نظر انداز کئے گئے ٹیسٹ کرکٹرز تنویر احمد اور عاصم کمال نے بھی پاکستان کی اس غیر ذمہ دارانہ رویوں پر قومی سلیکشن پالیسی اور ٹیم انتظامیہ کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ جس طرح ہم کھیل کے آخری دو سیشنز میں آسٹریلوی ٹیم کے جال میں پھنس کر بری طرح ناکام ہوئے اس پر عقل حیران اور چشم پریشان ہے،ایک کے بعد ایک کھلاڑی کریز پر آتا ، جاتا رہا ، کسی نے وکٹ پر ٹھہر کر وقت گزارنے کی کوشش نہیں کی، اگر سب نہیں تو کوئی دو بیٹسمین بھی وقت ضائع کرنے کی حکمت عملی پر کھیلنے کی کوشش کرتے تو عین ممکن تھا شکست کا مارجن کم ہوتا،اس قدر بری طرح اننگز کی مار نہ پڑتی۔
مسلسل شکستوں سے دلبرداشتہ کپتان کاآئندہ چند روز میں ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہونے کے فیصلے سے ٹیم کامورال مزید گرا،جس کاکھلاڑیوں پرمنفی اثرات کے علاوہ تیسرے ٹیسٹ کے نتائج پر بھی پڑسکتا ہے، انہیں جذبات میں اس قسم کا بیان دینے سے گریزکرنا چاہئے تھا، ممکن ہے انہیں بحیثیت کپتان اس بیان کی حساسیت کااندازہ نہ ہوسکا ہو، ماہرین نے سینئر بیٹسمین یونس خان کی مجموعی کارکردگی کو بھی ٹیم کی تباہی کے ایک اہم سبب کے طور پر دیکھا ،انہیں خود کو مکمل بیٹسمین کی حیثیت سے ایک یاد گار اننگز کھیل کر ٹیم کو اس تباہی سے بچانے میں کلیدی کردار ادا کرنا چاہئے تھا، لیکن انہوں نے بھی شائد دیگر کھلاڑیوں کی طرح ناکامیوں کا نزلہ آسٹریلوی حالات پر گرا یا جو ان جیسے کرکٹر کو ہرگز زیب نہیں دیتی،انہیں اس ناکامی کا اعتراف باقاعدہ میڈیا میں آکر کرنا چاہئے تھا جس پر انہیں یقینا اچھے لفظوں کے ساتھ یاد رکھا جاتا لیکن اس شکست پر وہ بھی اس اہم ذمہ داری کو نبھانے سے گویا قاصر رہے۔
جہاں تک اسد شفیق کا سوال ہے تومیلبورن میں انہیں بھی سنبھلنے کا موقع نہ دیا اور وہ بھی اپنی کارکردگی کو نہ دہرا سکے جس کا انہیںبھی یقینا قلق رہے گا،اسد شفیق کوبھی اپنے کپتان کی بے بسی پر کچھ رحم آیا ہوگا لیکن یہ سب باتوں کا دہرانا اب بے معنی ہے، سابق چیف سلیکٹر صلاح الدین احمد عرف صلو بھائی نے کہا ،شکست پر سب یہی کہیں گے کہ ”ٹیم کی کا رکردگی میںتسلسل کا فقدان ہی ہماری تنزلی کا اصل سبب ہے اس کے علاوہ کپتان کی قائدانہ صلاحیتوں پر بھی کسی کو انگلیاں اٹھانے سے روکا نہیں جا سکتا اس کی بنیادی وجہ یہ کہ ہماری بیٹنگ میں موجود خامیوںکو تاحال ختم نہیں کیا جاسکا جب تک اس اہم خامی کی مکمل بیخ کنی نہیں ہوگی ہم ہر مشکل کنڈیشنز میں ایسی شرمناک کارکردگی دیتے رہیں گے۔
قومی ٹیم کی گزشتہ پانچ ٹیسٹ میچوں کی کارکردگی پر معروف مبصر اور سابق کپتان رمیز حسن راجہ کا کہنا تھا کہ پاکستان ٹیم پر لب کشائی مشکل ہے، جہاں تک ہماری ڈرامائی ہار کی بات ہے تو اس میں بیٹسمین ہی نہیں ہمارے بولرز بھی برابر کے شریک جرم ہیں،انہیں میلبورن کی کنڈیشنز اور کینگرو ٹیم کی طرف سے پڑنے والے اچانک دباو میں ذمہ داری نبھانا نہیں آئی جو ہماری ہار کی وجہ بنی، اب اس سطح پر کرکٹرز کو کوئی کچھ نہیں سیکھا سکتا، البتہ اظہر علی، اسد شفیق اور بابراعظم جیسے کھلاڑیوں پر اگر توجہ دی جائے تو یہ اثاثہ ثابت ہوسکتے ۔
******

شیئر: