Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

امام البخاری اور عظیم مسلم فاتحین کی سرزمین ، بخارا و سمرقند

uzbekistan artical part 5 شیخ بہا ء الدین نقشبندی کے مدرسے اور کمپلیکس کو سابق ازبک صدر نے آثار قدیمہ قرار دیکر اسے از سر نو آباد کیا، دنیا بھر سے آنے والے سیاح میوزیم میں قدیم نوادارت میں خصوصی دلچسپی لیتے ہیں ، ساتویں صدی کے آثار آج بھی موجود ہیں

 

ارسلان ہاشمی ۔۔ جدہ

یہ میری دوسری بار تاشقند آمد تھی پہلی بار 1992 میں کراچی سے آیا تھا اس وقت ازبکستان کو آزاد ہوئے ایک برس ہی گزرا تھا ۔ اس دور کی یادوں کو لئے جب میں ہوٹل کے لائونج میں پہنچا تو رات کے 9 بج رہے تھے ۔ تاشقند کے لوگ گھرو ں میں دبکے بیٹھے تھے ۔ یہاں بازار سر شام ہی بند ہوجاتے ہیں اس لئے لوگوں کے پا س وقت کافی ہوتا ہے ۔ لاونج میں ازبک میڈ یا کی جانب سے پریس کلب بنایا گیاتھا جہاں دنیا بھر سے آنے والے صحافیو ں کے لئے ہر طرح کی سہولت فراہم کی گئی تھی ۔ پریس کلب کے ذمہ دار سے نسیم جان سے تعارف کروانے کے بعد میرے رہنما ( ایرکن ) نے کھانے کے لئے دریافت کیا تو مجھے تاشقند میں 1992 کا زمانہ یاد آگیا جب ہم آزادی سے کہیں بھی ٹہر کر کھانا کھا سکتے تھے ۔ میں نے کہا ہوٹل کا ڈنر چھوڑیں تاشقند کے " شاشلک " (مخصوص تکے ) کھانا چاہتا ہوں ۔میں نے محسوس کیا کہ میری اس فرمائش نے ایرکن کو قدرے پریشان کر دیا ۔ دریافت کیا کہ کوئی مشکل ہے؟ جس پر اس نے کہا مشکل تو نہیں البتہ اس وقت رات کے 10 بج چکے ہیں اور شاشلک کے ہوٹل تقریبا بند ہو چکے ہو ں گے۔ میں نے اسے کہا" چار سو "کے علاقے میں چلو وہاں یقینا کوئی نہ کوئی ہوٹل کھلا ہو گا ۔

ہم لوگ فورا گاڑی میں بیٹھے اور چار سو کی جانب چلے۔ ڈرائیور علاقے سے بخوبی واقف تھا۔ اس نے متعدد ہوٹل دیکھے مگر وہ سب بند ہو چکے تھے بالاخر ایک نسبتا چھوٹا اور روایتی ہوٹل دکھائی دیا جہاں کچھ رونق دکھائی دے رہی تھی۔ ہم لو گ ہوٹل میں گئے تو وہاں کی خاتون مینجر نے کہا کہ ہوٹل تو بند ہونے والا ہے جس پر ایرکن نے اسے کہا کہ ہمارے ساتھ سعودی عرب سے آئے ہوئے مہمان ہیں اور ان کی فرمائش ہے کہ وہ شاشلک کھائیں گے خاتون یہ سن کر ہوٹل کے کچن میں گئی اور چند منٹوں بعد واپس آکر کہا شاشلک کی چند سیخیں بچی ہیں البتہ اس کے ساتھ یخنی ختم ہو گئی ہے ۔ یہ سن کر میں نے ان سے کہا یہی لے آئو ۔ ازبکی میں جواب سن کر مینجر نے حیرت آمیز مسرت سے پوچھا آپ کو ازبکی آتی ہے؟میں نے کہا کہ پہلے بھی یہاں آچکا ہوں ۔25 برس قبل شاشلک کے ذائقے کو اب تک فراموش نہیں کر سکا ۔ یہ سن کرمنیجر نے ہوٹل جو تقریبا بند ہو چکا تھا کا خصوصی کمرہ کھلوا یا اور شاشلک بنوانے کیلئے باورچی خانے کی جانب چلی گئی ۔

تھوڑی ہی دیر بعد ہمارے سامنے گرما گرم شاشلک موجود تھے ۔ ازبکستان میں سب سے مرغوب کھانا " بخاری پلائو" ہے جس سے مملکت میں رہنے والے بخوبی واقف ہیں یہاں اسے " رز بخاری " کہا جاتا ہے تاہم ازبکستان کی بخاری پلائو کی تیاری میں بنیادی چیز دنبے کی چربی ہوتی ہے جس سے پلائو کا ذائقہ انتہائی لاجواب ہو جاتا ہے ۔ وہاں زیادہ تر مروج دنبے کا گوشت ہے ۔ پلائو پر گھوڑے کے گوشت ( جسے وہاں کی زبان میں قازی کہا جاتا ہے ) سے تیار کئے جانے والے پارچے سجائے جاتے ہیں جو کھانے میں انتہائی لذیذ ہوتے ہیں ۔ عام طور پر وہاں کھانے کے دوران پانی استعمال نہیں کیا جاتا بلکہ بغیر چینی کے قہوے کا رواج عام ہے ۔ جس طرح ہمارے یہاں ہوٹلوں میں میز پر سب سے پہلے پانی کا جگ یا منرل واٹر کی بوتل لا کر رکھی جاتی ہے اسی طرح وہاں ہوٹلوں میں مخصوص چائنک اور پیالیاں رکھی جاتی ہیں جن میں گرم گرم قہوہ موجود ہوتا ہے ۔ سادہ قہوے کے بغیر وہاں زندگی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ایسا لگتا ہے کہ قہوہ ازبکوں کیلئے لازم و ملزوم ہے ۔ ( قازی گھوڑے کا گوشت ) اسے مخصوص طریقے سے بنایا جاتا ہے ۔ گھوڑے کے گوشت میں نمک ، زیرہ اور کالی مرچ لگانے کے بعد اسے گھوڑے کی ہی آنت میں بھر دیا جاتا ہے ۔ جسے بعدازاں برف باری کے دوران قدرتی برف میں دبا دیا جاتا ہے ۔

ایک ماہ برف میں دبے رہنے کے بعد جب بر ف پگھلنے لگتی ہے تو اسے برف سے نکال کر ہوا میں لٹکایا جاتا ہے بعدازاں ابالنے کے بعد وہ کھانے کے قابل ہو تی ہے ۔ ایک ازبک شخص نے بتایا کہ ہر قازی کو اسی طرح تیار نہیں کیا جاتا بلکہ یہ مخصوص تیاری ہوتی ہے جو شادیوں کے موقع پرتیار کی جاتی ہے ۔

* * * * * بخارا روانگی * * * *

تاشقند کے قدیم علاقے چار سو سے شاشلک کھا کر نصف شب کے قریب ہوٹل پہنچے۔ استقبالیہ کلرک نے میرے پوچھنے سے قبل ہی کہا کہ صبح آٖپکی بخارا کے لئے پرواز ہے۔ آپ کو صبح 6 بجے جگانے کے لئے آپریٹر کو کہہ دیا گیا ہے ۔ صبح ساڑھے پانچ بجے ہی میری آنکھ کھل گئی تھوڑی ہی دیر بعد ایرکن آکا کی کال آئی کہ تیارہو جائو بخارا کے لئے نکلنا ہے ۔ نماز فجر سے فارغ ہو کر ناشتے کیلئے ہوٹل کے ریسٹورنٹ میں گیا تو وہاں ایرکن اور میر جمال کو منتظر پایا ۔

ناشتہ سے فارغ ہو کر ہم ائیر پورٹ کو روانہ ہوئے ۔ ڈرائیور غلطی سے انٹرنیشنل ٹرمنل پر لے گیا جب وہاں پہنچے تو انہوں نے دوسرے ٹرمنل پر جانے کا کہا ۔ ہماری فلائٹ کو روانہ ہونے میں 20 منٹ ہی رہ گئے تھے ۔ ڈرائیور نے جلدی سے گاڑی دوسرے ٹرمنل کی جانب موڑی اور تیزی سے دوڑاتا ہوا تقریبا 8 منٹ میں ہمیں پہنچا دیا ۔ائیر پورٹ پر اسٹیشن مینجر ہمارا منتظر تھا اس نے فوری طور پر ٹکٹ لیکر بورڈنگ پاس دیئے اور اسپیشل گاڑی میں جہاز تک روانہ کر دیا ۔ چھوٹا طیارہ ہونے کی وجہ سے پرواز قدرے نا ہموار رہی جس میں ایئر پاکٹس بھی آتے رہے ۔

شہر قریب آیا تو بلندی سے بے انتہاء خوبصورت منظر پیش کر رہا تھا ۔ بخارا کی تاریخ بہت قدیم ہے بعض مورخین کا کہنا ہے کہ بخارا حضرت عیسی علیہ السلام کی ولادت سے بھی کئی سو برس قدیم ہے ۔ آٹھویںصدی تک یہ شہر زرتشت ( آتش پرستوں ) کا مرکز تھا ۔ عظیم مسلم فاتح قتیبہ بن مسلم باہلی اپنے مجاہدین کے ہمراہ وسط ایشیاء میں آئے اور سمرقند و بخارا سمیت دیگر علاقوں میں بھی اسلام کا نور پھیل گیا ۔قتیبہ بن مسلم کی آمد کے ساتھ ہی وسط ایشیا اور ماورالنہر کا علاقہ اسلامی تعلیمات سے روشناس ہوا اور وہاں کے لوگ گمراہی کے اندھیروں سے نکل کر راہ حق کو قبول کرنے لگے ۔

نویں صدی ہجری میں بخارا سامانی سلطنت کا دار الحکومت رہا جس کی سرحدین افغانستان اور ایران تک پھیلی ہوئی تھی۔اس دور میں علم و ہنر کا یہ عالم تھا کہ دوردراز سے لوگ حصول علم کیلئے بخارا کا رخ کیا کرتے تھے ۔ سامانی حکمرانوں کے زمانے میں کتب خانو ں کا رواج عام تھا ۔ ایک تاریخی حوالے کے مطابق مرکزی کتب خانے میں 45 ہزار کتب موجود تھیں ۔ اسی کتب خانے سے طب جدید کے بانی حسین بن عبداللہ ابن سینا نے فیض حاصل کیا انکی معروف تصنیف " القانون " جو آج بھی یورپ کی جامعات میں پڑھائی جاتی ہے کو طب جدید کی بنیاد کہا جاتا ہے ۔ تاشقند سے بخارا کی پرواز تقریبا 2 گھنٹے کی تھی ۔ بخارا ائیر پورٹ کے حکام نے ہمارا استقبال کیا ۔حسب معمول یہاں بھی روایتی ازبک مہمان نوازی سے لطف اندوز ہوئے ۔ ٹرمنل کے باہر ہمارے لئے گاڑی پہلے سے موجود تھی جبکہ ایک مقامی گائیڈ کی سہولت بھی ہمیں فراہم کی گئی بخارا میں ہمارے میزبان سب سے پہلے معروف صوفی بزرگ بہاء الدین نقش بندی کے مزار اور مدرسے لے کر گئے ۔

بہاء الدین نقشبندی 718 ھ میں بخارا میں پیدا ہوئے انکا انتقال تقریبا 73 برس کی عمر میں یعنی791 ھ میں بخارا میں ہی ہوا ۔ انہوںنے ابتدائی تعلیم بخارا میں ہی حاصل کی ۔ وہ نقشبندی سلسلے کے بانی شمار کئے جاتے ہیں۔ سابق ازبک صدر نے انکے مزار او راس سے ملحق مدرسے اور دیگر قدیم عمارتوں کو آثار قدیمہ قرار دیکر اس ورثے کو از سر نو آباد کیا ۔ نقشبندی کے مزار سے ملحق انکی رہائش گا ہ بھی تھی جسے میوزیم بنا دیا گیا ہے ۔

وہاں نقشبندی کے زیر استعمال رہنے والی اشیاء رکھی گئی ہیں ۔ عمارت سے ملحق مسجد بھی قائم ہے جس میں آج بھی ساتویں صدی کے بنے ہوئے ستون لگے ہیں جن پر اس وقت کے مروجہ نقش و نگار بنے ہوئے ہیں۔ مسجد سے ملحق حوض بھی موجود ہے جو ساتویں صدی میں بنایا گیا تھا ۔ اس حوض سے اس وقت نمازی وضو کیا کرتے تھے جبکہ رہائشی عمارت کے اطراف میں مسافروں اور آنے والوں کے لئے حجرے بھی موجود ہیں ۔ مسجد سے ملحق باغ میں بہاء الدین نقشبندی اور انکی والدہ اور اہل خانہ کی قبور ہیں جنہیں پختہ کر کے اس کے اطراف میں دیواریں بنا دی گئی ہیں ۔ ساتھ ہی برآمدہ بنا یا گیا ہے جس میں ایک قاری صاحب موجود رہتے ہیں جو آنے والے افراد کو کرسیوں پر بٹھا کر قرآن کریم کی چند آیا ت تلاوت کرنے کے بعد دعا کرتے ہیں جس کے بعد ہر شخص اپنی استطاعت کے مطابق وہاں رکھے چندہ بکس میں کچھ نہ کچھ ڈال جاتا ہے ۔ برآمدے سے ملحق وسیع و عریض باغ ہے جس میں انگور کی بیلیں ، آلوبخارے کے پودے اور دیگر میوہ جات کے درخت لگائے گئے ہیں ۔

موسم سرماہونے کی وجہ سے درخت پتوں اور پھلوں سے خالی تھے ۔ بہاء الدین نقشبندی کمپلیکس کی دیکھ بھال محکمہ آثار قدیمہ کے ذمہ ہے ۔ کمپلیکس کے ایک حصے کو میوزیم بنا یا گیا ہے جہاںانکے زیر استعمال رہی جانے والی اشیاء کو رکھا ہے ۔ جن میں کپڑے ، مٹی کے برتن ، چکی ، زراعت کے آلات جو لکڑی سے بنائے گئے تھے کے علاوہ دیگر بہت کچھ شامل ہے ۔ قرآن کریم کے قدیم نسخے بھی موجود ہیں ۔ کمپلیکس میں اس وقت کے لنگر خانے کی بھی منظر کشی کی گئی ہے۔ جہاں بہت بڑی پیتل کی دیگ رکھی ہوئی ہے جس میں اس وقت بہاء الدین کے مدرسے میں آنے والو ںکیلئے معروف بخاری پلائو تیا ر کیا جاتا ہوگا ۔ کمپلکس میں آکر مجھے تاریخ کا وہ واقعہ یاد آگیا جس کا ذکر والد صاحب نے کیا تھا ۔

منکرین خدا نے مسلمانوں کو گمراہ کرنے اور انہیں اسلام سے دور کرنے کیلئے خود ساختہ وصیت نامہ بنوایا جسے بہاء الدین زکریا نقشبندی سے منصوب کرتے ہوئے اعلان کیا کہ" دیکھو تمہار ے اسلاف کی کارستانی ، وصیت نامے میں لکھا ہے کہ جب تک میرے مزار کی ایک اینٹ بھی موجود ہے غیر مسلم اس ملک میں داخل نہیں ہو سکتے " ۔ روسی فوجیوں نے بخارا پر قبضے کے بعد تمام شہریوں کو جمع کیا اور جعلی وصیت نامہ سنایا گیا ۔ انہو ںنے اسی پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ اعلان کیا کہ کو ئی اس وصیت نامے کا جواب دینا چاہتا ہے ۔ ان کے اس اعلان پر ایک عالم دین نے جواب دیا کہ وصیت نامہ جعلی ہے اور یہ تمہارا ہی من گھڑت ہے ۔ بہاء الدین زکریا نقشبندی نے تمام عمر اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہو تے ہوئے زندگی بسر کی وہ لوگوں میں علم کی روشنی پھیلاتے تھے اس قسم کی من گھڑت باتیں ان کے بارے میں کبھی سنی نہیں گئی "۔ ان عالم کی جرات مندی پر روسی سیخ پا ہو گئے انہو ںنے اسی وقت اس بزرگ کو فائرنگ اسکواڈ کے حوالے کر دیا تھا۔ بہاء الدین نقشبندی کمپلیکس کے وسیع و عریض احاطے میں انگور ، ناشپاتی اور شہتوت کے باغات تھے تاہم موسم سرما کی وجہ سے درخت اور بیلیں پتوں سے خالی تھی ۔ جگہ جگہ انگور کی بیلوں کو کاٹ کر زمین میں دفنا دیا گیا تھا ۔ کمپلیکس میں ایک چشمہ بھی تھا جس کا پانی ٹھنڈا اور میٹھا تھا ۔ انتظامیہ نے چشمے سے نکلنے والے پانی کو ٹینک میں ذخیرہ کر کے نل لگادیئے تھے ۔

مسجد اور بہاء الدین نقشبندی کے ہجرے کے ساتھ کچھ فاصلے پر انکی والدہ کے ہجرے بھی تھے جس کے بارے میں وہاں کے متولی نے بتایا اس کا کہنا تھا کہ مسجد میں جو ستون نصب ہیں وہ اسی زمانے کے ہیں ۔ بلند و بالا عمارتیں اپنی شان و شوکت کے ساتھ آج بھی قائم ہیں جو اس وقت کے معماروں کی مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہیں ۔نقشبندی کمپلیکس سے نکلے تو دوپہر کے 12 بجے رہے تھے ۔میزبان ہمیں کھانے کیلئے ہوٹل لے گئے ۔

شیئر: