Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستانی ٹیسٹ ٹیم کی آسٹریلیا میں پھر شکست

 
 موجودہ اسکواڈ میں کوئی میچ ونر ہے نہ پی سی بی نے اس کےلئے کوئی کوشش کی،یاسر شاہ کا ٹرمپ کارڈ کام آیا نہ محمد عامر جیسا تیز ترین ہتھیار چل سکا،بیٹسمینوں کی ناقص کارکردگی تو عرصے شکست کی بنیاد بنتی آرہی ہے
 
 جمیل سراج  ۔۔ کراچی
 
 
سڈنی ٹیسٹ کے چوتھے روز کے اختتامی لمحا ت میں ہی پاکستان پر کلین سو یپ شکست کے بادل گہرے ہوچکے تھے جسے آسٹریلوی ٹیم نے میچ کے پانچویں روز 64 اوورز میں ہی اپنی شاندار کامیابی کے ساتھ انجام تک پہنچا دیا دیا۔دورہ نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا میں پاکستانی ٹیسٹ ٹیم کی یہ مسلسل چھٹی ناکامی تھی جس کا سلسلہ یو اے ای میںویسٹ انڈیز نے سیریز کے تیسرے ٹیسٹ میں شکست دے کر شروع کیا تھا۔ نیوزی لینڈ نے دو میچوں کی سیریز جبکہ اب آسٹریلیا نے 3 میچوں کی سیریز میں مصباح الیون کو ناکوں چنے چبواتے ہوئے شرمناک شکست سے دوچار کیا، سابق چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ خالد محمود نے” اردو نیوز “سے خصوصی گفتگو میں کہا کہ پاکستان ٹیم کی آسٹریلیا کی سر زمین پر کارکردگی عموماًایسی ہی رہی ہے۔ کامیابی کم کم ہی وہاں کے حالات میں اس ٹیم کا مقدر بنی ہے ۔ماسوائے 1976 کی سیریز میں جب میلبورن کے ہیرو سرفراز نواز اور سڈنی کے ہیرو عمران خان نے اپنی شاندار بولنگ سے وہاں تباہی مچائی تھی لیکن نائنٹیز کے بعد ایسا لگا کہ گویا گرین کیپس کے پیس اٹیک کو جیسے کسی کی نظر لگ گئی ہو۔
وسیم اکرم، وقار یونس اور شعیب اختر نے جس طرح اپنی سنسنی خیز اور برق رفتار گیندوںسے دنیا کے بڑے سے بڑا بیٹسمین کو خوف زدہ کئے رکھا اس کی مثالیں آج بھی لوگ دیتے ہیں ،لیکن موجودہ اسکواڈ میں کوئی میچ ونر ہے نہ پی سی بی نے اس کے لئے کوئی کوشش کی،اس سیریز سے پہلے یہی کہا جا رہا تھا کہ یاسر شاہ ہمارا ٹرمپ کارڈثابت ہوں گے اور محمد عامر تیز ترین ہتھیار ہوگا تو پھر وہ سب کہاں رہ گئے جو ٹیم کو بدترین شکست کی ہزیمت اٹھانی پڑی،دوسرا سب سے اہم پہلو یہ تھا کہ اس دفعہ ٹیم کو کمزور قیادت کا مسئلہ درپیش تھا۔مصباح الحق کی انفرادی کارکردگی بھی مستقل ایک سوالیہ نشان بنی رہی،وہ کارکردگی کے اعتبار سے گزشتہ چھ ٹیسٹ میچوں میں ناکام چلے آرہے ہیں، انہیں اس کارکردگی کے پیش نظر از خود کپتانی اور ٹیم سے کنارہ کشی اختیار کرلینی چاہئے تھی لیکن انہوں نے اس اخلاقی جرات کا مظاہرہ نہ کرکے غلط روائت قائم کی۔جہاں تک ہماری مجموعی کارکردگی کا سوال ہے تو اس پر یہی کہا جائے گا کہ یہ ہمارے سسٹم میں موجود خامیوںاور پی سی بی کی ناقص حکمت عملیوں کے تسلسل کا حصہ ہے جسے ہمارا قومی المیہ کہا جائے گا۔
اسی فرسودہ سسٹم کے ستائے دو قومی کرکٹرز باصلاحیت بیٹسمین عاصم کمال جن کو پسند و نا پسند کی بھینٹ چڑھا دیا گیا اوردوسرے تیز بولر تنویر احمد نے ان کرکٹرز نے اپنے تبصروں میں اس شرمناک شکست کو پی سی بی اور ٹیم انتظامیہ کی ناکامی قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا جس ٹیم میں آخر تک معلوم نہ ہوکہ کس کرکٹر کو میچ کھیلنا ہے اور کس کو بیٹھنا ہے اس ٹیم کی ایسی کارکردگی آجائے تو اسے بری کارکردگی نہیں کہی جائے گی یہاں کا کرکٹ کلچر مختلف اور جس میں سیاسی اثرو رسوخ کی آمیزش نمایاں ہے،سمیع اسلم کو ہی لے لیں۔ 2 ٹیسٹ میں اسے کھلایا گیا جب وہ 4 اننگز ان مخصوص کنڈیشنز میں کھیل کر قدرے قابل بھروسہ ہوا تو اسے ڈراپ کرکے شرجیل خان کو شامل کرلیا گیا جو پہلی اننگز میں جلد پویلین لوٹ گئے جبکہ دوسری باری میں 40 رنز اسکور کرنے میں کامیاب ہوئے، یہ تو تھی ایک کھلاڑی کی کارکردگی اسی طرح کئی دیگر کھلاڑیوں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان لگائے جاسکتے ہیں، سینئر کھلاڑیوں سمیع اسلم اور بابر اعظم بھی اپنے انتخاب کو درست ثابت نہ کرسکے، ایک آدھ اننگز میں کچھ رنز اسکورکرلینے سے فرق نہیں پڑتا، طویل مدت تک کیلئے ٹیم میں جگہ بنانے کیلئے ایک اوپننگ بیٹسمین کو تسلسل کے ساتھ رنز اسکور کرنا لازمی ہوتا ہے جس کا ہمارے کرکٹ کلچر میں فقدان دکھائی دیتا ہے، ان کرکٹ ماہرین کا یہی کہنا ہے کہ جب تک ہم پورے کرکٹ نظام کو از سر نو تشکیل نہیں دیں گے ہم عالمی رینکنگ میں کسی بھی پوزیشن پر برقرار نہیں رہ سکتے۔
چند ماہ پہلے کی بات ہے ہم آئی سی سی ٹیسٹ رینکنگ میں نمبر ون کی پوزیشن پر تھے جسے ہند نے دوبارہ ہتھیاتے ہوئے پاکستان کو دوسرے نمبر پر دھکیلا، پھر نیوزی لینڈ سے شکست کے بعد اسے نمبر3 کی پوزیشن سے بھی ہاتھ دھونا پڑے اور اب کینگرو دیس میں رہی سہی کسر موجودہ نمبر ٹو ٹیم آسٹریلیا نے پوری کردی، اب آئندہ اس ٹیم کے ساتھ کیا ہونے جا رہا ہے، اس بارے کچھ کہنا بہت مشکل نہیں ہوگا، یہی کہ آپ کی ٹیم کسی بھی حریف سائڈ سے کھیل کر اپنی پوزیشن مزید نیچے کرلے گی کیوںکہ یہ اس کا خاصہ ہے، یہ دنیا کی واحد ٹیم ہوگی جو اپنی سے غلطیوں سے سیکھتی نہیں، دیگر ٹیمیں ہر غلطی سے کچھ نہ کچھ سیکھتی ضرور ہیں، قومیں ہوں یا ٹیمیں کامیابی کے جھنڈے وہی گاڑتی ہیں جو دوسروںکی عزت کرنا جانتی ہیں جبکہ ہمارے یہاں روایت اس سے یکسر بلکہ مکمل طور پر مختلف ہے،ہم کوئی بھی مقام حاصل کرلینے کے بعد اس کو برقرار نہیں رکھ پاتے،ہم اکثر یہ بھول جاتے ہیں کہ ہم اس پالینے والی منزل یا ”اچیومنٹ“ کو اپنی حسن کارکردگی یا کارکردگی سے کس طرح یا طریقے سے برقرار رکھ سکتے ہیں۔
ماہرین نے ٹیم کی اس بدترین شکست پر برجستہ کہا اس بار دورہ آسٹریلیا کو دیکھ کر لگا ہی نہیں کہ یہ وہی ٹیم ہے جو چند ہفتے پہلے نمبر ون بنی، پھر مزید چند روز کے بعد اسے اپنی دوسری اور اب تیسری پوزیشن سے بھی محروم ہونا پڑا، جس کی وجہ یہی تھی کہ ہم اپنے جملہ بالخصوص کرکٹ کے معاملات میں مخلص نہیں ہیں۔ آسٹریلیا جیسی وکٹوں پر کھیلنے کی جس مخصوص کیفیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے مطابق کھلاڑیوں کے انتخاب کا عمل نہیں کیا گیا جس کے نتیجے میں اس قسم کی کارکردگی کا سامنے آنا فطری ہے۔ ان ماہرین کے خیال میں قومی کرکٹرز نے اس بار آسٹریلیا میں ا س فارمولے کے مطابق کھیلنے کی کوشش ہی نہیں کی جس کی وہاں ضرورت ہوتی ہے ، اگر چہ اس کی کچھ جھلک نظرآئی لیکن اس میں بھی جھول تھا، دوسری طرف ہیڈ کوچ مکی آرتھرکی کارکردگی کو بھی ناقدین نے آڑے ہاتھوں لیا جن کی زیر سایہ قومی ٹیم نے تسلسل کے ساتھ رنز اسکور کئے نہ ہی بولرز نے وکٹوں پہ وکٹیں حاصل کیں۔ان کے کھیل میں اس معیار کا مکمل فقدان رہا ، جس کےلئے ہمارے کرکٹرز مشہور ہیں، اس نشست کے اختتام پر بس قومی ٹیم کے بارے میں اتنا کہا جائے گا کہ ”ٹیم با صلاحیت ضرور ہے لیکن اسے ایک ٹیم بنانے کی اشد ضرورت ہے جس کیلئے لازمی ہوگا کہ اس کے ڈومیسٹک نظام کو از سر نو تشکیل دیا جائے۔ترتیب وآسائش کے مرحلوں سے گزاراجائے جس کے بغیر کسی بھی طرز کی کرکٹ میں کامیابی کا حصول نا ممکن نہیں تو ،مشکل ترین ضرور ہوگا.
٭٭٭٭٭٭
 

شیئر: