Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ورنہ یہ عمر بھر کا سفر رائیگاں تو ہے

 
جہاں ٹیچر غریب کی جو رو ہوں جنہیں الیکشن کمیشن انتخابی فہرستوں کی تیاری سمیت دیگر کاموں کے لئے جب چاہے اچک لے جائے
 
وسعت اللہ خان 
 
میں بچپن سے سنتا آرہا ہوں کہ صاحب تعلیم پر اگر کل قومی آمدنی کا ڈیڑھ، 2 فیصد حصہ ہی خرچ ہوتا رہے گا تو معاشرہ خاک تعلیم یافتہ ہوگا۔میاں کم ازکم7 فیصد قومی آمدنی15، 20 برس مسلسل خرچ ہو تب جا کے سماجی تبدیلی کا کوئی امکان پھوٹے گا۔اور بھائی صاحب! تعلیم کوئی صنعت نہیں بلکہ مقدس صبر آزما قانع پیشہ ہے جس کا پھل بہت آہستہ آہستہ پکتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ ایسی اچھی اچھی، میٹھی میٹھی باتیں سننے کے بعد ذرا گردوپیش کے ٹیوشن اور کوچنگ سینٹرز کے اشتہارات پر بھی نگاہ ڈالنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔
"سر محمد حسین کوچنگ سینٹر برائے میٹرک و انٹر میڈیٹ۔تمام مضامین میں کم ازکم 70 فیصد نمبروں کی گارنٹی۔ورنہ فیس واپس۔"
اب یا تو سر محمد حسین کوئی بہت بڑے علمی جادوگر ہیں جو بچوں کے ماتھے پر ہاتھ رکھ کے کچھ پڑھتے ہیں اور اپنا سب علم منتقل کردیتے ہیں یا پھرمیٹرک و انٹرمیڈیٹ کے بورڈز میں بیٹھے اہلکاروں کو سر محمد حسین کراری کاغذی گڈی کی جادوئی خوشبو ایسے سلیقے سے سنگھاتے ہیں کہ انہیں سر محمد حسین کے تمام شاگردوں کو 70 فیصد نمبر دیتے ہی بنتی ہے۔
کبھی اس پہلو پے بھی غور فرمائیے گا کہ جب تک عمومی تعلیم سرکاری یا نان کمرشل مشنری اداروں کی ذمہ داری تھی تب تک طلبا و طالبات کی ایک تعداد امتحانات میں فیل بھی ہوا کرتی تھی اور پھر اس ناکامی کو مزید محنت سے کامیابی میں بدلنے کی بھی سرتوڑ کوشش ہوتی تھی۔ جب سے نجی تعلیمی سیکٹر کے سبز کاروباری قدم پڑے تب سے فیل ہونے والے طلبا و طالبات کا تناسب بھی حیرت انگیز حد تک کم ہوگیا۔تو کیا ہمارے نونہال راتوں رات ذہین ہوگئے یا اندھے کمرشل ازم کی بنیاد پر قائم تعلیمی ادارے اپنے طلبا کا بڑی تعداد میں فیل ہونا اپنی کاروباری شہرت کی خودکشی سمجھتے ہیں ؟ 
( یقینا ایسے نجی تعلیمی ادارے بھی ہیں جو بھاری فیسیں ضرور لیتے ہیں مگر بدلے میں طلبا کو کوالیفائیڈ فیکلٹی کے ذریعے جدید اور معیاری تعلیم بھی دیتے ہیں لیکن ایسے مہنگے معیاری ادارے کتنے ہوں گے ؟ )
جیسے ہی ریاست نے ہر بچے کو معیاری تعلیم دینے کے آئینی فرض سے ہاتھ کھینچا۔ویسے ہی یہ خلا پر کرنے والے زیادہ تر اداروں نے تعلیم کو مشن کی سطح سے گھسیٹ کے گھی ، صابن ، تیل جیسی منافع زدہ پروڈکٹ بنا ڈالا۔ اب اکثر تعلیمی ادارے علم کا معبد نہیں ، کوالیفکیشن پیما ڈگریاں ، ڈپلومے ، سرٹیفکیٹ جاری کرنے والی فیکٹری ہو چکے ہیں۔
توکیا واقعی ہماری تعلیمی زبوں حالی کا بنیادی سبب قلیل بجٹ ہے یا اس بات کو تواتر سے دھرانے کا مقصد ناکامی کی دیگر وجوہات چھپانا ہے۔ یہ درست ہے کہ تعلیمی سیکٹر کو اصولاً 100روپے سالانہ ملنے چاہئیں مگر 10 روپے مل رہے ہیںمگر یہ 10 روپے بھی کیا اسی جگہ لگ رہے ہیں جہاں لگنے چاہئیں ؟ 
تعلیمی بجٹ کا لگ بھگ 75 فیصد اور سندھ کے تعلیمی بجٹ کا 68 فیصد تعلیمی بیوروکریسی اور اساتذہ کی تنخواہوں پرخرچ ہوجاتا ہے۔مگر نتائج ندارد۔ پاکستان میں 5 برس تک کی عمر کے جتنے بھی بچے اسکول سے باہر ہیں ان میں سب سے زیادہ بچے بلوچستان اور پھر سندھ کے ہیں۔
رہا فاٹا تو وہاں بھی تعلیمی مد میں سالانہ اچھی خاصی رقم مختص ہوتی ہے لیکن بنیادی سے اعلیٰ تعلیمی درجے تک ٹاپ ٹین یا ٹاپ ففٹی چھوڑئیے ٹاپ ہنڈرڈ لسٹ میں بھی فاٹا نظر نہیں آتا۔توکیا اب سے 35 برس پہلے فاٹا کا تعلیمی احوال بہتر تھا جب وہاں مثالی امن و امان تھا؟ ایک قہقہہ بر حسنِ ظنِ درویش۔۔۔۔
کہتے ہیں معیارِ تعلیم کا بنیادی محور اچھی بلڈنگ نہیں اچھا استاد ہے۔جب تک سرکاری شعبہِ تعلیم نوکریاں دینے والی چراہ گاہ اور کچرا ڈپو نہیں بنا تھا تب تک انہی زرد رو اداروں سے ہر شعبے کی وہ نامور ہستیاں بھی پیدا ہو رہی تھیں جن کے بارے میں ہم آج یوں حیران ہوتے ہیں جیسے یہ ہستیاں مریخ سے اترتی تھیں ۔ پھر یہ ہوا کہ جو کسی اور شعبے کے کام کا نہیں تھا اسے پرچی اور پیسے کے زور پر ٹیچر کا کنٹریکٹ تھما دیا گیا اور رفتہ رفتہ ان نوواردانِ کوچہ ِ تدریس کی تعداد اتنی بڑھ گئی کہ اصلی اساتذہ اس بچہ سقائی فوج کے بوجھ تلے دبتے چلے گئے تو یہ ہے تعلیم کو مشن سے کچرے میں بدل کر اس کچرے کو صنعتی فضلے کی شکل دینے کا سفر۔ 
جہاں ٹیچر غریب کی جو رو ہوں جنہیں الیکشن کمیشن انتخابی فہرستوں کی تیاری سمیت دیگر کاموں کے لئے جب چاہے اچک لے جائے ، کبھی انہیں کوئی افسر سیاسی جلسوں میں لازمی حاضر ہونے کا نادر شاہی حکم دے ، کبھی انہیں مردم شماری و خانہ شماری پر ہزاروں کی تعداد میں روانہ کردیا جائے تو کبھی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کے ایمرجنسی نمبروں کا جواب دینے کے لئے بطور آپریٹر ڈیوٹی لگ جائے لیکن تنخواہ وہی لگی بندھی رہے تو ایسے ٹیچر خود کیا پڑھیں گے اور بچوں کو کب کیوں اور کتنا پڑھائیں گے ؟ تو پھر کیوں نہ یہ ٹیچر بچوں کو پڑھانے کے لئے ایک اسسٹنٹ رکھیں اور خود کوئی منافع بخش کام کریں۔ ضرورت سے زیادہ اہم کاموں میں ہمہ وقت مصروف سرکار کے پاس یہ غور کرنے کی فرصت کہاں کہ نئی نسل کو تعلیم کے نام پر کس معیار کا ذہنی راتب دیا جارہا ہے۔کیا یہ کوئی ٹھوس صحت مند غذا ہے یا جنک فوڈ کہ پیٹ تو بھر جائے مگر ذہنی و جسمانی نشوونما بھی رک جائے۔ ویسے ہم سب مل کے اپنی نسلوں کو آخر بنانا کیا چاہ رہے ہیں۔ دولے شاہ کے چوہے یا خود سے سوچنے والے منطقی اذہان ؟ گڈریا یا پھر دو ٹانگوں والا نیم دماغی ریوڑ ؟ اگر کسی روز یہی نکتہ طے ہوجائے تو سمجھئے ایک کوہِ جہالت سر ہوگیا ورنہ یہ عمر بھر کا سفر رائیگاں توہے۔
******

شیئر: