Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ساس، بہو،نند،زہریلے رشتے، مردانہ ورژن کیوں نہیں

عورت ایسا وجود ہے جو رشتوں کی تلخی کو محبت کی شیرینی میں ڈھال سکتا ہے،رشتوں کی پہچان سے زندگی خوشگوار ہو جاتی ہے

تسنیم امجد ۔ ریاض

رشتوں کی پہچان سے زندگی خوشگوار ہو جاتی ہے۔ خصوصی طور پر ازدواجی زندگی میں دولہا اور دلہن زندگی کے نئے سفر کی شروعات کے ساتھ ہی نئے رشتوں میں بندھ جاتے ہیںجن میں زیادہ اہم ساس، نند، دیورانی اور جٹھانی کے رشتے ہیں جو عالمگیر بدنامی کے حامل ہیں۔ جب بھی ساس، بہو یا نند بھاوج کا ذکر ہوتا ہے تو خیالات میں ایسی خواتین کی شبیہ نمودار ہوتی ہے جو آپس میں ایک دوسرے سے لٹھم لٹھا ہو رہی ہوں۔ سوال یہ ہے کہ آخر یہ نسوانی رشتے ہی ہمیشہ اس قدر زہریلے کیوں ہوتے ہیں، ان کا مردانہ ورژن کبھی سامنے کیوں نہیں آتا؟سچ یہ ہے کہ ساس ، نند ، بھاوج، دیورانی ، جٹھانی جیسے الفاظ کاغذ پر لکھتے وقت منہ کا ذائقہ تلخ محسوس ہونے لگتا ہے۔یہ بات حقیقت ہے لیکن دوسرا سچ یہ بھی ہے کہ آج کل ان رشتوں میں خاصی ’’اہم تبدیلی‘‘ در آئی ہے ۔ ان کی تلخی میں کمی واقع ہو چکی ہے ۔ شایدآج کی دلہنوں کو ان ’’خوفناک رشتوں‘‘ سے نباہ کرنا آگیا ہے ۔

آج ہم صرف نند کا ذکر کریں گے جو گھر میں سب بہن بھائیوں میں چھوٹی ہوتی ہے، لاڈلی ہوتی ہے اور بھائی کی شادی کے بعد بھاوج کے لئے اس لئے ’’مشکل ‘‘ ثابت ہوتی ہے کیونکہ وہ بھائی کے منوں چڑھی ہونے کے ناتے ہر وقت سائے کی طرح اس کے ساتھ رہتی ہے۔بھائی بھابی گھر میں ہوں یا باہر جا رہے ہوں، اس نند کا ساتھ رہنا گویا ناگزیر ہوتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ اماں بھی سناتی رہتی ہیں کہ یہ بچی بے چاری گھر میں بور ہوتی ہے، اسے اپنے ساتھ لے جایا کرو۔

شادی کے ابتدائی دنوں میں تو دولہا میاں سمجھتے ہیں کہ میں وہ گلفام ہوں جسے سبز پری مل گئی ہے چنانچہ انہیں کسی بھی قسم کی مداخلت ایک آنکھ نہیں بھاتی اس کے باوجود وہ والدین کی فرمانبرداری اور کبھی بہن کا دل رکھنے کے لئے سب کچھ برداشت کر لیتا ہے ۔ ایک خاتون کا کہنا ہے کہ اس کی نند گو اتنی چھوٹی تو نہیں تھی مگر اس کے چونچلے اس لئے اٹھائے جاتے تھے کیونکہ اس کی رخصتی عنقریب ہونے والی تھی۔ شادی سے پہلے تک تو ہم دونوں میں خوب دوستی تھی کیونکہ مجھے علم تھا کہ بھابی کے روپ میں وہ مجھے برداشت نہیں کر پائے گی۔ اس لئے میں بہت محتاط رہنے لگی تھی لیکن ایک روز اس کی زبان سے یہ سن کر میں حیران رہ گئی کہ بھابی آپ پہلے جیسی کیوں نہیں رہیں؟آپ مجھے نند نہ سمجھیں، میں آپ کی سہیلی ہوں۔ اس روز کے بعد سے ہمارے درمیان وہی پہلے جیسی بے تکلفی ہو گئی۔

اس ’’تبدیلی‘‘ کی ایک وجہ تو ہمیں یہ سمجھ میں آتی ہے کہ ماضی میں غیر شادی شدہ لڑکی کو بننے سنورنے کی اجازت نہیں ہوتی تھی جبکہ آج کی لڑکیوں کو کوئی روک ٹوک نہیں ہوتی۔اسی لئے ماضی کی نند کو بھابی کا بننا سنورنا ایک آنکھ نہیں بھاتا تھاجبکہ آج کی نند کو بھابی کی شکل میں ایک سہیلی مل جاتی ہے جو اسے ساتھ لے کرشاپنگ مالز اور پارلرز کے چکر لگاتی ہے اور اس پر آزادی کے مزید در وا کر دیتی ہے۔ رہے اماں ابا تو آج کے دور میں وہ بالکل ہی ’’ٹینشن فری‘‘ ہو چکے ہیں۔ عورت ایسا وجود ہے جو رشتوں کی تلخی کو محبت کی شیرینی میں ڈھال سکتا ہے ۔ ایک خاتون کا کہنا ہے کہ ان کی اکلوتی نند عینی ہر وقت ناک بھوں چڑھائے رکھتی تھی۔ شادی کے بعد شاید اسے اپنے رویے کا احساس ہوا، وہ اچانک بدل گئی اور ایک روز تو اس نے میرے پاس آ کر مجھ سے معافی مانگی اور کہنے لگی کہ آج مجھے کسی کی بھابی بن کر احساس ہوا ہے کہ میں آپ سے خواہ مخواہ ہی ناراض رہتی تھی۔ میری نند نے مجھے وہی تلخی یاد دلا دی جو میں نے آپ پر مسلط کر رکھی تھی۔

مجھے اپنا ’’ننداپا‘‘ یاد آگیا۔شرمندگی سے معمور اس کا ’’اعترافی بیان‘‘ سن کر مجھے رحم آگیااور میں نے اسے سینے سے لگا لیااور بے اختیار اتنا روئی اتنا روئی کہ آنسوئوں کا سیلاب روکنا مشکل ہو گیا۔ میری نند میرے سامنے اس شعر کی عملی تشریح بنی کھڑی تھی: کی مرے قتل کے بعد اُس نے جفا سے توبہ ہائے اُس زود پشیماں کا پشیماں ہونا ایک خاتون کا کہنا ہے کہ آج کی نندیں اور بھابیاں سمجھ دار ہو چکی ہیں۔ وہ ’’تیل دیکھو اور تیل کی دھار دیکھو‘‘ کے مصداق صبر و استقامت سے چلنا سیکھ چکی ہیں۔ماضی میں بھائی جب بھابی کے آگے پیچھے پھرتا تھا تو نند کو بہت کھَلتا تھا مگر آج کی نند جان چکی ہے کہ یہ ’’چار دن کی چاندنی ہے‘‘، دو چار ماہ گزرنے کے بعد دودھ کا دودھ ، پانی کا پانی ہوجائے گا۔ اسی طرح بھابی کو بھی اس امر کا ادراک ہو چکا ہے کہ نند تو اس گھر میں مہمان کی مانند ہے ، وہ سسرال سدھار جائے گی تو گھر میں اصل راج اسی کا ہوگا اس لئے برداشت کرنا ہی بہتر ہے ۔

شیئر: