Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جیبیں نوٹوں سے بھری رہتی تھیں،مگر سکے ہاتھ آئے

 روزگار کی غرض سے مملکت پہنچنے والے نوجوان ایک دوسرے کا تعارف کراتے۔دوست اورشناسا کو عمرہ و زیارت کیلئے رقم عنایت کیا کرتے تھے

 

احمد منشی ۔ جدہ

جدہ کا قدیم تاریخی محلہ، حی العماریہ عرصے سے تارکین وطن کا مسکن رہا ہے۔ جہاں چھوٹی چھوٹی پیچ دار گلیاں ،سادہ عمارتیں ،پرر ونق بازاراورجگہ جگہ قہوے خانے،پردیس میں دیس کی خوشبوبکھیرتے انڈیا اورپاکستان کے کھانوں کے مراکز موجود ہیں۔ 1990-91کی دہائی میں گوناں گوں شخصیتوں اور فنکاروں کامسکن ہوا کرتا تھا،حی العماریہ میں کمیونٹی کے بزرگ حضرات بعد نماز جمعہ اپنے فلیٹ پراحباب وطن کو ظہرانے پرمدعو کیا کرتے تھے۔ وہاں دینی درس کا اہتمام ، فرائض و واجبات اور اسلامی و اخلاقی شعور بیدار کیا جاتا۔ ایک دوسرے کا دست و بازو بننے کی تلقین کی جاتی تھی۔

اس وقت خطوط ڈاک سے بہت کم بھیجنے کا رواج تھا، روزانہ کوئی نہ کوئی وطن سے آتا جاتا رہتا تھا۔جمعرات کی شب نوجوانوں اور دوست و احباب کے ہاتھ میں فوٹو البم اور خط کے لفافے ہواکرتے جو وطن سفرپرجانیوالوں کو پہنچادیا کرتے تھے۔ہر شخص پرتپاک انداز سے ملتا اور آنے جانیوالوں سے باخبر کرتا تھا۔ ہندوستان سے روزگار کی غرض سے مملکت پہنچنے والے نوجوان ایک دوسرے کا تعارف کراتے۔دوست اور شناسا کو عمرہ و زیارت کیلئے رقم عنایت کرتے یا خود ساتھ جاکر، عمرہ کراتے ،احرام باندھنے، ارکان عمرہ کی بابت بتاتے اور بحسن خوبی مکمل کرکے خوشی خوشی واپس آتے تھے ۔

بزرگ اور ذمے دار حضرات نئے آئے ہوئے نوجوان سے سوال کرتے کہ کیا آپ نے عمرہ ادا کرلیا، مدینہ منورہ کی زیارت کرآئے ۔ اگر جواب اثبات میں ہوتا تو مبارکباد دیتے اور کام وغیرہ کے بارے میں سوال کرتے۔ جلد کسی کمپنی میں رابطہ کرتے ،ملنے جلنے والوں سے کہہ سن کر لگوادیا کرتے تھے۔ پروگراموں اور تقاریب میں بلا تخصیص جایا کرتے لوگ ایک دوسرے کا تعارف کراتے،کسی کے بارے میں جب پتہ چلتا کہ ابھی نئے آئے ہیں تووہ جدہ آمد پرخوشی کا اظہارکرتے۔

ایک تقریب میں ہماری ملاقات اشفاق صاحب سے ہوگئی۔ جاذب نظر اور انداز شاعرانہ،ریڈیو آواز کے مالک ، نغمگی مکیش کی ، دوستوں کی فرمائش پر نغمہ سرا ہوئے اوردوستوں کا دل جیت لیا۔ اشفاق صاحب کاتعلق ہندوستان کے شہر لکھنو(شام اودھ )سے تھا ۔نستعلیق رکھ رکھاؤ، لکھنوی وضع قطع منہ میں پان کی گلوریاں سرخ ہونٹ اور بڑی بڑی آنکھیں مسحور کن شخصیت کے مالک تھے۔ اشفاق صاحب سے جو بھی ایک مرتبہ ملتا ان کا دیوانہ ہوجاتا۔ جمعرات کو آدھے دن اورجمعہ کو مکمل چھٹی ہوا کرتی تھی،جمعرات کو اشفاق صاحب ظہر بعدڈیوٹی سے فارغ ہوکرجب محلے کی گلی کے نکڑ پرپہنچتے تو بے تکلف احباب انہیں گھیر لیتے، بقالے سے ٹھنڈی مشروبات کی بوتلیں ایک دوسرے کو پیش کی جاتیں۔

اشفاق صاحب نغمہ پیش کرتے، ان کی ہر لے پر واہ واہ کی صدا اور تالیوں کی آواز گونجنے لگتی ، داد وتحسین سمیٹنے کے بعد وہ اگلی جمعرات کیلئے الوداع کہہ کر رخصت ہوجاتے ۔ اشفاق صاحب سعودی عرب کے ایک معتبرادارے میں روزانہ کی بنیاد پر ملازمت سے منسلک تھے۔جب وہ گھرآتے تو ان کے سفاری سوٹ کی جیبیں ریالوں سے بھری ہوا کرتی تھیں۔ بیوی ان کی شرٹ اتار کر نو ٹ گنتی کئے بغیر الماری میں رکھ دیتیں۔ اشفاق صاحب کی اہلیہ انتہائی ملنسار، فراخ دل اور دکھ درد بانٹنے والی خاتون تھیں۔رشتے داروں میں ان کا بڑا شہرہ تھا۔خواتین ان پر رشک کیا کرتی تھیں۔ جدہ میں رہتے ہوئے اشفاق صاحب نے بیوی سے کبھی یہ نہیں سوال کیا کہ پیسے کہاں اور کس کھاتے میں جمع کررہی ہو یا کیا حساب کتاب ہے۔؟شاید وہ بھول گئے تھے کہ یہ دیس نہیں پردیس ہے جہاں سے واپسی کا ٹکٹ کسی بھی وقت کٹ سکتا ہے۔

حالات نے کروٹ لی، اداروں کی سعودائزیشن شروع ہوگئی جس کے نتیجے میں اشفاق صاحب کو کمپنی نے فارغ کردیا۔ چند دنوں بعد انہوں نے فیملی کوہندوستان منتقل کردیا اور خود تن تنہا زندگی دیواروں اور یادوں کے سہارے گزارنے لگے۔ اشفاق صاحب جومختلف خوبیوں کے مالک ، ہنسی مذاق کے جھرمٹ میں رہنے والے تھے ، کمہلائے ہوئے گلاب کی مانند ہوگئے۔ پردیس تو پردیس ہی ہوتا ہے۔وطن کی خوشبواوراہل خانہ کی یادوں نے انہیں بالآخر ایک دن مستقل بنیادوں پر ہندوستان جانے کی فیصلے پر آمادہ کرلیا۔ ہندوستان پہنچے تو اہل خانہ نے چنددن مہمان نوازی کی، بعدازاں ان کا ہاتھ تنگ ہونے لگا ۔روز مرہ کی ضروریات کیلئے بیگم صاحبہ سے پیسے طلب کرتے۔ کبھی حسب ضرورت ملتے تو کبھی نہیں ۔رفتہ رفتہ ان کی شخصیت برگ گل کی مانند بکھر تی چلی گئی اور پت جھڑ کے درخت کی طرح برگ و ثمر سے خالی ہوگئے۔ مکیش کے نغموں کی فرمائش کرنے والے اگرلکھنؤ میں سرراہ مل جاتے تو خیر، ورنہ نظریں چراکرنکل جاتے تھے۔ بیگم صاحبہ بچوں کو لیکر میکے چلی گئیں وہاں انہوں نے تمام پیسے اپنے بھائی کے نام (اشفاق صاحب کے سالے)  بینک میں جمع کرادیئے۔اشفاق صاحب سسرال جاتے تو سالے صاحب سے پیسے مانگ کر خرچ چلایا کرتے ۔ تنہائی دور کرنے اور خود کو مصروف رکھنے کیلئے انہوں نے آٹورکشہ خرید لیا ۔ جہاں وہ سواریوں کو گانے سناکر خوش ہوجایا کرتے تھے ۔ مگروہ شخصیت جو کبھی پیسے کی پروا نہ کی اور جیبیں پیسوں سے بھری رہا کرتی تھی،آٹورکشے کی اسٹیرنگ سے چھالے زدہ ہاتھ میں نوٹوں کے بجائے سکے آنے لگے۔

جدہ سے لکھنؤ آنیوالوں سے حی العماریہ کے احباب کا حال احوال دریافت کرتےرہتے، یہاں کے حالات جاننے کیلئے لوگوں سے ملتے اور تابناک و خوشحال ماضی کو یاد کرکے آبدیدہ ہوجایا کرتےتھے،ایک دن انہیں یادوں کو سینے میں دبائے  دارفانی سے کوچ کرگئے۔ یہ اشفاق صاحب کی کہانی نہیں بلکہ متعدد ایسے پردیسیوں کی ہے جو منصوبہ بندی نہیں کرتے اور پھر اپنوں کے ہاتھوں لٹ جاتے ہیں۔اپنے وطن میں اپنے لئے کچھ بنالیں یہی عقلمند ی ہے۔

شیئر: