Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کرکٹ بیٹس کا سائز کم کرکے جارحانہ بیٹنگ نہیں روکی جاسکتی، ماہرین

 
کرکٹ کے کھیل میں ٹی ٹوئنٹی کی آمد کے بعد بیٹ اور بال کے درمیان توازن بری طرح متاثر ہوا ہے ۔جس طرح کے بیٹ سے ڈیوڈ وارنر آئے روز چھکوں چوکوں کی برکھا برساتے ہیں، اگر ایسا کوئی بیٹ ویوین رچرڈز یا برائن لارا کے پاس ہوتا تو وہ بولروں کا کیا حشر کرتے؟
کرکٹ ماہرین کا کہنا ہے کہ جارحانہ بیٹنگ دورحاضر کے کرکٹ کا بنیادی جزو بن چکی ہے اور اب اسے قوانین یا کرکٹ بیٹس کا سائز کم کرکے نہیں روکا جاسکتا۔ اس بات کی تصدیق ہند میں کرکٹ بیٹس تیار کرنے والی ایک معروف کمپنی نے بھی کی ہے اور ان کا کہنا تھا کہ کرکٹ قوانین تیار کرنے والی میرلی بون کلب کی جانب سے بیٹس کا سائز او رموٹائی کم کرنے کی سفارشات کے باوجود ہمارے پاس بھاری اور موٹے بیٹس کے آرڈر آرہے ہیں اور معروف کھلاڑی ابراہم ڈی ویلیئرز اور ڈیوڈ وارنر بھی ہمارے مستقل گاہک ہیں۔ چند ہفتے پہلے لارڈز کرکٹ گراونڈ میں قائم میرلی بون کرکٹ کلب نے مختلف سفارشات پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ ماردھاڑ نے کرکٹ کا اصل حسن ختم کردیا ہے اور ضرورت اس بات کی ہے کہ کرکٹ بیٹس کا وزن ، چوڑائی اور موٹائی میں کمی کی جائے۔ حالیہ دنوں میں تمام معروف اور جارحانہ کرکٹ کھیلنے والے کھلاڑیوں کے کرکٹ بیٹس کا بھی تذکرہ کیا گیا اور ان کے سائز کا تجزیہ 50 ، 60 سال قبل استعمال ہونے والے بیٹس سے کیا گیا۔ 
ماہرین کا کہنا تھا کہ ابراہم ڈی ویلیئرز نے ون ڈے انٹرنیشنل میچ میں 31 گیندوں پر جو سنچری مکمل کی اس کیلئے انہوں نے جو بیٹ استعمال کیا ، قدیم دور کے کھلاڑی ایسے بیٹس سے کھیلنے کا تصور بھی نہیں کرسکتے تھے۔ گزشتہ چند سالوں سے مختصر دورانئے اور خاص طور پر ٹی ٹوئنٹی فارمیٹ کی مقبولیت میں جو اضافہ ہوا ہے اس کی بنیادی وجہ جارحانہ بیٹنگ ہی ہے۔ اس صورتحال کی وجہ سے بولرز بھی بڑی حد تک پس منظر میں چلے گئے ہیں اور ایک زمانے میں فاسٹ یا اسپن بولنگ کو کھیل کا حسن کہا جاتا تھا لیکن اب حقیقی طور پر یہ حسن گہناتا نظر آرہا ہے۔ اب بولرز کے بجائے بیٹسمین زیادہ شہرت حاصل کررہے ہیں۔ کرکٹ ماہرین کے مطابق کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ بیٹ او ر گیند میں توازن لایا جائے تاکہ کھیل یکطرفہ رخ اختیار نہ کرے۔ موجودہ صورتحال میں ٹی ٹوئنٹی اور ون ڈے کے ساتھ ساتھ بعض ٹیسٹ میچوں میں بھی بیٹسمین وہ جارحانہ بیٹنگ کرتے نظر آئے جو عام طور پر مختصر فارمیٹ کا حصہ ہوتی تھی۔ پاکستان کیخلاف آسٹریلوی کھلاڑیوں نے آخری ٹیسٹ میچ کے دوران جس طرح بیٹنگ کی وہ ٹیسٹ کے بجائے ون ڈے میچ دکھائی دیتا تھا۔ ایم سی سی کو حقیقت پسندی سے کام لینا ہوگا اور اس بارے میں کھلاڑیوں کی تنظیموں سے بھی مشاورت ضروری ہے۔ 
گزشتہ چند برسوں میں جتنے بھی نئے قوانین متعارف کرائے گئے زیادہ تر بلاواسطہ بلے بازوں کے حق اور بالواسطہ بولروں کے خلاف رہے ہیں۔ نئے قوانین بننے کا فائدہ تو بلے بازوں کو ہوا ہی، کچھ قوانین کا عدم وجود بھی بلے بازوں کے لیے ہی مددگار ثابت ہوا۔
جب ایک اچھی آﺅٹ سوئنگ پر ایج لگ کر بھی گیند سلپ کے اوپر سے باو¿نڈری پار کر جائے، جب تیز رفتار باو¿نسر بیٹ کے کسی بھی کنارے پر لگ کر چھکا بن جائے اور جب اچھے یارکر اندرونی کنارے پر لگنے کے بعد بھی وکٹ اڑانے کی بجائے بولر کے ہی ہوش اڑا دیں تو ایسے میں فاسٹ بولر کے پاس کیا چارہ ہے سوائے اس کے کہ آڑی ترچھی دھیمی آنچ کی گیندوں سے بس اپنا کوٹہ پورا کرے اور کسی طرح بلے
 بازوں کے قہر سے بچ جائے۔
ایم سی سی کا کہنا ہے کہ اس تبدیلی کا مقصد کرکٹ کو 50، 60 کی دہائی میں دھکیلنا ہرگز نہیں بلکہ اس توازن کو بحال کرنا ہے جو بیٹ اور بال کے درمیان ختم ہوتا جا رہا تھا۔ اب یہ تو آئی سی سی کو ہی طے کرنا ہے کہ اس قانون کا اطلاق کب اور کیسے ہو گا لیکن اگر اس قانون کا اطلاق ہو گیا تو ہمیں کافی دلچسپ اور بہتر کرکٹ دیکھنے کو ملے گی۔جب بیٹ کی جسامت و ضخامت کی قانونی حدود متعین ہوں گی تو پتہ چلے گا کہ ڈیوڈ وارنر کے بیٹ کے باہری کنارے کو چھوتی گیند واقعی باو¿نڈری تک جا سکتی ہے یا نہیں۔ کرس گیل کے کتنے شاٹ اڑ کر تماشائیوں کی گود میں گر سکتے ہیں اور مہندر سنگھ دھونی آخری اووروں میں کتنی میچ وننگ اننگز کھیل سکتے ہیں۔
******

شیئر: