Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

فوجی عدالتیں اور حکومت کی مشکلات

 
جنرل ر احیل چلے گئے لیکن فوج کس طرح یہ قبول کرلے گی کہ اُس کی قربانیاں رائیگاں چلی جائیں
 
صلاح الدین حیدر
 
پاکستانی سیاست میں فوج کا کردار 1958ءبلکہ اُس سے بھی پہلے سے رہا ہے۔ ملکی تاریخ کے نصف عرصے میں وطن عزیز میں فوجی حکمراں رہے۔ ابھی حال کی بات ہے کہ راحیل شریف کے جاتے ہی ایسا لگتا تھا کہ موجودہ حکومت نے شاید سکھ کا سانس لیا ہو لیکن کاش ایسا ہوتا۔ ابھی بھی اُس کی مشکلات میں کمی نظر نہیں آتی۔ آئیے ماضی کے جھروکوں میں جھانکتے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو نے ملتان کے کور کمانڈر جنرل ضیاءالحق کو یہ سمجھ کر کہ وہ اُن کے حمایتی ہیں، آرمی کا کمانڈر انچیف بنادیا۔ اُن سے سینیئر افسران جن میں جنرل مجید سالک تک شامل تھے ریٹائر کردیا گیا۔ نواز شریف نے 1998 ءمیں علی قلی خان کے بجائے جنرل پرویز مشرف کو آرمی چیف کے عہدے پر فائز کیا۔ عام خیال یہی تھا کہ مشرف آرمی میں مقبول نہیں ہوں گے اگر اُن کا ارادہ کبھی حکومت کا تختہ اُلٹنے کا ہوا تو وہ ایسا نہیں کرپائیں گے لیکن یہ اُن کی خام خیالی تھی۔ نواز اور مشرف جھگڑا 1998 ءسے ہی شروع ہوگیا تھا یہ ڈھکی چھپی بات بھی نہیں کہ اپریل 1998ء میں مشرف خود نواز شریف کے پاس گئے اور اُنہیں بلاجھجک بتلادیا کہ وہ اپنے پیش رو جنرل جہانگیر کرامت (جن سے جبری استعفیٰ لے لیا گیا تھا) نہیں بنےں گے۔مطلب اُن پر سویلین حکومت کا دباو نہ ڈالا جائے ۔بات بڑھتی گئی اور پھر ابا جی تک پہنچی جنہوں نے اُس وقت اسپتال میں زیر علاج ہونے کے باوجود نواز شریف، شہباز شریف اور مشرف کے درمیان صلح صفائی کرانے کی کوشش کی لیکن نواز شریف اپنی اکڑ سے باز نہیں آئے بلا ٓخر اُن کی حکومت کا دھڑن تختہ ہوگیا، عمر قید کی سزا ہوئی اور پھر طویل جلاوطنی۔
اب جبکہ راحیل شریف بھی ریٹائر ہوچکے ہیں ۔ خبریں گردش کررہی ہیں کہ وہ 39 ممالک کے اسلامی فوجی اتحاد کے سربراہ ہوں گے تو اُنہیں خاصی تنقید کا سامنا ہے۔ ایک ایسے فوجی سربراہ جنہوں نے بے پناہ شہرت اور عزت کمائی، قومی ہیرو بن کر اُبھرے، اب تنقید کے نشانے پر ہیں۔ اس تفصیل میں نہیں جاتے کیونکہ اس سے فائدہ کوئی نہیں پھر بین الاقوامی مضمرات مزید نقصان دہ ہوسکتے ہیں۔ اس لئے ہمارا موضوع آج فوجی عدالتےں ہوں گی، جن کی 2 سالہ میعاد جنوری کو پوری ہوگئی۔ حکومت نے فوراً ہی نئے قانون کی سو جھی کہ فوجی عدالتوں اور انسداد دہشت گردی کی عدالتوں کو ملا کر یکجا کردیا جائے یوں فوجی عدالتوں سے چھٹکارا حاصل کرلیں لیکن نئے آرمی چیف نے اپنے پیش رو کی طرح کور کمانڈروں کا اجلاس بلاکر یہ بات واضح کردی کہ فوجی عدالتوں نے بہت اچھا کام کیا، ان سے دہشت گردی کم ہوئی۔ مقصد یہی تھا کہ اُنہیں پھر سے قائم کیا جائے۔ ظاہر ہے کہ اس کے لئے آئین میں ترمیم ضروری تھی۔ پہلے بھی راحیل شریف کے کہنے پر آئین میں 21 ویں ترمیم کے ذریعے یہ عدالتیں قائم کی گئی تھیں، اُن کی مدت صرف2 سال تھی۔ اب دوبارہ انہیں قائم کرنے کے لیے آئین میں ترمیم کیے جانے کا سوچا جارہا ہے۔ اس سلسلے میں حکومت نے آل پارٹیز کانفرنس 10 جنوری کو بلاکر تمام جماعتوں سے مشورہ کیا لیکن اب بھی اُسے بڑی خفت اُٹھانی پڑی۔ پیپلز پارٹی، جماعتِ اسلامی اور حکومت کی حلیف جماعت جمعیت العلمائے اسلام (ف) نے اس کی بھرپور مخالفت کی۔ تحریک انصاف نے چند وضاحتیں طلب کیں کہ ان کا دائرہ اختیار کیا ہوگا، ان پر عملدرآمد کیسے ہوگا، سویلین حکومت کا کردار کیا ہوگا وغیرہ وغیرہ۔ نواز شریف پھر مخمصے میں پھنسے نظر آتے ہیں۔ ایک طرف دباو اور دوسری جانب سیاسی جماعتوں کے تحفظات اور مخالفت۔ اگر یکسوئی نہیں ہوئی تو پھر قانون کیسے منظور ہوگا۔ آئین میں ترمیم کیلئے پارلیمنٹ کے تین چوتھائی ارکان کی حمایت ضروری ہے۔ نواز شریف کے پاس اتنی تعداد موجود نہیں۔ قومی اسمبلی میں اُن کے پاس صرف سادہ نمائندگی ہے۔ اُن کے لیے دوسری جماعتوں کے بغیر ایسا کوئی بھی قانون یا آئینی ترمیم منظور کرنا ناممکن ہوگا۔ مشاورت ابھی جاری ہے لیکن پیپلز پارٹی اور جماعتِ اسلامی کی حمایت کیسے حاصل کی جائے، یہ ٹیڑھی کھیر ہے، جسے سیدھی اُنگلی سے نہیں نکالا جاسکے گا۔ عوامی جماعتیں اس کے لیے تیار نہیں تو پھر حل کیا ہوگا۔ یہی تو اہم سوال ہے، جس نے نواز شریف کو پھر گرداب میں پھنسا دیا ہے۔
غور سے دیکھا جائے تو سویلین حکومتیں اپنی مشکلات میں خود ہی اضافہ کرتی ہیں۔ راحیل شریف کے زمانے میں 20 نکاتی نیشنل ایکشن پلان بنایا گیا تھا، جس میں قومی سلامتی کونسل کا قیام، لاوڈ اسپیکرز پر جمعہ کے خطبات میں چھان بین، دینی مدارس جن پہ اکثر الزام لگتا ہے کہ دہشت گردی کو ہوا دیتے ہیں، اس حوالے سے حکومت نے کوئی خاطرخواہ اقدامات نہیں کیے بلکہ لاپروائی کا مظاہرہ کیا گیا۔ ظاہر ہے فوج، جس نے قبائلی علاقوں سے القاعدہ، طالبان اور بیرون ممالک کے دہشت گردوں کو مار پیٹ کر کے بھگادیا تھا، نواز شریف کی حکومت سے نالاں نظر آتی تھی کہ اُس نے اپنی ذ مہ داریاں پوری نہیں کیں۔ یہی وجہ نواز اور راحیل شریف کے درمیان کھچاو اور تناوکا باعث بھی بنی تھی۔ راحیل شریف چلے تو گئے لیکن فوج کس طرح یہ قبول کرلے گی کہ اُس کی قربانیاں رائیگاں چلی جائیں۔ فوج کے بیشتر افسران اور جوان شہید ہوئے، صرف اس لئے کہ قوم آرام کی نیند سوسکے۔ لیکن اگر دوسرا فریق اپنی ذمہ داریوں میں کوتاہی برتے تو نتیجہ بھی ادھورا ہی آئے گا۔ دہشت گرد شمالی اور جنوبی وزیرستان سے تو غائب ہوگئے لیکن ملک کے کونے کونے میں پھیل گئے۔ کراچی میں طالبان بڑی تعداد میں براجمان ہیں۔ اُنہیں ایک پارٹی کے سندھ کے صدر نے شہر میں پناہ دی تھی جو خود اپنے علاقوں سے نکال باہر کئے گئے۔ آج کراچی میں اُس جماعت کا نام و نشان نہ ہونے کے برابر ہے۔ پنجاب کے جنوبی علاقے، رحیم یار خان اور کئی دوسرے شہروں میں طالبان موجود ہیں۔ وہاں فوجی ایکشن کیا گیا تو خون خرابہ ہوگا۔ فوج اسی لئے پولیس اور رینجرز کے ذریعے اُنہیں بے دخل کرنا چاہتی ہے لیکن اس کے لئے سویلین حکومتوں کی حمایت بے حد ضروری ہے۔کسی بھی طرح کی ہچکچاہٹ اس پر عملدرآمد میں لامحالہ مخل ثابت ہوگی۔ فوج کو اس کا پورا ادراک ہے، اسی لئے وہ نواز شریف کی طرف دیکھ رہی ہے لیکن وزیراعظم یہ مسئلہ حل کر بھی پائیں گے یا نہیں، یہی تو دیکھنا ہے۔
٭٭٭٭٭٭
 

شیئر: