Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اس سادگی پہ کون نہ مر جائے

 
 تحر یک انصاف کی حکومت صفائی کا ہفتہ منا رہی ہے ، کیا پہلے صفائی نا پید تھی کہ اس کا شعور اجاگر کیا جارہا ہے
 
سید شکیل احمد 
 
پیر صابر شاہ واقعی درویش وزیر اعلیٰ تھے ان میں صبرواستقامت بدرجہ اتم مو جو د تھا یو ں تو صوبہ کے پی کے کے وزرائے اعلیٰ عادت کے لحاظ سے صوفی منش ہی گزرے ہیں۔ عوام کا ان سے ملناجلنا کسی تکلفات کا متقاضی نہ تھا ۔ وزیر اعلیٰ ڈاکٹرخان صاحب کا دور اس لحاظ سے سنہر ی تھا اگریہ کہا جا ئے کہ انھو ں نے ہی حکمر ان اورعوام کے فرق کو مٹایا تو یہ مبالغہ نہ ہوگا ۔ لو گ بے دھڑک ان سے ملا قات کے لئے جب جی کر تا چلے آتے تھے۔ ان روایات کو خان عبدالقیوم خان نے بھی کا فی حد تک نبھا یا مگر وہ آمرانہ مزا ج رکھتے تھے ۔ عوامیت کواجا گر کرنے میں سابق وزیر اعلیٰ مو لا نا مفتی محمو د ؒ او ر سابق گورنر ارباب سکندر خلیل نے جو مثال قائم کی وہ اب تک منفر د مقام رکھتی ہے ، ان دونوں کے دروازے اگر یہ کہا جا ئے کہ عوام کے لئے دن رات کھلے رہتے تھے تو یہ دروغ گوئی نہ ہوگی۔ لو گ وزیر اعلیٰ ہا وس اور گورنر ہاوس بلا دھڑک اور بلا کھٹکے پہنچ جا یا کر تے تھے ، ان روایا ت کو پیر صابر شاہ نے بھی خوب نبھا یا بلکہ اپنی روایتی کشش کو مزید جلابھی بخشی مگر افسو س کہ وہ سازش کا شکا رہو گئے۔ زیا دہ عرصہ گو شہ وزارت اعلیٰ میں نہ ٹھہر پائے ۔ 
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اس صوبے کے حکمر انوں میں چند کو چھو ڑ کر سب ہی عوامی مزاج رکھتے تھے۔ ارباب جہا نگیرخلیل کی تو مثال ہی لا مثال ہے ان جیسا عوامی مزاج کا کوئی حکمر ان نہیں آیا ، ان کے دفتر کے دروازے پر اورنہ ان کے گھر کے گیٹ پر کوئی پہر یدار مو جو د پا یا گیا نہ انھو ں نے کسی کو مایو س کیا۔ وہ اپنی مثال آپ تھے مگر وزیر اعلیٰ پر ویز خٹک کی بات الگ سی ہے جب انھو ں نے وزارت اعلیٰ کا قلمدان سنبھا لا تو گما ن تھا کہ وہ اپنے قریبی عزیز سابق وزیر اعلیٰ نصراللہ خٹک کی کم از کم طر ز حکمر انی کا اعادہ کر یں گے وہ بہت دوست نو از تھے۔ وزیر اعظم بھٹو مر حوم جیسے لیڈر کے وزیر اعلیٰ ہو تے ہوئے انھو ں نے صوبائی امور میں کسی مداخلت کو قبول نہیں کیا۔ ان کے بارے میں کہا جا تا تھا کہ وہ قیو م خان کی کا پی ہیں ، اند از گفتگو اور احکامات کا طرز سب قیو م خان جیسا تھا ۔ وہ بھی مخالفین کو قیو م خا ن کی طر ح نہ برداشت کرنے کا مادہ رکھتے تھے نہ ا ن سے عفو و درگزر کا جذبہ کا ر فر ما تھا ۔ قیو م خان بھی مخالفین کو جیل یا تر ا کر دیتے تھے تاہم نصراللہ خٹک تو ایساکوئی خا ص زیا دہ نہیں کر تے تھے مگر پی پی کے متوفی رہنما قمر عباس ان کے تما م دور میں قید وبند ہی میں رہے ۔ مخالفت کی بناء پر انھو ں نے عنایت گنڈا پور کو بیک جنبش قلم وزارت سے برطرف کر دیا تھا۔خٹک کے دور میں جب ان کے وزیر ضیا ءاللہ آفریدی کو گرفتار کیا گیا تو اس وقت نصراللہ کی یا د عوام میں عود کر آئی ۔ احتساب بیو ر و نے اس کے بعد پھر کسی بڑی مچھلی پر ہا تھ نہیں ڈالا اب تو سارا کا م بار بار کی ترمیمات کے انتظار میں ٹھپ پڑ ا ہو ا ہے اور توقع یہ کی جا رہی ہے کہ ترمیم کے چکر میں ہی تحریک انصاف کی مدت پو ری ہو جا ئے گی ، کہا جا رہا ہے کہ احتساب قانون میں ایک عجیب ترمیم تجو یز کی گئی ہے کہ اگر مقدمہ 120 بعد چلا یا گیا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ نا مزد مقدمہ بے قصور ہے کیا خوب احتساب ہے پھر تو سب گرفت میں آنے والے بے قصور ہی ٹھہر یں گے کیو نکہ وہ کوئی بہت ہی بد نصیب ہو گا جس کا مقدمہ 20 دن کے اند ر اند ر عدالت میںپیش کر دیا جا ئے گا ۔
    پر ویز خٹک واقعی سادہ لو ح وزیر اعلیٰ ہیں ، ان کے بارے میں ایک مرتبہ عمر ان خان نے کہا تھا کہ وہ ایک شریف سادہ لوح آدمی ہے پا رٹی کے کچھ لو گ ویسے ہی ان سے نا راض ہیں ، کوئی ما نے نہ ما نے یہ عمر ان خان نے دھر نا تحریک سے لے کر اب تک جو زبردست بات کی ہے وہ پر ویز خٹک کی سادگی کی ہی کی ہے ، جہا ں تک مخالفین کا تعلق ہے تو ان کی سمجھ میںیہ بات نہیں آتی کہ پر ویز خٹک کو کا م کر نے کا موقعہ ہی کب ملا ہے ، قلمد ان میز پر رکھتے ہی تو ان کو دھر نا سیاست کی طرف لپک جھپک کر نا پڑ گئی اور ان کو کا فی وقت اسی میں ڈھیر ہو گیا ، ویسے بھی بقول مخالفین کے کے پی کے ایک وزیر اعلیٰ تو آئینی اور قانونی طو پر ہیں مگر اختیا ر ڈفیکٹو طورپر تین دوسروں کے ہا تھ میں عمر ان خان نے دے رکھے ہیں ۔ اس سلسلے میں جہا نگیر ترین ، اسد عمر اور شاہ محمود قریشی کے نا م لیے جا تے ہیں ویسے جہا نگیر تر ین کے تو بہت سے اثرات رونما ہو ئے ہیں ، مثلاًسابق صوبائی وزیر نیک سعید وطینیت شوکت یو سف زئی نے جب ان غیر منتخب عنا صر کی مداخلت قبول نہ کی تو ان کو گھر کی راہ دیکھا دی گئی ، شوکت یو سف زئی کا ماضی ایک طالب علم لیڈر اور ایک بے باک صحافی کا ہے اس لیے وہ سیاست کی گھتیوں سے الجھنابھی جانتے ہیںاور ان کو سلجھنا بھی جا نتے ہیں اسی بنا ءپر تحریک کے جغادری ان کو اس کھیل میں زیا دہ مات نہ دے سکے ۔ جہا ں تک پر ویز خٹک کا تعلق ہے تو وہ واقعی سادہ لو ح ہیں صوبے میںہفتہ صفائی منا رہے ہیں ، یہ بھی عجب منظق ہے کہ قومیںاپنے تہو ار یا قومی دن مناتی ہیں تحر یک انصاف کی حکومت صفائی کا ہفتہ منا رہی ہے کیا پہلے صفائی نا پید تھی کہ اس شعور اجاگر کیا جارہا ہے اور جب یہ ہفتہ یا مہینہ منا لیا جا ئے گا تو پھر صفائی کا کیا حال ہو گیا یہ تو ہمہ وقت کی ضرورت ہے ۔
      پر ویز خٹک کی سادہ لوحی بھی سادہ سی ہے کہ انھوں نے فرمایا ہے کہ جہا ں صفائی نہ نظر آئے تو اس علا قے کے لو گ تما م گند اٹھا کر نا ظم یا کو نسلر کے گھر کے سامنے پھینک دیں ۔ بھئی پر ویز خٹک یہ تو بتائیں کہ ناظم کو نسل او ر کو نسل کا صفائی سے کو نسا علاقہ ہے ان کے علم میںیہ بات بھی نہیںکہ ان کی حکومت نے شہر کی صفائی کا نظام ایک نجی ادارے کو بچ دیا ہے اوروہ ہی اب اس کی ذمہ دار ہے اگر وہ یہ کہتے کہ گندگی ڈھیر ان کے منظور نظر نجی ادارے کے افسرو ں کے گھر وں کے سامنے ڈال دیا جا ئے تو یہ ہو شیاری کی بات کہلا تی ، یونین کو نسلر و ں کے پا س تو کوئی بلکہ کسی قسم کا کوئی اختیا ر نہیں ہے ، ان کو اختیار دے کر دیکھیں کہ کا م کس طر ح ہو تا ہے جہا ں تک گند گی کو نسلر و ں کے گھر وں کے سامنے ڈالنے کی بات ہے تو ایک وزیر اعلیٰ کو اتنا تو معلو م ہونا چاہیے کہ گندگی پھیلا نے میں ان بے بس کو نسلر وں کا کوئی قصور نہیں ہے اور عوام میں اتنی استعداد ہو تی کہ وہ گندگی اٹھا کر کہیں پھینک سکتے تو کو نسلر و ں اور نا ظمین کے گھر و ں سے بھی زیا دہ مﺅ ثر اور بہت سے محلا ت بھی ہیںجہا ں ان کو پھینکا جاسکتا ہے ۔چلیں اب تو عمر ان خان پانا مہ لیکس کے مقد مے کی طرف متو جہ ہیں خیر سے صوبائی حکومت کو ٹاسک بھی دیا گیا ہے کہ وہ اپنے کا رنا موں کی پبلیسٹی مہم کو بڑے تام جھا م سے شروع کرے کیو ں کہ انتخابات نزدیک تر ہیں۔عوام کو آگہی حاصل ہو کہ صرف دھر نا ترقی پر کا م نہیں ہو ا ہے اور بہت کچھ ہو ا ہے ، صفائی کی یہ مہم بھی اسی کی کڑ ی ہے مگر حکمر انو ں کو یہ بھی تو معلو م ہو نا چاہیے کہ کس کو یہ کا م ساجے ہے کو نسل تو مظلو م ہے کیو ں کہ وہ قریہ کے عام علاقوں کا باسی ہے جس کے پا س رات کے کسی پہر بھی ضرورت مند پہنچ جا تا ہے مگر وہ اختیارات سے دونو ں ہا تھ خالی ہے جو با اختیا ر ہیں وہ دہشت گردی کے خوف سے اپنے لیے اونچی اونچی حفاظتی دیو اریںچڑھے بیٹھے ہیں بھلا ایک عام آدمی ان کو کیسے پھاند سکتا ہے ۔
******

شیئر: