Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پرانے الزامات، سچا اور جھوٹا کون؟

 
عسکری ادارے ریاستی سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں کی کمزوریوں سے بخوبی واقف ہیں، سینیئر سیاستدان جاوید ہاشمی اور تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان پھر ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہوگئے
 
ارشادمحمود
 
  سینیئر سیاستدان جاوید ہاشمی او ر تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان پھر صف آراءہوگئے۔ جاوید ہاشمی نے وہی پرانی باتیں دہرائیں کہ عمران خان عسکری اداروں یا ان کی اعلیٰ قیادت کی شہ پر اسلام آباد میں (ن) لیگ کی حکومت کے خلاف دھرنا دینے نکلے تھے۔ انہوں نے مختلف جنرلوں کے نام بھی لئے بقول ان کے جو عمران خان کی پشت پناہی کررہے تھے۔سینیٹرمشاہداللہ خان نے بھی جاوید ہاشمی کی تائید کی اورکہا کہ انٹیلی جنس بیورو نے ایسی خفیہ گفتگو ریکارڈ کی تھی جس میں فوجی افسر حکومت کے خلاف بات کررہے تھے۔ عمران خان نے اپنے مخصوص لب ولہجہ میں کہا کہ جاوید ہاشمی کا دماغی توازن خراب ہوگیا ہے جو وہ ایسی باتیں کررہے ہیں۔ یہ ساری کوئی بے سروپا گفتگو نہیں تھی اور نہ محض بیان بازی کہ نظراندا کردی جائے لیکن دقت یہ ہے کہ دھرنا اور اس کے پس منظرمیں کارفرما محرکات کا کھوج لگانا کوئی سہل کام نہیں۔ یہ معمہ تھا جو پراسرایت کی چادر تانے ہوئے ہے اورشاید ہی کبھی حقائق سے پردہ اٹھ سکے۔اس ملک میں لیاقت علی خان کے قتل سے لے کر پانا مہ کیس تک کسی بھی متنازعہ مسئلہ کی شفاف تحقیقات کی کوئی رویت نہیں جو تحقیقات ہوتی ہیں انکے نتائج سے شہریوں کو آگاہ کرنے کی زحمت تک نہیں کی جاتی۔ مجھے اس مطالبہ میں کوئی دم نظر نہیں آتاکہ ایک اورعدالتی کمیشن بناکر یہ معاملہ اس کے سپرد کردیا جائے۔ یہ کمیشن بھی کئی ماہ تک میڈیا میں خبروں کی زینت بنا رہے گا اور اس کے بعد ڈھاک کے وہی تین پات۔
تحریک انصاف نے روزاول سے یہ حکمت عملی اختیار کئے رکھی کہ وہ ن لیگ کو ملک پر آسانی کے ساتھ حکومت نہیں کرنے دے گی۔ لگ بھگ گزشتہ4 برس میں تحریک انصاف نے ہر محاذ پر حکومت کے لئے مشکلات کھڑی کیں۔کہتے ہیں نا کہ محبت اور نفرت میں سب جائزہوتاہے۔ دھرنابھی ن لیگ کی حکومت گرانے کی ایک کوشش تھی۔ اس میں تحریک انصاف کو کچھ اداروں کے اعلیٰ عہدےداران کی انفرادی سطح پر حمایت حاصل تھی لیکن فوج بطور ادارہ اس میں ملوث نہیں تھی۔بعدازاں جنرل راحیل شریف نے حکومت کو بچانے اور اسے محفوظ راستہ دینے میں بھی کردار ادا کیا لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ فوج کے اندر تحریک انصاف کے لیے نرم گوشہ پایاجاتاتھا اور بلامبالغہ یہ کہا جاسکتاہے کہ اب بھی کسی نہ کسی حد تک یہ نرم گوشہ موجود ہے چونکہ ن لیگ اور پیپلزپارٹی کے ساتھ اسٹبشلمنٹ کے تلخ تعلقات اور محاذ آرائی کی اپنی ایک تاریخ ہے۔
یہ حقیقت پیش نظر رہنی چاہیے کہ عسکری اداروں نے اس ملک پر طویل عرصہ تک بلاشرکت غیرے حکومت کی ہے۔ وہ ریاستی اور سیاسی نظام کی باریکیوں سے بخوبی آگاہ ہیں۔ سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں کی کمزوریوں سے بھی بخوبی واقف ہیں۔سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد عسکری اداروں میں شعوری طور پر سیاستدانوں کی اہلیت اور ان کے کردار کے بارے میں ایک منفی رائے بنائی گئی۔ وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹا گیا تو اس کے پس منظر میں بھی مشرقی پاکستان میں ہونے والی ناقابل فراموش شکست ایک سبب ضرور تھی جہاں بھٹو صاحب کے کردار کو منفی انداز میں اجاگر کیا گیا۔ یہ تاثر ابھارا گیا جیسے کہ وہ پاکستان دولخت کرانے کے ذمہ دار ہوں۔
سیاستدانوں کے خلاف ضیاءالحق کے زمانے میں ایک شعوری اور منظم مہم چلائی گئی بلکہ حقیقت یہ کہ انہیں منظم طر یقے سے کرپٹ بھی کیا گیا۔ بلاجوازبینکوں کے قرضے معااف کئے گئے۔قیمتی پلاٹ مال مفت دل بے رحم کی ما نند بانٹے گئے حتیٰ کہ محمد خان جونیجو نے ہر رکن اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز بھی فراہم کردیئے۔ اسی طرح بلدیاتی اداروں کی ذمہ داریاں بھی ارکان اسمبلی نے سنبھال لیں۔90 کی دہائی میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ اور اس کی حلیف جماعتوں کے درمیان زبردست سیاسی کشمکش برپاہوئی۔اسٹبلشمنٹ نے اس موقع پر اپنا وزن نواز شریف کے حق میں ڈالا۔نقد ر قوم سیاستدانوں میں تقسیم کی گئی جس کا وہ برملا اعتراف کرچکے ہیں۔لیکن کسی کا کوئی مواخذہ نہیں ہوا۔اب گزشتہ8 برسوںسے ماضی کے برعکس فوج کا سیاسی کردار محدود ہوچکا ہے۔ وہ بڑی حد تک پس منظر میں چلی گئی ہے لیکن چونکہ ملک میں دہشت گردی کے خلاف ایک ناختم ہونے والی جنگ جاری ہے لہذا فطری طور پر اس جنگ کے خلاف پہلا دفاعی حصار فوج ہے لہذا وہ ملکی معاملات میں نمایاں کردار ادا کرتی نظر آتی ہے۔جنرل راحیل شریف نے دہشت گردوں کے خلاف دلیرانہ کارروائیاں کیں اور ملک میں امن وامان کی بحالی کو ممکن بنایا۔کراچی میں ایم کیوایم اور پیپلزپارٹی کے عدم تعاون کے باوجود دہشت گردی کے خلاف جہاد جاری رکھا اور نمایاں کامیابیاں حاصل کیں۔ الطاف حسین جیسے جن کو بوتل میں بند کرنا اور اسے سیاسی طور پر غیر موثر کرنا غیرمعمولی کامیابی ہے جس کی تحسین کی جانی چاہئے۔ 
بدقسمتی کے ساتھ ہند اور افغانستان کے ساتھ سرحدوں پر کشیدگی نہ صرف برقرار ہے بلکہ گزشتہ ایک برس کے دوران یہ کشیدگی غیر معمولی طور پر بڑھی ہے چنانچہ عسکری قیادت کو نہ صرف سرحدوں پر چوکس ہونا پڑا بلکہ وہ داخلی سیاسی معاملات کو بھی سلامتی کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔افغانستان میں امریکہ کی موجودگی کی بدولت بھی سیکیورٹی فورسز کی رائے فیصلہ سازی کے معاملے میں مقدم بن جاتی ہے۔
کوئی پسند کرے یا نہ لیکن پاکستان کا جغرافیہ اوراس کو درپیش سلامتی کے چیلنجز اس کے عسکری اداروں کی طاقت اور قومی معاملات میں اثر ونفود کو غیر معمولی طورپر بڑھا دیتے ہیں۔ اس صورت حال سے نکلنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ خطے میں امن قائم ہو اور ہمسا یہ ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات استوار ہوں۔ سویلین حکومتوں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ خطے میں امن کے قیام کے لئے کوئی قابل عمل حکمت عملی نہیں بناسکے۔
اکثرسیاستدان جو کسی طرح ایوان اقتدار میں پہنچ جاتے ہیں محنت اور ریاضت سے اپنی جگہ بنانے اور ریاست کے سویلین اداروں پر عوام کا اعتماد بحال کرانے کی کوشش ہی نہیں کرتے۔ایک تو سیاستدانوں میں پیشہ ورانہ تربیت کی کمی ہے۔ دوسرا ملک میں اکثر سیاستدانوں کی ترجیح اول مال بٹورنا ہے۔ اس کام میں وہ جائز اورناجائز کی تمیز بھی روا نہیں رکھتے۔پورے ملک کا سرسری جائزہ لیں تو واضح نظر آتاہے کہ بہت کم وزراءایسے ہیں جنہوں نے گزشتہ سالوں میں کوئی متاثر کن کارکردگی دکھائی ہے۔ اسٹیل مل کو دیکھیں توقرض اور خسارے میں ڈوب چکی ہے۔پاکستان ائیر لائن، پی آئی اے کا یہ عالم ہے کہ شہری اس کے نام سے خوف کھاتے ہیں۔سرکاری تعلیمی داروں اور اسپتالوں کو دیکھیں تو کوئی شریف آدمی ان کا رخ کرنا پسند نہیں کرتا۔تھانے اور کچہری کا ذکر ہی کیا۔اللہ تعالیٰ دشمن کو بھی بے رحم معالجوں اور محافظوں کے نگر کی یاترا سے محفوظ رکھے۔
سرکاری ادارے جب شہریوں کو خدمات فراہم کرتے ہیں اور نہ اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں تو لوگ فوج کی طرف امید کی آخری کرن کے طور پر دیکھتے ہیں۔ اس موقع پرسیاستدانوں یا حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ بجائے حسد اور دکھ کے اپنی کارکردگی اور رفتار بہتر کرنے کی جانب متوجہ ہوں۔اگروہ خدمت کو اپناشعار بنائیں تومحض چند سالوں کے اندر لوگ ان پر اعتماد کرنا شروع ہوجائیں گے۔اگر موٹروے پولیس پر شہری اندھا اعتماد کرسکتے ہیں تو باقی اداروں پر کیوں نہیں؟ایک مرتبہ سویلین اداروں کو شہریوں کا اعتماد حاصل ہوگیا تو پھر اس ملک میں کوئی طالع آزما ماورائے آئین کوئی قدم اٹھانے کا تصور بھی نہیں کرسکے گا۔ترکی کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ شہریوں نے اپنی جانوں پر کھیل کر اپنے حکمرانوں کی حفاظت کی۔
اب اس بحث میں پڑنے کا کوئی فائدہ نہیں کہ کون سچااور کون جھوٹاہے۔ نہ ہی عدالتی کمیشن بنانے کا کوئی فائدہ ہے۔ یہ وہی ملک ہے جہاں پروپز مشرف نے مارشل لاءلگانے کے سوا کئی ایک اور ایسے اقدامات بھی کئے جن کی سزا کال کوٹھری کے سوا کچھ نہ تھی لیکن موصوف کسی رکاوٹ کے بغیر ملک سے باہر چلے گئے۔ان کا کوئی بال بیکا نہ کرسکا تو دھرنے والوں کی پشت پناہی کرنے والوں کو کون پکڑے گا۔
******

شیئر: