Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

محنت و عظمت میں ربطِ باہم کی حقیقی عکاسی

جو لوگ رزق حلال پر یقین رکھتے ہیں ان کے پائے استقامت میں لغزش کبھی نہیںآتی۔ اپنے ایمان کی حفاظت کے لئے وہ جان بھی قربان کرنے کو تیار ہوجاتے ہیں

 

تسنیم امجد ۔ ریاض

محنت وعظمت باہم یونہی مربوط ہیں جیسے چولی کے ساتھ دامن ۔ دھنک کے صفحے پر دی گئی تصویر میں موجود بزرگ اس ربط باہم کی حقیقی عکاسی اورواضح مثال ہیں ۔قوت ایمانی جب جدوجہد کی رہنمائی کرتی ہے تو منزل تک پہنچنا آسان ہوجاتا ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کی زندگی کا ہر سانس عبادت کا درجہ رکھتا ہے، ان کا اطمینان قلب ، حوصلوں اور خودی کو نوخیزی بخشتا ہے اور یہ خود اپنی پہچان بن جاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی غیرت سہارے کے لئے پرائی بیساکھیاں نہیں ڈھونڈتی بلکہ زور بازو پر بھروسہ کرتی ہے ۔ یہ ہستیاں اُن لوگوں کے لئے قابل تقلید ہیں جو کاسۂ گدائی تھامے خیرات کے منتظر رہتے ہیں ۔وہ کرۂ ارض پر بارگراں کی مانند ہوتے ہیں۔ سہارا نہ ملنے پر جرائم بھی ان کے لئے آسان ہوجاتے ہیں۔ نسلِ نو کو ان محنت کش بزرگ جیسی ہستیوں سے سبق سیکھنا چاہئے ۔یہ حقیقت ہے کہ بحرانوں کے میلے نے مایوسیوں کو جنم دیا ہے لیکن اپنے ماضی کو پیش نظر رکھ کر مستقبل کی راہ استوار کی جا سکتی ہے جہاں جفاکشی اور خودداری کی داستانیں ہماری رہنمائی کے لئے کافی ہیں۔ آج ناکامیوں سے گھبرا کر جرائم یا پھر خود کشی کا راستہ اختیار کرلیا جاتا ہے جس کے باعث پہلے دنیامیں اذیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور پھر آخرت بھی برباد ہوجاتی ہے ۔رزق حلال کی خواہش میں یہ محنت کش ایک نئی تمنا و طاقت سے ہمکنار ہوتے ہیں۔ انہی کے لئے شاعر نے کیاخوب کہا ہے:

 بازوؤں پہ جن کے نازاں فطرت گلشن طراز

کاوشوں سے جنکی حسن انجمن مائل بہ ناز

آج ہم نے ان اقدار و افعال کو فراموش کرڈالا جو ہمارا طرۂ امتیاز رہی ہیں ۔ نظم و ترتیب سے روگردانی، افراتفری پر منتج

ہورہی ہے۔ دین سے دوری نے حرام وحلال کی تمیز بھلادی ہے ۔جو لوگ رزق حلال پر یقین رکھتے ہیں ان کے پائے استقامت میں لغزش کبھی نہیںآتی۔ اپنے ایمان کی حفاظت کے لئے وہ جان بھی قربان کرنے کو تیار ہوجاتے ہیں۔ تصویر کا دوسرا رخ ہمیں معاشرے کی سنگدلی دکھارہا ہے جہاں سینیئر ہونے کے باوجود آرام مقدر میں نہیں ہوتا۔ کچھ لوگ اولاد کی بے اعتنائی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ آج قوم کو انفرادی اور اجتماعی قوتوں کو مجتمع کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ ماضی کو سامنے رکھتے ہوئے حال کی منصوبہ سازی اور فکر و تدبر ضروری ہے۔ ماضی میں ہم اپنی ذات سے بالاتر ہوکر اجتماعی سوچ اپناتے تھے جس سے کامیابیاں اور عروج ممکن ہوتا تھا اور کٹھن کا لفظ لغت سے خارج رہتاتھا۔ وسائل کی کمی کے باعث بزرگوں کو اس قدر محنت و مشقت کے کام کرنے پڑتے ہیں۔وگرنہ ان کی انا کی تسکین کے لئے انہیں ان کے شایان شان مصروفیت سونپی جاسکتی ہے ۔ ہمیں اپنی خواہشات اور مسابقتی رجحان کو لگام دینی ہوگی تاکہ ہم اپنے ساتھ زندگی گزارنے والوں پر بھی نظر ڈال سکیں۔ اولاد کی جانب سے بزرگوں کو وقت دینابے حد ضروری ہوتاہے۔اس عمر کو پہنچ کر ا کثر بزرگ بھی ضدی ہوجاتے ہیں ۔ بیٹا خواہ کتنا ہی بڑا افسر کیوں نہ ہو لیکن وہ خود کو کسی نہ کسی کام میں مصروف رکھنے پر بضد ہوتے ہیں۔ ایک بیٹے کا کہنا ہے کہ میں والد صاحب کو ہر ماہ ان کی ضرورت سے زیادہ دیتا ہوں۔ والدہ کو الگ خرچہ دیتا ہوں لیکن پھر بھی وہ کبھی کسی بک شاپ اور کبھی کسی اسٹور پرکام کرنے پر مُصر ہوتے ہیں۔شاید ایسے ہی والدین کے لئے کہا گیا ہے کہ:

  میری انگلی پکڑ کے چلتے تھے اب مجھے راستہ دکھاتے ہیں

اب مجھے کس طرح سے جینا ہے میرے بچے مجھے سکھاتے ہیں

اس حقیقت کا اداراک ضروری ہے کہ گھر کے بزرگ اگر مطمئن نہ ہوں تو زندگی میں کامیابیاں آسانی سے نہیں ملتیں۔انہیں ان کے مزاج کے مطابق خوش رکھنا ضروری ہے ۔انہیں کسی نہ کسی لائبریری کی رکنیت یاکسی کلب کی ممبر شپ دلادی جائے تو انہیںمصروف رہنے کا بہانہ مل جائے گا۔ خالی دماغ کی حیثیت کیا ہوتی ہے یہ سبھی جانتے ہیں۔ بزرگوں میں انا کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہے۔ ان کی انا کو ٹھیس پہنچائے بغیر ان کے سکھ کا خیال رکھنا ضروری ہے ۔ ہم مغربی معاشرے کی نقالی میں پیش پیش رہتے ہیں لیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ وہاں سینیئر سٹیزنز کی کتنی عزت ہوتی ہے۔

ٹرانسپورٹ میں ان کیلئے الگ نشستیں مختص ہوتی ہیں، ان کا ہفتہ وار خرچہ حکومت خود ان تک پہنچانے کا انتظام کرتی ہے جبکہ ہمارے ہاں یہ بے چارے پنشن کی خاطر صبح سویرے گھروں سے نکلتے ہیں تاکہ ’’سرکاری سوالیوں‘‘کی لمبی قطار میں آگے جگہ لے سکیں۔ یہ مشاہرۂ پیری انہیں نہایت مہنگا پڑتا ہے ۔ کاش ہمارا معاشرہ بوڑھے والدین کو بوجھ نہ جانے اورانہیں اولڈ ہاؤسز یا ایدھی سینٹر میں ’’جمع کرانے ‘‘ سے قبل اپنی اقدار کو مدنظر رکھے جو کتاب انسانیت کا اہم باب ہیں۔ گھسے پٹے سیاستدانوں کی گھسی پٹی سیاست کو نظر انداز کرنا وقت کا اہم تقاضا ہے ، آئیے مثبت راہوں پر یکجہتی سے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالکر چلیں۔

شیئر: