Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

”تڑکا“

 
اسکول اُس مقام کو کہتے ہیں جہاں اچھی خاصی پختہ عمر کے مرد و خواتین جنہیں بالترتیب استاد اور استانیاں کہا جاتا ہے، وہ اپنے سے بلحاظِ عمرکہیں چھوٹے، انتہائی ناسمجھ اور بے حد معصوم بچوں کو زندگی کی ابجدسے آشنا کرتے ہیں
 
شہزاد اعظم
 
اسکول اُس مقام کو کہتے ہیں جہاں اچھی خاصی پختہ عمر کے مرد و خواتین جنہیں بالترتیب استاد اور استانیاں کہا جاتا ہے، وہ اپنے سے بلحاظِ عمرکہیں چھوٹے، انتہائی ناسمجھ اور بے حد معصوم بچوں کو زندگی کی ابجدسے آشنا کرتے ہیں۔یہ معصوم ، اُن تجربہ کار ہستیوں کے انداز و اطوار، گفتارو کردار، برہمی و پیار،انکار و اقرار،ہنسی ٹھٹھہ اور توتکارکا بغور جائزہ لیتے ہیں اور ان جیسی حرکتیں کر کے ان جیسے بننے کی کوشش کرتے ہیںکیونکہ وہ اپنے استاد وں اور استانیوں کو ہی قابل رشک ہستیاں سمجھتے ہیں۔ ان ہستیوں سے بچے علم و آگہی سیکھتے ہیں۔ آگہی کئی قسم کی ہوتی ہے ۔ ایک آگہی ایسی ہوتی ہے جو خود بخود ذہن پر نقش ہو جاتی ہے۔ اس کے لئے نہ تو سیکھنے والے کو مشکل ہوتی ہے اور نہ ہی سکھانے والے یا سکھانے والی کومحنت کرنی پڑتی ہے۔دوسری قسم کی آگہی ایسی ہوتی ہے جو آسانی سے سمجھ میں نہیں آتی۔ بچہ اسے سیکھنا یا جاننا چاہتا ہے چنانچہ وہ استانی کے پیچھے پڑ جاتا ہے کہ مس، مس! اس کا مطلب بتا دیں۔ مس قدرے جھنجھلاہٹ کا مظاہرہ کرتے ہوئے مطلب بتاتی ہیں اوربچے کو بات سمجھ میں آجاتی ہے۔ تیسری قسم کی آگہی وہ ہوتی ہے جو بچے کے ذہن میں فوری نہیں سماتی چنانچہ مس اسے بار بار سمجھاتی ہیں مگر ناکام رہتی ہیں بالآخر تنگ آ کر وہ چھڑی سے مدد لیتی ہیں ، بچے سے کہتی ہیں کہ ہاتھ سامنے لاو۔ وہ سوالی انداز میں ہاتھ سامنے لاتا ہے، مس اس کے ہاتھ پر چھڑی مارتی ہیں اور ”شڑاق“ کی آواز آتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی بچہ منہ پھاڑ کر پہلے چیختا چلاتا اور بعد ازاں روتا ہے۔ مس کو اس کے منہ سے نکلنے والی بھاں بھاںبالکل پسند نہیں آتی چنانچہ وہ باآوازِ بلند ”چپ کرو“کے ا لفاظ فضاوں میں بکھیرتی ہے اوراس کے ساتھ ہی زور دار طمانچہ معصوم کے گال پر رسید کرتی ہے جس سے ”پڑاق“ کی آواز آتی ہے۔ اسی اثناءمیں مس پھر کہتی ہے کہ دوسرا ہاتھ سامنے لاو۔ پھر وہی ”شڑاق“ کی صدا گونجتی ہے اور بچہ ایک مرتبہ پھر منہ پھاڑ کر چلاتا ہے کہ ”ہائے مر گیا ۔“مس پھر اس کا منہ بند کرانے کے لئے طمانچہ ٹکاتی ہے، ”پڑاق“ کی آواز نمودار ہوتی ہے ۔ کمرہ¿ جماعت میں بیٹھے دیگر بچے ان ”شراق، پڑاق“ کی آوازوں سے سہم جاتے ہیں۔چار 6روز تک ”شراق، پڑاق“کی مشقوں کے بعد بچے کوآگہی تو ہو ہی جاتی ہے مگر وہ مس سے کچھ کچھ نفرت بھی کرنے لگتا ہے اور اس کے دل سے آہ نکلتی ہے کہ کاش آپ کی شادی ایسے شخص سے ہو جو غصیلا ہوپھر آپ کے گھر سے بھی ”شراق، پڑاق“کی آوازیں آئیں۔
ایک مرتبہ ہماری” اسکولی حیات“ میں ایک ایسا لفظ آیا جو ہمیں سمجھ میں نہیں آیا، ہم نے استانی سے دریافت کیا ۔ لفظ تو اتنا مشکل یا ناقابلِ وضاحت نہیں تھاپھر بھی نجانے کیوں استانی نے ہمارے ساتھ ایسا سلوک کیا کہ کئی روز تک اسکول کی دیواروں کے کان ”شراق، پڑاق“ کی صدائیں سنتے رہے۔آج بھی ہمارا خیال ہے کہ استانی صاحبہ کو ہمارا بیان کر دہ لفظ سن کر نہیں بلکہ ہماراطرزِ استفسار دیکھ کرغصہ آیا ہوگا کیونکہ ہم نے کہا تھا کہ ”استانی صاحبہ!ایک لفظ ایسا بھی نظر نواز ہوا ہے کہ جو ہماری” فراست کے شایانِ شان“نہیں۔ ہم آپ سے اس کی تشریح دریافت کرنے کی جسارت کر رہے ہیں، وہ لفظ ”تڑکا“ ہے۔“یہ سن کر استانی نے تڑکا کے معانی تو نہیں سمجھائے البتہ ہماری درگت ضرور بنا ڈالی۔ انجام کار ہمیں آگہی یہ عطا ہوئی کہ ”تڑکا“پیاز ، لہسن، زیرے یا ایسی ہی کسی ذائقے دار شے کو گھی، مکھن یا تیل میں ہلکا سنہرا کر کے کسی پکوان کو داغنے کا عمل تڑکا کہلاتا ہے۔ اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اُس پکوان کے ہر نوالے میں اُن تمام اشیاءکی خوشبو اور ذائقہ محسوس ہونے لگتا ہے جو بنیادی طور پر اس پکوان میں موجود نہیں ہوتیں۔ اسکول کے بعد کی زندگی میں ہم نے ”تڑکے“ کا استعمال کسی اور انداز میں دیکھا جو”اسکولی زندگی“ میں فراہم کی جانے والی آگہی سے خاصا ہٹ کر تھا۔ ہوا یوں کہ بڑے ہو کر ہم نے بھی ایک اسکول میں تدریس کی ذمہ داریاں ادا کرنی شروع کر دیں۔ ہمیں 9ویں جماعت کا نگراں بنایا گیا۔ اسکول عروس البلاد میں تھا ، اتنا خوبصورت تھا کہ اسے ”عروس المدارس“ کہنا بے جا نہ ہوگا۔ اسکول کی پرنسپل نے نجانے کس طرح ہمارے اندروطن ا ور قومی زبان سے محبت جیسے عناصرکی موجودگی کا سراغ لگالیا چنانچہ ایک روز ہمیں اپنے دفتر میں بلا کر فرمایا کہ ”میں نے دیکھا ہے کہ آپ ریختگی سے بری طرح متاثر ہیں، اشعار کے اوزان اور بحور کے حوالے سے بھی شد بد رکھتے ہیںاس لئے میں تقریری مقابلہ کی کچھ ذمہ داریاں آپ کو سونپ رہی ہوں۔ بچے جو تقاریر لکھ کر لائیں گے انہیں آپ دیکھیں گے اور فیصلہ کریں گے کہ کون سی تقریر معیاری ہے اور کون سی نہیں؟تقریر کا عنوان ”میرے وطن“ ہے۔ “ پرنسپل کا کہا تھا، ہم کیسے ٹالتے؟ تین روز کے بعدپرنسپل نے طلبہ و طالبات کی لکھی ہوئی 12 تقاریر ہمیں لا کر دیں اور کہا کہ انہیں دیکھ کر مجھے واپس کر دیں۔ ہم نے ان تقاریر کو پڑھا تو ان میں سے کسی میں بھی وطن کا ذکر نہیں تھا۔ کسی نے فلم کی کہانی بیان کر رکھی تھی اور کسی نے چاند کی بڑھیا کے بارے میں اپنے خیالات بیان کر رکھے تھے۔ ہم یہ تمام تقریریں لے کر پرنسپل کے پاس گئے اور ان سے کہا کہ محترمہ ان میں وطن یا وطنیت جیسی کوئی شے سرے سے موجود ہی نہیں۔ یہ سن کر وہ آگ بگولہ ہوگئیں اور فرمانے لگیں کہ آپ کو تنخواہ نہیں ملتی؟ میں نے آپ سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ میں آپ کو ذمہ داریاں سونپ رہی ہوں۔ اگر یہ تقاریر بچوں نے لکھی ہیں، اسی لئے تو میں نے آپ سے کہا ہے کہ انہیں ٹھیک کریں۔میں نے مانا کہ اس میں وطن یا وطنیت سے متعلق کچھ نہیں مگر آپ انہیں ”وطنیت کا تڑکا“ لگا دیں۔ یہی آپ کی ذمہ داری ہے ۔“ ہم نے اپنی مشکل کا حل سمجھنے کے لئے بطور مثال ایک تقریر اٹھائی جس میں ”میرے وطن“ کے زیر عنوان10ویں جماعت کی ایک طالبہ نے لکھا تھاکہ ”پنجابی کا ایک گانا ہے جس کے بول ہیں ”میں اُڈی اُڈی جاواں ہوا دے نال۔“ہم نے کہا پرنسپل صاحبہ یہ بتائیے کہ اس تقریر میں وطنیت کیسے آئے گی؟انہوں نے کہا کہ” آپ انتہائی ناقص العقل ثابت ہوئے ہیں۔جہاں اس بچی نے”ہوا دے نال “ لکھا ہے وہیں آپ وطنیت کا تڑکا یوں لگائیں کہ ”ہوا “ وہ شے ہے جس میں پرندے اُڑتے ہیں، ان پرندوں میں شاہین بھی ہے جسے ذہین و فطین پرند قرار دیا جاتا ہے۔ شاعر مشرق نے مسلم نوجوانوں کو شاہین کہہ کر مخاطب کیا ہے۔ انہوں نے ایک شعر میں کہا ہے کہ ”شاہیں کبھی پرواز سے تھک کر نہیں گرتا۔“ہمارے نوجوان بھی علامہ کے شاہین ہیں۔“ یہ کہہ کر آپ اس تقریر میں وطن کا تڑکا بآسانی لگا سکتے ہیں۔ یوں تقریر کے نام پر لکھی گئی یہ فلمی کہانی” میرے وطن“ پر لکھی تحریر شمار ہو سکے گی۔“
کل ہم نے ”تڑکا“ ایک ا ور اہم مقام پر استعمال ہوتے سنا۔ ایک انتہائی اہم عہدیدار ٹی وی پر فرما رہے تھے کہ ہماری بدقسمتی یہ رہی ہے کہ ہمارے ملک میں جب بھی آمریت آئی تو اسے جمہوریت کا تڑکا لگایا گیا اورجب جمہوریت آئی تو اس کو آمریت کا تڑکا لگا دیا ۔ یوں ہمارے ہاںنظام تو کچھ اور ہوتا ہے مگرہر صاحب اختیار اپنی مرضی کا تڑکا لگا کر عوام کو بہلاتا رہتا ہے۔نجانے ہم تڑکوں پر کب تک گزارہ کریں گے؟
******

شیئر: