Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آر ایس ایس کا بڑھتا اثر و رسوخ

 
تعصب کی گرم ہوا نے ہندوتوا کے مماثل تنظیم کے علاوہ عوام کیلئے کوئی اور متبادل چھوڑا ہی نہیں
 
کلدیپ نیر
 
سال کے خاتمے کے قریب سب سے بڑی خبر آنے تک ملک کے ایک اہم صنعت کار گھرانے نے طاقتور ترین بنیاد پرست تنظیم کی اہمیت کا اعتراف سرعام کیا۔ رتن ٹاٹا اپنے ذاتی ہوائی جہاز سے راشٹریہ سیوم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے سربراہ موہن بھاگوت سے ملنے ناگپور گئے۔ یہ ملاقات تھی تو 20 منٹ کی ہی لیکن اس سے عوام تک یہ پیغام گیا ہے کہ پارسیوں کے اقلیتی فرقے کی سربراہی میں چلنے والے ایک سیکولر صنعتی ادارے نے بھی گھٹنے ٹیک دیئے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ تعصب کی گرم ہوا نے ہندوتوا کے مماثل تنظیم کے علاوہ عوام کیلئے کوئی اور متبادل چھوڑا ہی نہیں۔
یہ ہمارے سیکولر اسناد پر ایک افسوسناک تبصرہ ہے ۔ ملک کی آزادی سے پہلے بھی قومی تحریک نے تکثیریت کے تصور سے تحریک حاصل کی تھی جس میں ابوالکلام آزاد، خان عبدالغفار خاں اور رفیع احمد قدوائی جیسے رہنما شامل تھے جنہوں نے اس تحریک کو آگے بڑھایا۔ 
مجھے گاندھی جی کا ایسا جلسہ جس میں دعائیں کی جاتی تھیں کا ایک واقعہ یاد ہے۔ وہ ہندو مسلم اتحاد کے بہت بڑے حامی تھے اور اپنی جان بھی انہوں نے ان اصولوں پر قربان کر دی۔ ایک ہندو جنونی ناتھو رام گوڈسے نے انہیں اپنی گولی کا نشانہ بنایا۔ان کے دعائیہ جلسے میں بائبل، قرآن اور گیتا ترتیب وار پڑھے جاتے تھے، اعتراضات بھی ہوئے۔ گاندھی جی نے تمام اعتراضات دور کرنے کی کوشش کی۔ 
گاندھی جی کے معاملے میں سیکولر اقدار عقیدہ سے مربوط تھیں۔ آج کے ہندوستان میں ان کی موجودگی نرم ہندو توا پر گراں گزرتی جس نے خاموشی سے ملک کو آغوش میں لے لیا ہے ۔ہندوستان کی آبادی کا پانچواں حصہ 20 کروڑ مسلمان ملک کے امور میں کوئی اہمیت ہی نہیں رکھتے۔ انتخابات کے موقع پر ان کی معنویت کا احساس ہوتا ہے کیونکہ مشترک حلقہ رائے دہندگان میں ان کے ووٹوں کی کلیدی اہمیت ہوتی ہے۔
ملک کی تقسیم انتقام و عداوت کو ہوا دیتی رہی ہے۔ میں پاکستان کی طرف ہاتھ بڑھانے کی ہر کوشش کو قابل ستائش قرار دیتا ہوں۔ نئے سال کے پہلے دن نوجوان لڑکے اور لڑکیاں انڈیا گیٹ پر جمع ہوئے جہاں سے انہوں نے واہگہ بارڈر تک کا سفر کیا تاکہ اسلام آباد کے تئیں اپنے دوستانہ احساسات کا اظہار کرسکیں۔ 1965 ءکی جنگ سے پہلے ایک وقت تھا جب سرحد نرم تھی اور جب دہلی سے براہ راست لاہور جایا جاتاتھا۔
نوجوانوں نے فخر سے ایک بینر لگایا تھا جس میں لکھا تھا Bus to Pakistan ۔ کم و بیش 50 لڑکے اور لڑکیاں بس میں تھے اور مزید 50سائیکلوں پر تھے۔ سرحد پر پہنچنے سے پہلے وہ ہر 10 کلومیٹر پر جگہیں بدل لیتے تھے اور بعض مقامات پر رکتے تھے۔ مقامی افراد ان کے استقبال میں شریک ہوئے۔ ان کی آوبھگت بارات کے دولہا کی طرح ہوئی۔میں نہیں جانتا کہ دونوں ملکوں کے درمیان رشتے منجمد کیوں ہوگئے۔ ملک کی تقسیم تو کانگریس اور مسلم لیگ دونوں کی مرضی سے ہوئی تھی اگر چہ کانگریس اس سے خوش نہیں تھی۔ آزادی کے بعد سے 70 سال کا عرصہ ایک دوسرے کو قبول کرنے اور اگر دوست نہیں تو بااخلاق ہمسایوں کی طرح پیش آنے کیلئے کافی ہوتا ہے۔
یہ سچ ہے کہ پاکستان ایک ڈیموکریٹک ملک ہے۔ تیسری دنیا کے ممالک میں فوج بغاوت کے بعد بیرکوں میں واپس چلی جاتی ہے لیکن یہ یقینی بات ہے کہ اقتدار اس کے ہاتھ میں ہی رہے۔ بنگلہ دیش اس کی خاص مثال ہے جہاں فوج حکومت کرنا نہیں چاہتی۔ اس ملک کے ایک سابق فوجی سربراہ نے مجھے بتایا کہ ان کے مداخلت کرتے ہی معاملہ عوام مقابل فوج کا ہوجائے گا۔ اس لئے بہتر یہی ہے کہ عوام خود ہی اپنی پیدا کی ہوئی ابتری سے نمٹیں۔
ہندوستان خوش قسمت ہے کہ تینوں سروسز پوری طرح غیر سیاسی اور پیشہ ورانہ نوعیت کی ہیں۔ وہ سمجھتی ہیں کہ ان کا کام حکم کی تعمیل کرنا ہے جو وہ حتیٰ الامکان کرتی ہیں۔ مسلح افواج کسی بھی حالت میں اس میدان میں قدم نہیں رکھنا چاہتیں۔ جہاں تعصب کا گز ر ہو۔  پاکستان اور بنگلہ دیش کے عوام ہندوستان کی مستحکم جمہوری اقدار کو بصد رشک دیکھتے ہیں۔ اس طرح ہندوستانی عدلیہ بھی ان کیلئے قابل تقلید مثال بن گئی ہے۔ دونوں ملکوں میں ججوں کا وہ کالجیم بھی نہیں جو ہندوستان میں ہے۔ مجھے اس پر اکثر حیرت ہوتی ہے کہ ججوں کی تقرری حکومت کے ہاتھ میں ہونے کے باوجود بہترین ججوں کی تقرری کیسے عمل میں آئی۔
سپریم کورٹ نے حال ہی میں یہ فیصلہ دیا ہے کہ مذہب، نسل، ذات ، فرقہ یا زبان کو انتخابی عمل میں کسی فائدے کا ذریعہ نہیں بنایا جائے گا اور اس امیدوار کا انتخاب کالعدم قرار دے دیا جائے گا جس نے ان بنیادوں پر ووٹ حاصل کئے ہوں گے۔ ہندوستانی جمہوریت کو اس فیصلے سے تقویت حاصل ہوگی تاہم عوام معاملات کو جوں کا توں رہنے نہیں دے سکتے کیونکہ وزیراعظم نریندر مودی علی الاعلان بھارتیہ جنتا پارٹی کیلئے اپنی ترجیح کااظہار کرتے ہیں۔
پارٹی کے نظریہ سازناگپور میں رہتے ہیں اور انہوں نے یہ پیغام بھی پہنچانے کی کوشش کی ہے کہ وہ انہی سے تحریک حاصل کرتے ہیں اس لئے رتن ٹاٹا، بھاگوت ملاقات باعث حیرت نہیں۔ کبھی ٹاٹا گروپ سے وابستہ سائرس مستری کو شاید اس گھرانے کے طریقہ کار کا علم رہاہو۔ ظاہر ہے کہ رتن ٹاٹا نہیں چاہیں گے کہ بھاگوت مستری کی باتوں کا اثر قبول کریں۔ شاید یہ کہانی کا دوسرا رخ ہے جس کی پردہ پوشی رتن ٹاٹا کرنا چاہیں گے لیکن یہ ہے جاننے کے قابل۔
******

شیئر: