Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ملائم سنگھ کی ٹریجڈی

 
کسی سیاست داں کےلئے اس سے بڑی ٹریجڈی کیا ہوسکتی ہے کہ اسکی زندگی بھر کی کمائی کوئی اس سے چھین کر لے جائے اور وہ بے بس رہے
 
معصوم مرادآبادی
 
کسی سیاست داں کے لئے اس سے بڑی ٹریجڈی اور کیا ہوسکتی ہے کہ اس کی زندگی بھر کی کمائی کوئی آن واحد میں اس کے ہاتھوں سے چھین کر لے جائے اور وہ بے بسی اور بے کسی کی تصویر بن کر رہ جائے۔ سماجوادی پارٹی کے بانی ملائم سنگھ یادو کا المیہ یہ ہے کہ بڑی محنت اور جدوجہد سے بنائی ہوئی ان کی پارٹی ان کے لئے اجنبی ہوگئی ہے۔ انہیں ایسے لوگوں سے خطرات درپیش ہیں جنہیں انہوں نے انگلی پکڑ کر سیاست میں چلنا سکھایا تھا۔ ان کے بیٹے اکھلیش یادو اور چچازاد رام گوپال یادو کو راقم نے ملائم سنگھ کے سامنے بھیگی بلی کی طرح بیٹھے دیکھا ہے لیکن اب یہی دونوں ان کی عمر بھر کی سیاسی کمائی کو اپنے نام کرانے جارہے ہیں۔ ملائم سنگھ کی بے بسی کا عالم یہ ہے کہ پارٹی تو کجا ان کے لئے پارٹی کے انتخابی نشان کو بچانا بھی مشکل ہورہا ہے۔ملائم سنگھ کو سب سے زیادہ تکلیف اس بات کی ہے کہ پارٹی کے وہ لیڈر اور کارکنان جو ہروقت ان کے اردگرد منڈلایاکرتے تھے اور ان سے ملنے کے لئے طرح طرح کے پاپڑ بیلتے تھے، وہ آج ان سے کتراکر نکل رہے ہیں۔ غور سے دیکھاجائے تو اس وقت محض دوآدمی ان کے ساتھ ہیں۔ ایک ان کے چھوٹے بھائی شیوپال یادو اور دوسرے ان کی دنیا کو رنگین بنانے والے ٹھاکر امرسنگھ۔ ساتھ میں جیہ پردہ بھی ہیں۔
سماجوادی پارٹی میں جاری خانہ جنگی کا پیغام یہی ہے کہ اب ملائم سنگھ کا دور ختم ہوچکا۔ ان کی پارٹی پوری طرح ان کے بیٹے اکھلیش یادو کے قبضے میں آچکی ہے۔ ان کی حیثیت ایک ایسے خاندانی بزرگ کی رہ گئی ہے جس کی عزت تو سب کرتے ہیں لیکن سنتا کوئی نہیں ۔ ملائم سنگھ یادو سیاست میں آنے سے پہلے پہلوانی کیا کرتے تھے ۔ انہوں نے اٹاوہ کے ماہر پہلوانوں سے کُشتی کے داو پیچ سیکھ کر انہیں سیاست میں خوب آزمایا۔ وہ سیاست میں آنجہانی وزیراعظم چودھری چرن سنگھ کے شاگرد ہیں جن کی سیاسی وراثت پر انہوں نے اس وقت قبضہ کیا تھا جب چرن سنگھ کے بیٹے اجیت سنگھ امریکہ میں تعلیم حاصل کررہے تھے۔ اسی سیاسی وراثت کے بل پر وہ وزیراعلیٰ کی کرسی تک پہنچے۔ سیاست میں ان کا پہلا مورچہ جنتادل کے وزیراعظم وی پی سنگھ کے ساتھ ہوا تھا ۔ انہوں نے جنتادل کو خیرباد کہہ کر سماجوادی پارٹی کی بنیاد ڈالی۔ 
جب سنگھ پریوار نے ایودھیا میں بابری مسجد کی جگہ رام مندر تعمیر کرنے کی خونی مہم کا آغاز کیا تو اس وقت ملائم سنگھ بابری مسجد کے محافظ بن کر مسلمانوں کے سامنے آئے۔ انہوں نے کافی حد تک مسلمانوں کا ساتھ دیا ۔ مسلمانوں نے ملائم سنگھ پر جتنا بھروسہ کیا اتنا کسی اور سیاست داں پر نہیںکیا۔ 30نومبر 1990ءکو ایودھیا میں بابری مسجد شہید کرنے کے لئے گنبدوں پر چڑھنے والے کارسیوکوں پر گولی چلانے کا حکم دے کر ملائم سنگھ مسلمانوں کے ہیرو بن گئے۔ اس کا خراج وہ آج تک وصول کررہے ہیں۔ ملائم سنگھ نے مسلمانوں کی جذباتی کمزوری کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور اس کا خوب استحصال بھی کیا۔ بابری مسجد کے مسئلے سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ دسمبر 1992ء میں جب مسلمان بابری مسجد کے تحفظ کے تعلق سے فکر مند تھے تو ملائم سنگھ سماجوادی پارٹی کے خدوخال میں رنگ بھررہے تھے۔ یہ محض اتفاق نہیں ہے کہ بابری مسجد 6دسمبر 1992ءکو شہید کردی گئی اور اس سے ایک دن پہلے یعنی 5دسمبر 1992ء کو ملائم سنگھ نے نئی دہلی کے پریس کلب آف انڈیا میں سماجوادی پارٹی قائم کرنے کا اعلان کیا۔ راقم الحروف اس پریس کانفرنس میں موجود تھا۔ 
سماجوادی پارٹی کی تعمیر وتشکیل ملائم سنگھ کا ایک خواب تھا جس کی مکمل تعبیر انہیں 2012ء میں اس وقت دیکھنے کو ملی جب ان کی پارٹی نے اسمبلی انتخابات میں واضح اکثریت حاصل کرلی۔ اس سے قبل وہ جب بھی اقتدار میں آئے تو کسی نہ کسی پارٹی کی حمایت سے ہی انہوں نے اترپردیش میں حکومت سازی کی تھی۔ فروری 2012ءکے اسمبلی انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد انہوں نے اس حقیقت کا برملا اعتراف کیا تھا کہ مسلمانوں نے 100فیصد ووٹ ان کی جھولی میں ڈال دیاہے لہٰذا ان کا خاص خیال رکھاجائے گا لےکن انہوں نے اپنے انتخابی منشور میں مسلمانوں کو 18فیصد ریزرویشن دینے کا جو وعدہ کیا تھا اس کو وفا کرنے کی راہ میں کوئی قدم نہیں اٹھایا۔ ہاں اس دوران اترپردیش میں مظفرنگر اور دادری سمیت فرقہ وارانہ فسادات کی 100سے زائد وارداتیں ہوئیں جن میں سراسر نقصان مسلمانوں کو اٹھانا پڑا۔ 2012ء کے اسمبلی انتخابات میںکامیابی حاصل کرنے کے بعدجب انہوں نے اپنے بیٹے اکھلیش یادو کو وزیراعلیٰ کے طورپر آگے کےا تو اس کی مخالفت میں سب سے پہلے ان کے بھائی شیوپال یادو اور پارٹی کے مسلم لیڈر محمد اعظم خاں آگے آئے کیونکہ یہ دونوں اپنی سینیارٹی کی بنیاد پر وزیراعلیٰ کی کرسی کے دعویدار تھے لیکن ملائم سنگھ نے ان دونوں کے جذبات سرد کرکے اپنے جواں سال بیٹے کو وزیراعلیٰ کا تاج پہنا دیا۔ یہی وہ بنیادی غلطی تھی جس کا خمیازہ آج ملائم سنگھ کو بھگتنا پڑرہا ہے۔ اکھلیش نے اپنے کاموں اور صاف ستھری امیج کی وجہ سے اترپردیش کی سیاست میں اپنے لئے جگہ بنالی اور پارٹی کے ممبران اسمبلی کو اپنا گرویدہ بنالیا۔ جب اکھلیش کے کاموں میں ملائم سنگھ نے مداخلت شروع کی تواکھلیش نے اپنی الگ سیاست پروان چڑھانے کی منصوبہ بندی کی اس کام میں رام گوپال یادو نے اکھلیش کا بھرپور ساتھ دیا۔ اکھلیش کابینہ میں موجود ملائم سنگھ کے چھوٹے بھائی شیوپال یادو کو حاشےے پر پہنچادیاگیا۔ ملائم سنگھ کو جب ہوش آیا تو بہت دیر ہوچکی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ جب انہوں نے اکھلیش اور رام گوپال کے خلاف تادیبی کارروائی کی تو کسی نے بھی اسے تسلیم نہیں کیا ۔ ملائم سنگھ کو پہلی مرتبہ اپنی بے بسی کا احساس ہوا۔ ملائم سنگھ نے جب اکھلیش کے پرکترنے کی کوشش کی تو اس کام میں ان کا سایہ بھی ان کا ساتھ چھوڑنے لگا۔ وہ لوگ جو پارٹی میں ان کے اشاروں پر رقص کرتے تھے، پوری بے شرمی کے ساتھ اکھلیش کے خیمے میں نظر آنے لگے۔ آج ملائم سنگھ الیکشن کمیشن میں سماجوادی پارٹی کے انتخابی نشان کو اپنے نام کرنے کی جدوجہد ایک ایسے مرحلے میں کررہے ہیں جب سماجوادی پارٹی ان کے ہاتھوں سے نکل چکی ہے۔ ملائم سنگھ جتنی جلد اس حقیقت کا اعتراف کرلیں اتنا ہی بہتر ہوگا۔ 
******

شیئر: