Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ذکر الٰہی کے زبردست فائدے

آپمعمول تھا کہ آپ نماز فجر کی ادائیگی کے بعد مسجد ہی میں تشریف فرما رہتے‘ حتی کہ سورج طلوع ہو جاتا۔ پھر آپ چاشت کے نوافل ادا کرتے اور گھر تشریف لاتے

- - - - - - - - - -

عبدالمالک مجاہد - ریاض

- - - - - - - - - -

صدیوں پہلے کی بات ہے ۔ ایک چھوٹے سے شہر میں عشاء کی نماز ہو چکی ہے۔ مسجد کے نمازی آہستہ آہستہ اپنے گھروں کی طرف روانہ ہو رہے ہیں۔ مسجد کے کونے میں ایک مسافر بیٹھا اللہ کا ذکر کر رہا ہے۔ تھوڑی دیر گزری‘ سوائے اس مسافر کے تمام نمازی اپنے گھروں کو جا چکے ہیں۔ اب مسجد میں صرف خادم اور مسافر رہ گئے ہیں۔ خادم نے تھوڑی دیر تو صبر کیا ‘ پھر مسافر کے سر پر جا پہنچا اور بڑی سختی سے کہنے لگا: میاں جلدی کرو‘ مسجد سے نکلو مجھے مسجد بند کرنی ہے۔ مسافر جو اپنے حلیے اور شخصیت سے بہت باوقار لگ رہا تھا‘ اس نے خادم سے کہا:

میں اس شہر میں اجنبی اور مسافر ہوں۔ شہر میں میرا کوئی جاننے والا نہیں ہے۔ اس لیے مجھے یہ رات مسجد ہی میں گزارنی ہے‘ مگر ہماری اس مسجد میں کوئی شخص رات کو قیام نہیں کرسکتا‘ خادم نے کہا۔ مسافر نے پھر اس سے کہا: دیکھو میرے بھائی! میں مسافر ہوں اور اس شہر میں اجنبی ہوں۔ میں اس وقت کہاں جاؤں؟رات گہری ہو رہی ہے۔ خادم نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا: مجھے اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ اس شہر میں تمہارا کوئی جاننے والا ہے یا نہیں‘ یا تم رات کہاں بسر کرو گے۔ فی الحال تو تمہیں مسجد کو خالی کرنا ہوگا۔ مجھے اسے تالا لگانا ہے۔مسافر نے خادم کو بہتیرا سمجھانے کی کوشش کی‘ مگر خادم پر کوئی اثر نہ ہوا۔ اب تو اس نے حد ہی کردی۔ اس نے زبردستی مسافر کا بازو تھامااور اسے سختی سے ساتھ لے کر مسجد سے باہر کی طرف چل دیا۔مسافر اس سے بار بار درخواست کررہا ہے: اللہ کے بندے! تمہیں کیا فرق پڑتا ہے؟ تمہارا کیا جائے گا۔ چند گھنٹوں کی تو بات ہے۔صبح ہوتے ہی میں یہاں سے روانہ ہو جاؤںگا۔

قارئین کرام! یہ وہ دور تھا جب مساجد میں مسافروں کا قیام وطعام قطعًا معیوب نہیں سمجھا جاتا تھا۔جس زمانے کی بات ہم کررہے ہیں اس زمانے میں تو آتے جاتے راہ گیر مساجد ہی میں قیام کیا کرتے تھے۔ اہل محلہ ایسے لوگوں کے لیے خوشدلی سے اپنے گھروں سے کھانا لاتے۔بعض مسافر کئی کئی دن مساجد میں قیام کرتے۔ اہل محلہ یا آس پاس رہنے والوں کی ذمہ داری تھی کہ وہ مسافرو ں کے قیام وطعام کی جملہ ضروریات کا خیال رکھیں۔اس خادم کو نجانے کیا ہوا تھا کہ وہ اس مسافر کے ساتھ مسلسل بد تمیزی کرتا چلا جا رہا تھا۔ دیکھنے میںیہ مسافر کوئی عام شخص نظر نہ آتا تھا‘ بلکہ بہت ہی معزز ومحترم دکھائی دیتا تھا۔مسافر بہر حال مسافر ہوتا ہے۔ وہ اجنبی اور لاچار ہوتا ہے۔ خادم مسافر کو مسجد سے نکالنے میں کامیاب ہو گیا۔مسافر نے اس سے کہا:

دیکھو! اگر تم مجھے مسجد کے اندر رات گزارنے کی اجازت نہیں دیتے تو مسجد کے دروازے کے باہر دہلیز پر سونے کی جگہ ہے میں اسی جگہ چادر بچھا کر رات گزار لیتا ہوں‘ مگر اس روز نہ جانے خادم کو کیا ہوا تھا کہ اس نے مسافر کو مسجد کی دہلیز پر سونے سے بھی روک دیا۔ مسجد کے سامنے ہی ایک تنور تھا۔ تنور پر آنے والے گاہکوں کا سلسلہ تھم چکا تھا۔ نانبائی اب گھر جانے کی تیاریوں میں تھا۔ا س نے مسافر اور خادم کے درمیان ہونے والی تکرار سنی تو تنور بند کرکے دوکان کو تالا لگا کر مسافر او رخادم کی گفتگو سننے لگا۔جب اس نے دیکھا کہ خادم کسی طور بھی مسافر کو مسجد میں سونے کی اجازت دینے پر آمادہ نہیں تو آگے بڑھا اوراس مسافر سے بہت ادب سے کہنے لگا:

جناب! چلیے آپ رات میرے گھر پر بسر کر لیجیے۔ اس نے نہایت احترام سے مسافر کا ہاتھ تھاما اور اسے لے کر گھر کی طرف چل دیا۔مسافر بھی اس وقت مجبور تھا۔ نہ جانے ا س کے پاس پیسے نہیں تھے یا اس بستی میں کسی سرائے کا وجود ہی نہ تھا۔مسافر نے دیکھا کہ نانبائی کثرت سے استغفار کر تا ہوا جا رہا ہے۔ گھر میں داخل ہوئے تو بھی ا س کے ذکرو استغفار کا سلسلہ جاری رہا۔ مسافر کو نانبائی کااہتمام کے ساتھ اس طرح ذکر واستغفارکرنا بہت بھلا لگا۔نانبائی صبح سویرے پھر اٹھ کھڑا ہوا۔ اس نے روزمرہ کے کام شروع کیے۔ آٹا گوندھنے لگا تو اس دوران بھی وہ کثرت سے ذکر اذکار کرتا رہا۔مسافر نے بہت تعجب سے اس نانبائی کے معمولات پر غور کرنا شروع کیا۔بظاہر یہ ایک ان پڑھ شخص ہے جس کا کام تنور میں روٹیاں لگانا اور فروخت کرنا ہے‘ مگر اس کا تعلق اللہ تعالیٰ سے اس قدر گہرا ہے کہ وہ مسلسل اللہ تعالیٰ کو یاد کرتا چلا جا رہا ہے۔ قارئین کرام! وہ لوگ بڑے خوش قسمت ہوتے ہیں جو ہر حالت میں اپنے رب کو یاد کرتے رہتے ہیں۔ اس کا ذکرکرتے ہیں‘ اس کا شکر ادا کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتا ب مقدس قرآن کریم میں ارشاد فرمایا ہے:

{فَاذْکُرُونِي أَذْکُرْکُمْ} ’’ تم مجھے یاد کرو‘ میں تمہیں یاد کروں گا۔‘‘ {وَاشْکُرُوا لِي وَلَا تَکْفُرُونِ} ’’ میرا شکر ادا کرو اور ناشکری سے بچ کر رہوـ۔ قرآن کریم میں سورۃ آل عمران کے آخر میں اللہ رب العزت نے عقلمند لوگوں کی نشانیاں بیان کرتے ہوئے فرمایا: {اَلَّذِینَ یَذْکُرُونَ اللَّہَ قِیَامًا وَقُعُودًا وَعَلَی جُنُوبِہِمْ} ’’ جو اٹھتے ‘ بیٹھتے‘ لیٹے ہوئے ہر حال میں اللہ تعالیٰ کو یاد کرتے ہیں۔‘‘ اگلی آیت میں فرمایا: وہ لوگ آسمانوں اور زمین کی پیدائش کے بارے میں سوچ وبچار کرتے ہیں۔پھر وہ پکار اٹھتے ہیں: اے میرے رب! تونے یہ سب کچھ بے مقصد پیدا نہیں کیا۔‘‘ قارئین کرام! دیکھا جائے تو وہ ایک معمولی نانبائی تھا‘ مگر وہ ہر قدم پر اپنے رب کو یاد کر رہا تھا۔ مسافر نے نانبائی سے کہا: سنو! میں نے جب سے تمہارے ساتھ ملاقات کی ہے‘ تم مسلسل اپنے خالق ومالک کو یاد کررہے ہو‘ اس کا ذکر کر رہے ہو۔ لگتا ہے کہ ذکر کرنا تمہاری طبیعت ثانیہ بن چکی ہے جو کہ بہت اچھی بات ہے۔ جو شخص کثرت سے اپنے رب کو یاد کرتا ہے اور ذکر واذکار کرتا رہتا ہے‘ اسے بہت سے فوائد حاصل ہوتے ہیں۔

کیا تمہیں بھی اس کثرت سے ذکر اذکار کرنے سے کوئی فائدہ ملا ہے؟ کہنے لگا: کیوں نہیں؟! جناب! مجھے زندگی میں اذکار کے بے پناہ فوائد حاصل ہوئے ہیں۔ میں نے اپنے رب تعالیٰ سے آج تک جتنی دعائیں مانگی ہیں سب قبول ہو گئی ہیں‘ بس ایک دعا باقی ہے جو قبول ہونے سے رہ گئی ہے۔ غالبا یہ میرے گناہوں کی وجہ سے اب تک قبولیت کا شرف حاصل نہیں کرسکی۔ مسافر نے حیرت اور تعجب سے پوچھا: نوجوان! مجھے بتاؤ‘ تمہاری وہ کون سی دعا ہے جو ابھی تک قبول نہیں ہوئی؟ نانبائی نے کہا: میری زندگی کی سب سے بڑی خواہش ہے کہ میری ملاقات ابو عبد اللہ احمد بن حنبل سے ہو جائے۔ابھی تک ایسا موقع نہیں آسکا کہ میری ان سے ملاقات ہوجاتی۔ اجنبی مسافر نے نانبائی کی بات سنی تو مسکرا دیئے اور کہنے لگے:

لو میاں! خوش ہوجاؤ‘ تمہاری وہ دعا بھی قبول کر لی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آج ابو عبد اللہ احمد بن حنبل کو زبردستی تمہارے گھر بھجوا دیا ہے۔ قارئین کرام! اوپر جس واقعہ میں آپ اجنبی مسافر کا ذکر پڑھتے چلے آرہے ہیں‘ وہ چاروں مشہور ترین ائمہ میں سے چوتھے امام ابو عبد اللہ احمد بن حنبل تھے۔یہ کوئی عام شخصیت نہ تھے بلکہ اپنے وقت کے سب سے بڑے عالم اور زاہد تھے۔میں کئی مرتبہ اس واقعہ پر غور کرتا ہوں او راپنے ان سلف صالحین کی سادگی اور تواضع پر حیران رہ جاتا ہوں۔ سبحا ن اللہ!ابو عبد اللہ کو کون نہیں جانتا تھا۔ لوگ تو ان کا نام سنتے ہی احترام سے نگاہیں نیچی کر لیتے تھے۔ ان کے دلوں میں امام صاحب کا بے حد احترام تھا۔ایک وقت تو ایسا بھی آیا جب خلیفہ واثق باللہ کی سب سے بڑی خواہش یہ تھی کہ کسی طرح امام احمد بن حنبل ا س کے گھر تشریف لے آئیں۔ جب مسجد کا خادم انہیں نکال رہا تھا‘ اگر اسی وقت وہ اپنا تعارف کروا دیتے تو کئی لوگ انہیں اپنا مہمان بنانے کو اپنے لیے اعزاز تصور کرتے ‘ مگر ان کا تقویٰ اور تواضع اس اعلیٰ مقام کی تھی کہ انہوں نے اپنا تعارف کسی کو نہیں کروایا۔ بات ذکر واذکار اور اس کے فضائل کی ہو رہی تھی کہ نانبائی نے استغفار اور ذکر کی کثرت سے یہ مقام حاصل کر لیا تھا کہ اللہ تعالیٰ اس کی تمام دعائیں قبول فرما لیتا تھا۔ یہی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے ایسے حالات واسباب پیدا فرما دیے کہ امام احمد بن حنبل جیسی عظیم شخصیت اس کے گھر کی مہمان بنتی ہے۔وہ اس کے گھر پوری ایک رات بسر کرتے ہیں۔

 

مکمل مضمون روشنی13جنوری 2017کے شمارے میں ملاحظہ فرمائییں

شیئر: