Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جمہوریت کی انکساری ،طرے بازی کی نذر

طرم خاں قسم کے لوگ ہر جگہ موجود ہیں جو ہوائی فائرنگ جیسی قانونی خلاف ورزیوں کو اپنا جبلی حق سمجھتے ہیں، پولیس کا تو نام ہی اب’’ مک مکا ‘‘ہوچکا ہے

تسنیم امجد ۔ ریاض

ہم ایک آزاد اسلامی ریاست کے باسی ہیں جہاں ہم اپنی مرضی سے اپنی زندگی کی راہیں متعین کرسکتے ہیں لیکن افسوس ہم نے اپنے وجود کو اپنی پہچان کے مطابق ڈھالنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ جدید دور کے تقاضوں کو اغیار کی روایات کے سپرد کرڈالا۔ جدید دور کے جدید انسان ستاروںپر کمند ڈالنے کے خواب ضروردیکھتے ہیں لیکن وہ عمل جو کمندوں کیلئے ضروری ہوتا ہے، اس سے گریزاںرہتے ہیں۔ ایک سروے کے مطابق وطن میں2کروڑ افراد کے پاس کسی نہ کسی صورت میں ہتھیار ہیں، موجودہ قوانین کے مطابق وفاقی اور صوبائی حکومتیں لائسنس کا اجراء کرتی ہیں۔فیس اور اس کی مدت، شرائط میں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ دو قسم کے لائسنس بھی ہوتے ہیں ایک میں انہیں بھر کر رکھنا اور دوسرے میں خالی رکھنا ہے لیکن عموماً لوگ قوانین کا احترام نہیں کرتے اور ’’لوڈڈ اسلحہ‘‘ لئے پھرتے ہیں۔ ملکی قوانین میں طلباء کے ہوسٹلوں ، سیاسی و مذہبی اجتماعات اور عدالتوں میں کسی قسم کا اسلحہ ممنوع ہے۔ اس کی خلاف ورزی پر 7برس قید کا قانون موجود ہے ۔

2010ء میں اس سلسلے میں غیرقانونی اسلحہ رکھنے والوں نے 89000بندوقیں اور پستول خود ہی متعلقہ حکام کے حوالے کئے ۔ ہر صوبے میں اس اسلحے کو ضائع کردیا گیا جو اندازاً 641107کی تعداد میں تھا۔ قبائلی علاقوں اور خیبرپختونخوا کے سوااسلحہ بغیر اجازت لے کر چلنے پر پابندی ہے ۔ اس مختصر تحریر کا مقصد وطن کے قوانین کی وضاحت ہے۔ ان قوانین کے باوجود ہمارے ہاںخلاف ورزیاں عام ہیں۔ دیہی علاقوں میں اکثر رات کو چوکیدار یا گھر کا کوئی مرد حفاظت کے لئے بھری بندوق یا پستول پاس رکھ کر سوتا ہے۔ ایک خاتون کا کہنا ہے کہ اکثر ہمارے گاؤں میں ذاتی مویشیوں یعنی گائے، بھینس یا بیل و بکریوں کو چوری کرنے کی وارداتیں ہوتی ہیں۔ چور نہایت چابکدستی سے ان کا منہ باندھ کر اور کھُر یعنی پاؤں میں بھی کوئی مختلف شکل کی شے یعنی سانچہ چڑھا کر کسی بڑی سواری پر لاد کر لے جاتے ہیں۔ اس سلسلے میں گاؤں کے کھوجی نہات مہارت سے کھوج لگالیتے ہیں وگرنہ اکثر نقصان بھی ہوجاتا ہے، انہیںبیچ بچا کر دم لیا جاتا ہے ایسے کہ ’’چوری دا مال تے لاٹھیا ں دے گز‘‘ حال ہی میں ہمارے پڑوسی کا بارہ ، 13 برس کا بچہ بمشکل متاثرہ پارٹی کی منت سماجت کر کے اور پیسہ ویسہ دے کر قانونی گرفت سے بچا ۔

ہوا یوں کہ وہ اپنے بابا کی گن لے کرگیٹ پر کھڑے چوکیدار کو مذاق میں نشانہ بنانے لگا ۔ کھیل ہی کھیل میں گولی چوکیدار کی کنپٹی پر جالگی اور وہ وہیں ختم ہوگیا۔ اس کے بعد کی کہانی شاید لکھنے کی ضرورت نہیں۔آپ سمجھ سکتے ہیں پڑوسی کو کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑے۔ ہاسٹلوں میں بھی اکثر ایسے واقعات سننے کو ملتے ہیں جب امیر والدین کی بگڑی ماڈرن اولادیں اپنی شان دکھانے کیلئے اسلحہ رکھنا ضروری سمجھتی ہیں۔حقیقت تو یہ ہے کہ کل اور آج میں بڑا فرق آگیا ہے۔

آج جو ہورہا ہے ، وہ کل نہیں ہوتا تھا۔ طرم خاں قسم کے لوگ ہر جگہ موجود ہیں جو ہوائی فائرنگ جیسی قانونی خلاف ورزیوں کو اپنا جبلی حق سمجھتے ہیں ۔ پولیس کا تو نام ہی اب’’ مک مکا ‘‘ہوچکا ہے۔ کاش معاشرے میں امتیازی حیثیت کے یہ لوگ اپنی پھنے خانی چھوڑدیں۔ یہ لوگ اکثر دوسروں کو سمجھانے کیلئے لمبی لمبی تقریریں کرتے ہیں لیکن اپنے گریبان میں نہیں جھانکتے۔ پارٹی بازی اور سیاسی دھاک کے لئے اسلحہ اور ہوائی فائرنگ نا گزیرسمجھی جاتی ہے ، جمہوریت کی انکساری ،طرے بازی کی نذر ہوچکی ہے۔ہمارے ہاں اکثر قوانین صرف توڑنے کیلئے بنائے جاتے ہیں۔ معاشرہ قوم کی پہچان ہوتا ہے۔ باشعور انتظامیہ اپنے معاشرے کیلئے تن من دھن سے کام کرتی ہے۔ کاش ہمارے صاحبان غور کریں کہ برسوں قبل علامہ اقبال نے کہا تھاکہ:

سبب کچھ اور ہے، تو جس کو خود سمجھتا ہے

زوال بندۂ مومن کا بے زری سے نہیں

اگر جہاں میں مرا جوہر آشکار ہوا

قلندری سے ہوا ہے، تو نگری سے نہیں

ہم مغرب کی تقلید میں یہ بھول جاتے ہیں کہ وہاں حق تلفیاں نہیں ہوتیں، پارکوں اور مال گاڑی کے ڈبوں میں سونے والے بھی اپنی قابلیت و ذہانت کو منوانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ ’’جیک لندن‘‘ کی مثال درخشاں ہے جس نے بھوکا رہنے کے باوجود مغربی امریکہ میں ناموری کا اعزاز حاصل کیا۔ یہ ادبی دنیا کا اہم نام ہے۔ اس کی کتابیں آج بھی یورپ میں مشہور ہیں۔ ہیلن کیلر نے اپنے کارناموں کی بدولت نپولین کی سی شہرت کمائی حالانکہ وہ اندھی، بہری اور گونگی تھی۔ اس وسیع دنیا میں 6ارب انسان بستے ہیں لیکن کامیاب انسانوں کی فہرست بہت مختصر ہے۔ ہمیں ان کے حالات زندگی سے رہنمائی حاصل کرنی چاہئے۔

شیئر: