Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا فوجی عدالتیں ضروری ہیں؟

 
امن و امان کی صورتحال بہتر ہوئی ہے، حکومت سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی کے ساتھ مکالمے کے ذریعے کوئی حل نکالے
 
ارشادمحمود
 
سابق صدر آصف زرداری نے پیپلزپارٹی کے رہنماوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ پارلیمنٹ میں فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کی بھرپور مخالفت کریں۔پیش نظر رہے کہ فوجی عدالتوں نے گزشتہ ماہ کے آخر میں اپنی مدت ختم ہونے کے بعد کام کرنا بند کردیا تھا۔یہ عدالتیں پشاور آرمی پبلک ا سکول پر حملے کے بعد2سال کی مدت کےلئے قائم کی گئی تھیں۔
پیپلزپارٹی کے برعکس اسٹبلشمنٹ کی خواہش ہے کہ فوجی عدالتوں کو کام کرنے دیا جائے تاکہ وہ دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کے مقدمات کو سرعت کے ساتھ نمٹاسکیں۔اس میں کوئی شک نہیں جب فوجی عدالتیں قائم کی گئی تھیں اس وقت دہشت گردوں کا سکہ چلتاتھا۔ ریاستی اداروں کی عملداری کو محض چیلنج ہی نہیں کرتے تھے بلکہ عدالتیں بھی ان سے خوف کھاتی تھیں۔ کئی ایک ججوں اور ان کے اہل خانہ کو ڈرایا دھمکایا گیا۔ بعض کو اغوا بھی کیا گیا۔ اس پس منظر میں فوجی عدالتیں قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا تاکہ دہشت گردوں کو سخت سزائیں دی جاسکیں۔ان عدالتوں نے حقیقت میں اچھا کام کیا اور خطرناک دہشت گردوں کو اپنے انجام تک پہنچایا۔ محض 2برس کے اندرفوجی عدالتوں نے 274مقدمات کی سماعت کی اور مجرموں کو سزائیں بھی دیں۔جس کے نتیجے میں ملک میں امن وامان بڑی حد تک بحال ہوا۔
حقیقت یہ ہے کہ 2سال پہلے یہ طے پایاتھا کہ فوجی عدالتوں کا قیام ایک عبوری اور ہنگامی نوعیت کا فیصلہ ہے۔حکومت نے اس دوران قوانین میں ضروری ترمیم کرنا تھی۔ ایسا نظام عدل وضع کرنا تھا جو اداروں کو دہشت گردوں کے خلاف اعتماد اور بے خوفی کے ساتھ بروئے کار آنے میں معاونت کرتا۔ اس مقصد کے لئے کچھ قانون سازی بھی پیش نظر تھی جن میں گواہوں کو خفیہ رکھنے سمیت کئی ایک ضروری ترامیم کی جانی تھیں تاکہ مجرموں کو ججوں، گواہوں او رپولیس کو ڈرانے دھمکانے کا موقع نہ مل سکے۔تفتیش اور پراسیکیوشن کے جدید طریقوں کی پولیس اور وکلاءکو تربیت نہیں دی جاسکی۔
سوال یہ ہے کہ پولیس کی استعداد کاری، سرکاری وکلاء یا ججوں کی ضروری تربیت اوران کو تحفظ فراہم کرنا کس کی ذمہ داری تھی یا ہے؟یہ کام حکومت کے کرنے کا تھا جو وہ نہیں کرسکی۔فوجی عدالتوں پر یہ الزام بھی لگا یا جاتاہے کہ وہ سندھ اور بلوچستان میں دہشت گردوں کے علاوہ سیاسی کارکنوں کے خلاف بھی استعمال ہوئی ہیں۔ انسانی حقوق کے عالمی اداروں نے بھی ایسی رپورٹیں شائع کیں جو یہ بتاتی ہیں کہ فوجی عدالتوں میں سب اچھا نہ تھا۔
حکومت کے اپنے اتحادیوں بالخصوص مولانا فضل الرحمان بھی فوجی عدالتوں کے قیام اور ان کی کارکردگی کے سخت ناقد ہیں کیونکہ ان کے حامیوں میں سے بڑی تعداد انتہاپسند گروہوں کی حمایت کرتی ہے۔پیپلزپارٹی اور ایم کیوایم بھی فوجی عدالتوں کی ڈسی ہوئی ہے۔گزشتہ2برسوں میں ان کے کارکن اور رہنما کئی ایک مقدمات میں دھرلئے گئے انہیں سخت سزائیں سنائیں گئیں۔ اس کے برعکس پنجاب میں ن لیگ نے نیشنل ایکشن پروگرام کے تحت کسی بھی گروہ کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہونے دی۔
ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ پنجاب کے وزیر قانون راناثناءاللہ نے ٹی وی انٹرویو میں کہا کہ وہ شروع دن سے فوجی عدالتوں کے حق میں نہیں تھے۔چوہدری نثارکہتے ہیں کہ فرقہ پرست گروہوں کو دہشت گرد نہ شمار کیا جائے ۔ دوسرے الفاظ میں وہ یہ نصیحت فرمارہے ہیں جن فرقہ پرست گروہوں نے ہتھیار اٹھائے ہوئے ہیں اور ایک دوسرے کا خون بہا رہے ہیں انہیں نہ صرف چھیڑا نہ جائے بلکہ انہیں کھلی چھوٹ ہوگی۔ وزیرداخلہ کی نرالی منطق پر صرف یہی کہا جاسکتاہے، ناطقہ سربہ گریباں ہے، اسے کیا کہئے۔
اسٹبلشمنٹ کا مسئلہ یہ ہے کہ عدالتوں پر وہ زیادہ انحصار نہیں کرتی کیونکہ ماضی میں ناقص پولیس رپوٹنگ،سرکاری وکلاء کی جانب سے کمزور پیروی اور گواہوں کی عدم موجودگی کے باعث عدالتیں مجرموں کو رہا کرتی رہی ہیں۔ یہ ایک حقیقی مسئلہ ہے جس کا کوئی مستقل حل ڈھونڈا جانا چاہئے۔ اس سلسلے میں حکومت کو نئی قانون سازی کرنا پڑے تو بھی گریز نہیں کرنا چاہیے۔تمام سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی کے ساتھ مکالمے کے ذریعے اس مسئلہ کا کوئی حل تلاش کیا جائے۔ علاوہ ازیں عدالتوں کے اندر بھی اصلاح و احوال کی اشد ضرورت ہے۔اس وقت بھی ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں مقدمات مختلف سطح کی عدالتوں میں زیرالتوا ہیں۔ پڑدادا مقدمہ شروع کرتاہے اور پڑ پوتا کی آخر عمر میں جاکر فیصلہ صادر کیا جاتاہے۔
فوجی عدالتوں کی بحالی پر بحث کرتے ہوئے یہ حقیقت مدنظر رہنی چاہیے کہ ملک میں امن وامان کی صورت حال میں نمایاں بہتری ہوئی ہے۔دہشت گردی کے اکا دکا واقعات کے علاوہ ملک میں امن بحال ہوچکا ہے۔عالمی ادارے پیش گوئی کررہے ہیں کہ اگلے چند سال میں پاکستان کی معاشی نمو5فی صد کی حد عبور کرجائے گی۔پاکستان ایشیا میں چین کے بعد ترقی کرنے والا دوسرا ملک بننے جارہاہے لیکن ان خوابوں کوحقیقت کا روپ دینے کےلئے ضروری ہے کہ ملک میں سیاسی استحکام ہو۔ بیرونی ممالک سے آنے والوں کی سلامتی اور حفاظت کا مثالی نظام ہونا چاہئے۔ خاص کر انصاف کی فراہمی کا تیز رفتار نظام کا قیام ضروری ہے تاکہ غیرملکی اور ملکی سرمایہ کار خوش دلی اور اعتماد کے ساتھ ملک میں سرمایہ کاری کریں۔
کراچی، بلوچستان اور قبائلی علاقہ جات ایسے علاقے ہیں جہاں ابھی تک پوری طرح د ہشت گردوں کی کمر نہیں ٹوٹی۔ ان علاقوں میں موثر انتظامیہ کی فراہمی، فعال عدالتی اداروں کا قیام اور پولیس کا قابل بھروسہ نظام قائم کرنا پڑے گا۔ اسی صورت میں پاکستان کی ترقی کا پہیہ رواں ہوسکے گا۔محض سی پیک، سی پیک کا ورد کرنے اور چین کی سرمایہ کاری پر دادوتحسین کے ڈونگر ے برسانے سے کچھ حاصل نہ ہوگا۔ فوجی عدالتیں حالت جنگ میں گواراکی جاسکتی ہیں لیکن جمہوری ممالک اور ایک ایسے سماج میں جہاں شہری انسانی حقوق کے بارے میں حساس ہوں،مسلسل الیکشن کا عمل بھی جاری ہو اور ملکی قیادت عوام کی نمائندہ ہو وہاں معتبر عدالتی نظام کا قیام اور اس کی بالادستی ناگزیر ہے۔
(ن) لیگ کی حکومت کے پاس اب وقت کم اور مقابلہ سخت ہے۔وہ گزشتہ 3،4 سال میں عدالتی نظام کو فعال بنانے کےلئے کوئی قابل ذکر کام نہیں کرسکی۔اس طرح پولیس کی اصلاح اور اس کی استعداد میں اضافے کے لئے بھی خاطر خواہ وسائل مختص نہیں کئے گئے چنانچہ آج بھی پنجاب کے تھانے عہد رفتہ کے کھنڈرات کی تصویر پیش کرتے ہیں۔ پولیس افسروں کے چہروں پر طاری غضب دیکھ کر مخلوق خدا خوف سے تھرتھراتی ہے۔
٭٭٭٭٭٭

شیئر: